کل تک ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر کھڑے سیاست دان، ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر قومی دولت برآمد کرنے کے دعوے کرنے والے شعلہ بیان مقررین، کرپشن کو پاکستان کا نمبرون مسئلہ قرار دینے والے تحریکی و نظریاتی دعویدار، تیسری قوت کی دبنگ انٹری کی خبر سن کر یوں لرزہ براندام اور خوفزدہ ہوئے کہ سب نے اپنی اپنی تلواریں میانوں میں ڈال دیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے یوں طبل جنگ بجا رہے ہیں جیسے محاذ جنگ پر جا رہے ہوں۔ ہمارے بڑے بڑے سکہ بند اور جغادری قسم کے دانشور اندر ہی اندر ’’آئین نو‘‘ سے تھر تھر کانپ رہے ہیں مگر اوپر سے طرز کہن پر اڑے ہوئے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ کوئی سیاستدان، کوئی معروف تجزیہ کار اور مشہور دانشور روش عام سے ہٹ کر کسی گوشہ تنہائی میں سوچنے پر تیار نہیں کہ یہ جو موج در موج ووٹر تحریک انصاف کو ووٹ دینے نکلے ہیں وہ صرف ’’جذباتی نوجوان‘‘ نہ تھے ان میں عمر رسیدہ بھی تھے اور جہاندیدہ بھی تھے، ان میں خواتین بھی تھیں اور مرد بھی تھے، ان میں خواص بھی تھے اور عوام بھی تھے۔ یہ اس لیے نکلے کہ وہ سٹیٹس کو سے دل برداشتہ ہو چکے تھے۔ ہمارے دانشوروں کی سنگ بستہ سوچ میں ایسی کوئی لرزش ہی پیدا نہیں ہوتی جو انہیں سٹیٹس کو، جمود اور انجماد کی کیفیت سے باہر آنے دے اور وہ دیکھ سکیں کہ کہیں واقعی عوام کی سوچ میں تبدلی واقع ہو گئی ہوگی۔ اپنی ضد پر ڈٹے رہنا اور اپنی بات پر اڑے رہنے کو بعض حضرات دانشوری کی معراج سمجھتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں تو کوئی الیکٹ ایبل نہ تھا، وہاں کے آزاد منش لوگ کم ہی کسی ایسی جماعت کو دوبارہ زحمت اقتدار دیتے ہیں جو ان کی توقعات پر پورا نہ اتری ہو۔ وہاں پی ٹی آئی کو گزشتہ انتخاب کے مقابلے میں زیادہ پذیرائی ملی، زیادہ سیٹیں ملی ہیں۔ وہاں پولیس، پٹوار اور ہسپتالوں میں عوام کو ذلت و خواری سے دوچار کرنے والا کلچر دم توڑ چکا ہے۔ اس بار عوام نے خوب سوچ سمجھ کر ایک ایسی پارٹی کو اقتدار سونپنے کا فیصلہ کیا ہے جو ہر معنی میں ایک قومی پارٹی ہے کوئی صوبائی اور لسانی جماعت نہیں۔ عوام نے کراچی او رسندھ کے شہروں، قصبوں اور گوٹھوں میں دیکھ لیا کہ برسوں سے ان کی گردنوں پر سوار حکمران کتنے بے درد اور سنگدل تھے۔ قتل و غارت گری، بھتہ خوری اور اور عوامی حقوق کی پامالی عام تھی، پاکستان کا تجارتی و صنعتی دارالحکومت کچرا کنڈی بن چکا تھا۔ کوئی اس کا پرسان حال نہ تھا اور نہ کسی حکمران کو عوام کی ذلت و خواری کی کوئی پروا تھی۔ میجر عامر ایک سچے اور پکے پاکستانی ہیں۔ پاکستان کے لیے ان کی خدمات جلیلہ کے پیش نظر اور ان کے مرحوم والد گرامی کے صوابی میں حلقہ درس کی بدولت دینی حلقوں اور صحافتی و ادبی حلقوں میں بھی ان کا بے حد احترام پایا جاتا ہے۔ انہوں نے الیکشن سے مہینوں پہلے مجھے بتایا تھا کہ جماعت اسلامی کی دیانت و امانت اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے دینی و تحریکی افکار سے فیض یاب ہونے کی بنا پر وہ جماعت اسلامی کے زعما کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ میجر عامر نے بتایا کہ انہوں نے سینیٹر سراج الحق سے دو تفصیلی ملاقاتیں کیں اور ان کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ وقت کی رفتار کا اندازہ نہیں کر رہے اور انہیں عوام کی سوچ میں واقع ہونے والی تبدیلی کا مکمل ادراک نہیں۔ جماعت کی فکر اور تحریک سے وابستہ لاکھوں لوگ جماعت اور تحریک انصاف کے کرپشن مخالف نقطہ نظر اور جدوجہد کی دل و جان سے قدر کرتے ہیں اور اسی لیے وہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی خیبرپختونخوا میں پانچ سالہ کامیاب کولیشن کے بعد ان دونوں جماعت کے سیاسی اتحاد کو ایک کرپشن فری پاکستان کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں۔ گزشتہ روز میجر عامر کا پھر فون آیا اور انہوں نے کہا کہ جماعت نے سینیٹر مشتاق احمد کے ایک زنگ آلود کمپیوٹر کے ڈیٹا کی جمع تفریق کو اپنے انتخابی فیصلے کی بنیاد بنایا اور اس تبدیلی کا مطلقاً اندازہ نہ لگایا جو عوام کے اندر آ چکی تھی۔ ہمارا قومی مزاج بڑا دلچسپ ہے۔ ایک طرف ہم اپنی سیاسی پسند ناپسند میں بڑے متشدد ہیں اور دوسری طرف جب کوئی صاحب اقتدار اپنے کئے کی سزا بھگتنے کے قریب ہوتا ہے تو ہمارے دل میں نرمی کے جذبات امڈ آتے ہیں۔ بلاشبہ سیاسی معاملات اور عام انسانی تعلقات میں تو عفوو درگزر سے کام لینا چاہیے، عیب جوئی سے نہیں عیب پوشی سے کام لینا چاہیے اور انتقام کی نہیں بھول جانے کی روش اختیار کرنی چاہیے مگر جب معاملہ قومی دولت کے لوٹنے کا ہو اور جب عوام کو خستہ حال رکھ کر اپنے اور اپنے اہل خاندان کے لیے دولت کے انبار اکٹھے کرنے کا ہو تو پھر معافی تلافی یا ’’مٹی پائو‘‘ کا رویہ نہ اسلامی ہے اور نہ ہی قانونی۔ ہمارے فیاض دانشوروں کو اس باریک فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ انتخاب مسلم لیگ ن کی میڈیا مینجمنٹ انتخاب سے پہلے تو کچھ ماند پڑ گئی تھی مگر ان کا سوشل میڈیا طرح طرح کی کہانیاں گھڑنے، طرح طرح کی افواہیں پھیلانے، طرح طرح کی الزام تراشیاں کرنے اور طرح طرح کی داستانیں مشہور کرنے میں رات دن مگن تھا اور اب بھی ہے۔ جن جن افراد اور جماعتوں کے بارے میں ’’غیبی دست شفقت‘‘ کی داستانیں مشہور کی گئیں وہ سب انتخابات میں ناکامی سے دوچار ہوئے۔ جی ڈی اے، پی ایس پی، تحریک لبیک، جیپ گروپ اور چودھری نثار وغیرہ۔ اس جھوٹ پر توندامت سے سرجھک جانے چاہئیں تھے مگر ضد اور ہٹ دھرمی کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہ تھا۔ اب پاکستان کی تاریخ کے پرامن اور شفاف انتخابات کے خلاف گرینڈ الائنس بنوایا جارہا ہے۔ اس ساری کارروائی کا ن لیگی مقصد یہ ہے کہ کوہ ہمالیہ جتنی مالی کرپشن پس پردہ چلی جائے اور انتخابی و سیاسی مسئلہ اجاگر ہو کر سامنے آئے۔ مولانا فضل الرحمن، پیپلزپارٹی اور بعض علاقائی جماعتوں کے نزدیک قومی خزانے کی لوٹ مار کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی مگر دنیا کو حیرت تو جماعت اسلامی کے رویے پر ہے کہ وہ کیسے ان قوتوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے جن کے خلاف انہوں نے مسلسل دو برس بھرپور عوامی مہم چلائی اور عدالتوں میں مالی کرپشن کے مقدمات کی پیروی کی۔ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی اس لیے آئی کہ عمران خان نے جو کچھ کہا لوگوں نے محسوس کیا۔ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ دوسرے یہ کہ عمران خان کے ووٹروں کو یہ یقین تھا کہ اس شخص کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ یہ آدمی ملکی دولت باہر نہیں لے گیا بلکہ بیرونی دولت ملک میں لایا۔ دوسرے اس کے دل میں مال و زر کے لیے کوئی حرص و ہوس نہیں۔ جب جمائما کی طلاق کے معاملات لندن کی ایک عدالت میں طے پا گئے تو جج نے کہا کہ قانونی اعتبار سے جمائما کی دولت سے عمران خان کو 12 ملین پائونڈز ملیں گے۔ عمران نے اسی وقت عدالت کو کہا کہ وہ ایک پائونڈ بھی نہیں لے گا۔ جج اس جذبے سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے کرسی عدالت سے اٹھ کر عمران خان سے مصافحہ کیا اور جمائما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس علیحدگی پر بہت افسوس ہے۔ یقینا عمران خان کا بہت بڑا امتحان ہے۔ اس لیے اسے تیار رہنا چاہیے۔ سبھی لوگ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عمران خان کو مشورے دے رہے ہیں۔ ہم کیا اور ہمارے مشوروں کی بساط کیا مگر میں عمرن خان کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا وہ خط یاد دلاتا ہوں جو انہوں نے گڈگورننس کے بارے میں مصر کے گورنر مالک اشتر کو لکھا تھا۔ اس طویل خط کی چند وہ سطریں نقل کر رہا ہوں جن میں وزیروں، مشیروں کے چنائو کے زریں اصول بیان کئے گئے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے ’’عداوت و غیبت کی ہر رسی کاٹ ڈالنا۔ خبردار چغل خور کی بات ماننے میں جلدی نہ کرنا۔ چغل خور خیرخواہ کا روپ بھر کے آتا ہے مگر اندر سے دغاباز ہوتا ہے۔ اپنے مشورے میں بخیل کو شریک نہ کرنا کیونکہ وہ تمہیں احسان کرنے سے روکے گا اور فقر سے ڈرائے گا۔ بزدل کو بھی صلاح میں شریک نہ کرنا کیونکہ مہمات میں تمہاری ہمت کو کمزور کر دے گا۔ حریص کو بھی شریک نہ کرنا کیونکہ ظلم کی راہ سے دولت سمیٹنے کی ترغیب دے گا۔‘‘ عوام کی سوچ میں تو تبدیلی آ گئی ہے اب دعا کرنی چاہیے کہ عمران خان بھی بیڈ گورننس کو گڈ گورننس میں بدلنے میں کامیاب ہو جائے۔