گذشتہ بیس سالوں میں عمران خان کی گفتگو اس کے خوابوں کی آئینہ دار تھی اور اس کے خواب بھی ایسے تھے جو عام آدمی کے دل میں دھڑکتے مستقبل کے امین تھے۔ وہ تبدیلی کی گفتگو کرتا، اور اس ملک پر قابض طبقات کے خلاف بولتا،تو یوں لگتا جیسے اسے اس قوم کے دکھوں اور مصیبتوں کا مکمل ادراک ہے۔ عام آدمی جو سپریم کورٹ، نیب یا ایف آئی اے نہیں ہوتا جسے کسی کو مجرم ثابت کرنے کے لئے ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس پر تو ہر روز یہ سب کچھ بیت رہا ہوتا ہے۔ کوئی ٹریفک کے سپاہی کو رشوت دیتا ہے تو کسی سے پٹواری عوضانہ طلب کرتا ہے۔ ڈومیسائل بنوانے سے لے کر گاڑی کی نمبر پلیٹ حاصل کرنے تک، کسٹم حکام کی مٹھی گرم کرنے سے لے کر تھانے میں قائم جعلی مقدمے سے چھٹکارا حاصل کرنے تک اسے روز رشوت دے کر کام نکالنا پڑتا ہے۔ اس کا کوئی مقدمہ کسی عدالت میں چل رہا ہو تو وکیل کا منشی عدالت کا اہل مد، ریڈر یہاں تک آواز دے کر بلانے والا ہرکارہ بھی اس کی جیب خالی کردیتا ہے۔ یہ عام آدمی ان تمام خرابیوں کا براہ راست چشم دید گواہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ فلاں پٹواری جس نے اس سے رشوت لی وہ کس ممبر اسمبلی کا بندہ ہے اور وہ کن کن وزیروں کی ناز برداریاں اٹھاتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ٹریفک انسپکٹر اپنی رشوت کی رقم سے کتنا حصہ خود رکھتا ہے اور کتنا اوپر پہنچاتا ہے۔ عام آدمی سے زیادہ تھانے کا کس کو علم ہوگا۔ اس کی گلی میں پولیس کی آشیر باد سے چلنے والے جواء خانے، شراب کے اڈے یا عورتوں کا دھندہ کرنے والے اسی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ وہ اسے تمام کہانیاں سناتے ہیں، کس کو کتنا ماہانہ دیا جاتا ہے، کس کے گھر بوتل اور کس کے ہاں لڑکی مفت میں پہنچائی جاتی ہے۔ وہ صرف کہانیاں سنتا ہی نہیں آنکھوں سے مشاہدہ بھی کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ جیسے ہی الیکشن کا موسم آئے گا یہ سب بدمعاش پیشہ لوگ ہر پارٹی کے لئے ووٹ اکٹھا کر رہے ہوں گے۔ یہ ووٹ مانگتے نہیں،اکٹھا کرتے ہیں۔ خوف سے، دھونس اور لالچ سے۔ اس عام آدمی کو بخوبی علم ہے کہ کون سا تھانے دار کس سیاسی لیڈر کا ''اپنا بندہ'' ہے اور وہ اگر اپوزیشن میں بھی ہو تو تعلقات کی بنیاد پر اس تھانیدار کا تحفظ ضرور کرتا رہتا ہے۔ یہ عام آدمی صرف غصہ کرسکتا ہے، جل، کڑھ سکتا ہے، طعنے دے سکتا ہے۔ لیکن اسکے بس میں ایک بات ہے کہ وہ اس پورے سسٹم اور اس کی علامتوں سے شدید نفرت کر سکتا ہے۔ عمران خان جب تک اقتدار سے دور تھا وہ یہی سب کچھ کرتا تھا۔پورے سسٹم سے شدید نفرت۔ وہ دوسرے رہنماؤں سے اسی لیے مختلف نظر آتا تھا۔ لیکن لوگوں کو اندازہ تک نہ تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ویسا ہی بے بس ہو جائے گا جیسے ایک عام آدمی ایس ایچ او اور پٹواری، ٹریفک انسپکٹر یا کسٹم کے اہلکار کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے،کچھ نہیں کر سکتا،بس غصے سے آنکھیں لال کرکے رہ جاتا ہے۔ اس لئے کہ عام آدمی کے دل میں اس بات کا خوف بٹھا دیا گیا ہے کہ وہ اس مافیا کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس مافیا کا کمال دیکھیں کہ عدالت میں بیٹھے نسبتا ایماندار جج کو بھی سب کچھ معلوم ہوتا ہے، نسبتاً کم بددیانت بیوروکریٹ اور پولیس آفیسر کو بھی تمام حالات کا علم ہوتا ہے مگر اس پورے نظام نے ان کے ہاتھ پاؤں ایسے باندھ رکھے ہیں کہ وہ صاحب حیثیت ہو کر بھی عام آدمی کی طرح خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہے بیوروکریسی کی اصل فتح۔ ہر تبدیلی کی خواہش رکھنے والے کو خوف میں زندہ رکھو۔ اسٹیبلشمنٹ اور اسٹیٹس کو کا یہ محل سب سے پہلے اپنی علامتوں (Symbols) سے مسمار کیا جاتا ہے۔علامتیں ڈھا دی جائیں تو لوگوں کے دلوں سے ان کا خوف کم ہو جاتا ہے۔ اس انقلاب کی پہلی سیڑھی وہی تھی جس کے بارے میں عمران خان اکثر گفتگو کیا کرتا تھا کہ وہ گورنر ہائوس اور وزیراعظم ہاؤس ختم کر دے گا۔ لیکن اسے اپنے اقتدار میں آتے ہی پہلی شکست بھی اپنے اسی خواب کے چکنا چور ہونے سے ہوئی۔ مجھے معلوم ہے کہ ان بیوروکریٹس نے عمران خان کو کیسے کیسے خوف دلائے ہوں گے۔ اسے کہا ہوگا، یہ عمارتیں نہیں ہیں،یہ تو ریاست کی طاقت کی علامت ہیں، انہیں ختم کیا تو عام آدمی کے دل سے ریاست کا رعب ہی جاتا رہے گا۔بیرون ملک سے سربراہان یہاں آتے ہیں، وہ متاثر ہوتے ہیں، یہاں قیام کرتے ہیں۔ اتنا بڑا عملہ ہے، تو کہاں کھپائیں گے،پہلے ہی بے روزگاری بہت ہے۔ اگر ایک دفعہ یہ عمارتیں کسی اور ادارے کو دیدیں گئیں، یونیورسٹیاں بن گئیں تو پھرانہیں واپس لینا کتنا مشکل ہوجائے گا۔ ان تمام دلیلوں سے بڑھ کر گذشتہ پندرہ سالوں سے سیکورٹی کا خوف سب سے بڑا ہتھیار ہے جس سے حکمرانوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ عمران خان صاحب کو شاید اندازہ ہی نہیں کہ دنیا کے کسی بھی مہذب پارلیمانی جمہوری ملک میں وزیراعظم، وزرائے اعلی وغیرہ کے الگ سیکرٹریٹ کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کے صرف مختصر دفاتر ہوتے ہیں۔ صوبائی سیکریٹریٹ دراصل وزیراعلی کا ہی سیکریٹریٹ ہوتا ہے اور اس کا چیف سیکرٹری کوئی اپنا الگ وجود نہیں رکھتا۔ پنجاب میں میاں نواز شریف کی شاہانہ سوچ اور اس کے منظور نظر بیوروکریٹس اپنے ایک شاہانہ سیکریٹریٹ کی بنیاد رکھی اور پھر یہ فیشن چل نکلا۔ اب چاروں وزرائے اعلیٰ کے سیکریٹریٹوں میں کئی سو ملازمین صرف احکامات آگے بھیجنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتے۔انہیں صرف محکموں کو خوفزدہ اور بلیک میل کرنے کے لئے رکھا گیا ہے۔ یہی حال وزیراعظم سیکریٹریٹ کا بھی ہے۔ دنیا میں وزیراعظم کی کابینہ ہوتی ہے، اپنا سیکریٹیریٹ نہیں ہوتا۔ لیکن یار لوگوں نے پاکستان کی وزارت عظمی کے سیکرٹیریٹ کو اس قدر وسیع کر دیا ہے کہ اس وقت کسی اور وزارت کا سٹاف بھی اتنا نہیں ہے۔ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ یہاں تک کہ بھارت جیسی پارلیمانی جمہوریتوں میں بھی وزیراعظم سیکرٹیریٹ برائے نام ہوتا ہے۔ اس لیے کہ تمام فیڈرل سیکرٹری دراصل وزیراعظم کے ہی سیکرٹری ہوتے ہیں، ان پر ایک بالا تر سیکرٹریٹ کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن شروع میں وزیراعظم کا سیکرٹری اور اب خود کو بالاتر کرنے کے لئے پرسنل سیکرٹری کے لقب والا بیوروکریٹ دراصل وزیر اعظم کو اسی خوف میں مبتلا کرتا ہے کہ یہ تمام محکمے دراصل آپ سے غلط بیانی کر سکتے ہیں، دھوکہ دے سکتے ہیں، اس لیے ہمارے پاس اپنا اسٹاف موجود ہونا چاہیے جو ان پر نظر رکھے،کاونٹر چیک کرے۔ ایسے لاتعداد بہانے ہیں جو وزیراعظم کے اسٹاف کوکبھی کم نہیں ہونے دیتے اور یوں مغلیہ طرز کی تعمیر کی عالی شان عمارت آباد رہتی ہے،قائم و دائم رہتی ہے ۔ وزیراعظم سیکریٹریٹ، گورنر ہاؤس، وزیراعلی سیکرٹریٹ اور ان کے گھر، بیوروکریٹ کے جی او آر، عدلیہ کے ججوں کی پرشکوہ رہائش گاہیں، کورکمانڈر ہاؤس سے لے کر کنٹونمنٹ ایگزیکٹو آفیسر ز کی ایکڑوں پر پھیلی سلطنتیں، دراصل وہ علامتیں ہیں جن کا خاتمہ عوام کے دلوں سے خوف کو ختم کرنے کی پہلی منزل ہوتا ہے۔ عام آدمی روزانہ جس مارپیٹ سے گزرتا ہے، رشوت دیتا ہے، ہسپتالوں سے پیاروں کی لاش اٹھاتا ہے اس کی نفرت کی علامت یہ اونچی اونچی دیواریں ہوتی ہیں۔ گورنر جس کے پاس ہفتے میں چند فائلیں آتی ہیں، وزیراعلی جس کا تمام کام چیف سیکرٹری اور دیگر سیکرٹری کرتے ہوں، کیا ان دونوں کو اتنی بڑی وسیع و عریض عمارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہرگز نہیں۔ جس دور میں اس ملک میں امن عامہ کی حالت بہترین اور صنعتی ترقی عروج پر تھی اس دور میں یہ تمام دفاتر انتہائی مختصراور سادہ تھے۔ اب عالم یہ ہے کہ اگر کہیں نیا سب ڈویژن بن جائے تو اسسٹنٹ کمشنر اپنے دفتر کے ساتھ ایک ایئرکنڈیشنڈ میٹنگ ہال ضرور بنواتا ہے جس نے سال میں صرف چند بار اس وقت کھلنا ہوتا ہے جب محرم، ربیع الاول، عید کا چاند یا کوئی اور غیر ضروری قسم کی میٹنگ کرنامقصود ہو۔(جاری ہے)