تحریک انصاف میں سیاسی دانشوروں سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد قابل ذکر سے زیادہ ہے۔ مگر ثقافتی دانشوروں کی کمی یا ان کو پچھلی صفوں پر رکھنے کا نقصان یہ ہوا کہ ثقافت پر بات کرنے والا کوئی نہیں۔ کرپشن سے نمٹنے کے لیے قانون سے زیادہ کرپشن بیزار ثقافت موثر ہو سکتی ہے‘ ثقافت کا مشترکہ ورثہ قومی یکجہتی مضبوط کر سکتا ہے۔ تاریخ ‘ادب ‘ فون لطیفہ کی سرپرستی کئے بغیر قوم مادی ترقی کر سکتی ہے مگر روحانی اطمینان سے محروم رہے گی۔میں نے ایک بار پنجاب یونیورسٹی میں اپنے طلباء کو بتایا تھا کہ کلچر ان چیزوں کا ذائقہ‘ آواز اور منافع ہے جو زمین سے اگتی ہیں۔ ہم اہل پنجاب لکڑی اور چمڑے سے بنے ڈھول کا ڈغا سنتے ہیں بھنگڑے کے موڈ میں آ جاتے ہیں‘ ونجھلی میں جانے کس چرواہے نے سب سے پہلے چھید کر کے اس میں سے دل موہ لینے والی آواز نکالنے کا جادو سیکھا ہو گا۔ جانے وہ کون ہو گا جس نے دو لمبی بانسریوں کی جوڑی منہ میں دبا کر اسے پورن بھگت کی داستان کے ساتھ بجایا ہو گا۔ مرحوم ڈاکٹر فقیر حسین ساگا ویٹرنری یونیورسٹی لاہور میں استاد تھے مگر ثقافتی حوالے سے فن رقص کے ساتھ جڑے تھے۔ ڈاکٹر ساگا نے پنجاب کے رقص پر کتاب لکھی۔ اس کتاب میں انہوں نے بھنگڑے میں کندھے اچکانے ‘ انگلیاں اٹھا کر ناچنے‘ ایڑھیاں اٹھا کر پنجوں کے بل چھلانگ لگانے کے مطلب بیان کیے۔ یہ کتاب پڑھیں اور پھر بھارت میں 60کی دہائی میں بننے والی فلم بھنگڑا دیکھیں آپ کو پتہ چلے گا کہ پوری دنیا کے دل میں بھنگڑے نے بسیرا کیوں کر رکھا ہے۔ ایک بار استاد مکرم اطہر ندیم مرحوم اشرف قدسی صاحب کے ساتھ ایک گلو کارہ کے گھر گئے۔ گلوکارہ گھر پر نہیں تھیں۔ قدسی صاحب ساہیوال میں کمشنر آفس کے پی آر او تھے۔ وہ اس نامور گلو کارہ کو سرکاری تقریب میں گانے کی دعوت دینے آئے تھے۔ قدسی صاحب گلو کارہ کے بھائی کو لے کر اسے ڈھونڈنے نکلے اور اطہر صاحب کو اس کے گھر چھوڑ گئے۔ اطہر صاحب سے اس گلو کارہ کی سکول جانے والی بہن ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی۔ اس نے اطہر صاحب سے کئی سوالات کئے مثلاً وہ صحافی کیوں بنے۔ وہ کہاں رہتے ہیں‘ ان کا شوق کیا ہے۔ آخر اطہر صاحب نے اس فنکار گھرانے کی لڑکی سے پوچھا! بتائو بھرت نائٹم میں آنکھ کے کتنے اشارے ہیں۔ کتھک رقص میں انگلی کے کتنے اشارے ہیں۔ لڑکی نے تعجب سے دیکھا اور بولی! بائو جی آپ نے تو خود کو صحافی نہیں بتایا ہے؟ عہد حاضر کے لاہور میں منی ایچرآرٹ کے ماہر استاد بشیر کا کام بے مثال ہے۔ ہماری دوست سمیرا امین استاد بشیرکی شاگرد ہیں۔ انہوںنے بھی کمال پایا ہے۔ سمیرا پوری دنیا سے اپنے فن کی داد حاصل کر چکی ہے۔ منی ایچر آرٹسٹ قلم سے رنگ دار ماحول بنانے اور اس ماحول کو ادبی ذوق سے سجانے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ پھر محمد علی زاہد کی خطاطی سے تو کوئی کور ذوق ہی ناواقف ہو گا۔ انہوں نے علامہ اقبال کا بہت سا کلام خطاطی میں ڈھالا ہے۔ اور اگر کوئی یہ نہیں جانتا کہ شاہ حسین‘ بلھے شاہ‘ وارث شاہ‘ سچل سرمت رحمان بابا خوشحال خان خٹک‘ شاہ لطیف بھٹائی ‘ شیخ ایاز‘خواجہ فرید‘ سلطان باہو کیا لکھا کرتے اور کیا کہا کرتے تھے تو اسے اس بات کا کوئی حق نہیں کہ وہ پاکستان کی ثقافت اور ثقافتی شکل کا مذاق اڑائے۔ کہا جاتا ہے رگ وید ہزاروں سال قبل راوی کے ٹھاٹھیں مارتے پانی کے کنارے لکھے گئے۔ غزنوی دور کے شاعر مسعود سعد سلمان کا پنجابی دیوان گم ہوا مگر اس کا فارسی دیوان باقی ہے۔ ایک ہزار سال ہوئے جب اس نے لاہور میں یہ دیوان مرتب کیا۔ بابا فرید نے سات آٹھ سو سال پہلے جو فرمایا وہ پنجاب کی ثقافتی یکجہتی کا مظہر ہوا۔ کیا طفیل نیازی کا گایا گیت ساڈا چڑیاں دا چنبہ وے بابل اساں اڈ جانا۔ اب بھی دل پر اثر نہیں کرتا۔ کیا عاشق جٹ کا مینو پار لنگا دے وے گھڑیاں منتاں تیریاں کردی۔ فراموش کیا جا سکتا ہے۔ کیا عالم لوہار کی جگنی ابھی تک زندہ نہیں‘ کیا مائی بھاگی کی کوک‘ کھڑکی نیم کے نیچے‘ دل میں درد نہیں بھر دیتی‘ کیا استاد جمن کا گیت یار ڈاھڈی آتش عشق نے لائی اب بھی دل سوختہ عاشقوں کا نغمہ نہیں۔کیا عیسیٰ خیلوی کے گیت ٹرکوں میں ہجر کے رستوں پر سفر کرتے مسافروں کی آواز نہیں۔ تحریک انصاف نے جب جدوجہد شروع کی تو اس کا ساتھ دینے والوں میں ثقافتی شخصیات بھی نمایاں تھیں۔ مصطفی قریشی نے حمائت کی۔ ابرار الحق‘ ڈاکٹر سلمان‘ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی نے عمران خان کا پیغام عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کیا عمران خان شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے دوران نصرت فتح علی خان کا مدد گار کردار فراموش کر سکتے ہیں؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اور حکمران جو کچھ کرتے ہیں وہ صرف گورننس اور معیشت کے دائروں میں قید نہیں ہوتا۔ ثقافت ایک کائناتی دائرہ ہے۔ یہ عوام کے دلوں سے شروع ہوتا ہے اور سرحدیں پار کر کے انجانے دلوں تک جا پہنچتا ہے۔ جیسے عمران خان کی جینز کے ساتھ پشاوری چپل انگلینڈ پہنچ گئی۔ اعجاز احمد سپرین کہا کرتے تھے کہ اپنے شاندار ورثے کی شناخت اور اسے اپنے خیال کی خوش بختی کے لیے استعمال کرنا ہم سب کی خوش گوار ذمہ داری ہے۔ قدرت اللہ فاطمی کا قول ہے کہ پاکستان کی ثقافتی تاریخ کا سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ جغرافیائی صورت حال نے اسے ایک ایسے قلعے میں تبدیل کر دیا ہے جس کے ہزاروں دروازے ہیں۔ مجھے اس بات سے دلچسپی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ادبی و ثقافتی اداروں کی ذمہ داری کس شخصیت کے حوالے کرتی ہے اور جس شخصیت کو یہ ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے کیا وہ ڈرائنگ روم کی شہری ثقافت کا دانشور ہے یا مہر گڑھ‘ ہڑپہ‘ موہنجو داڑو اور ٹیکسلا کے تاریخی آثار کے ثقافتی پہلوئوں کو ایک آزاد پاکستان کی ثقافتی شناخت میں تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ کیا کرپشن کے انسداد‘ گورننس کی بہتری ‘معاشی حالت درست کرنے اور دفاعی تیاریوں کے معاملات پر بریفنگ کے بعد عمران خان ثقافتی پالیسی پر بھی توجہ دیں گے۔؟