شور تھا کہ مر گئے لٹ گئے، کاروبار تباہ ہو گئے، کورونا سے نہیں تو بھوک سے مر جائینگے۔ وزیر اعظم عمران خان کا بھی خیال تھا کہ ایسا ہی ہو گا لیکن شاید انکو یہ نہیں پتہ تھا کہ پاکستانی قوم ہر وقت سر پر کفن باندھ کے پھرتی ہے۔ انہیں مرنے کا کبھی بھی ڈر نہیں رہا۔ ہمارا ایمان بھی ہے جو بچپن سے ہی ہمیں ازبر کرا دیا گیا ہے کہ جو رات قبر کے اندر ہے وہ باہر نہیں آ سکتی۔اس بات میں کوئی شک بھی نہیں ہے ورنہ پی آئی اے کی کریش ہونے والی پرواز میں دو اشخاص نہ بچ پاتے۔لیکن ایک بات جس کا ادارک ہم نہیں کر پارہے کہ ہم دوسروں کے لئے جو موت کا سامان تیار کر رہے ہیں اس سے کیا مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور لوگوں کو کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ ہم اس بیماری کے پھیلائو کا باعث بن رہے ہیں ۔ آئے دن مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے، ہسپتالوں کے اندر مریضوں کے علاج معالجے کی سہولتیں کم پڑتی جا رہی ہیں ۔یہ صورتحال برقرار رہی تو جس خوف سے لاک ڈائون کیا گیا تھا وہ بات ہو جائے گی۔ لاک ڈائون کا مقصدیقیناً بیماری کے پھیلائو کو روکنا تھا۔ اس پھیلائو کو روکنے کی تمام کاوشوں کی وجہ ہمارے صحت کے نظام کو اس دبائو سے بچانا تھا جو بے تحاشا مریضوں کی صورت میں آ سکتا ہے ۔ اگر ہمارا صحت کا نظام کورونا کے مریضوں کی تعداد کے حساب سے کم پڑ جاتا ہے تو اسکے نتیجے میں موت کا بازار گرم ہو سکتا ہے جسکے ذمہ دار ہم ہونگے کیونکہ ہم کسی بھی معقول بات کو صرف اس لئے سننے کو تیار نہیں ہیں کہ موت کا ایک دن معین ہے۔ہمارا یقین اپنی جگہ لیکن قدرت نے ہمیں یہ بھی نہیں کہا کہ آپ ٹرین کی پٹری پرلیٹ جائیں اورآ پ کو کچھ نہیں ہو گا۔ یا آپ کنپٹی پر پستول رکھ کر فائر کر دیں اور بچ جائیں گے۔ خود کشی کی صورت میں انسان کو اپنی جان خود لے سکتا ہے لیکن ساتھ ہی خود کشی کوحرام بھی قرار دیا گیا ہے۔ کورونا کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔ اسکی ویکسین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ کئی ماہ سے لیکر اسکے تجرباتی مراحل طے ہونے میں دو سال تک لگ سکتے ہیں۔ اس دوران اسکے پھیلائو کو روکنے کی ضرورت ہے تا کہ ہمارے صحت کے نظام پر ایسا دبائو نہ آئے کہ ہم اسکے مریضوں کی ضروری دیکھ بھال بھی نہ کر پائیں۔کورونا کو روکنے کا واحد طریقہ ضروری احتیاط ہے۔ جس میں سماجی فاصلہ، ہاتھوں کو صابن سے دھونا، ماسک پہننا اوربڑے اجتماعات سے گریز کرناہے۔کرونا کے آتے ہی حکومت نے موئثر اقدامات کئے جس میں لاک ڈائون جو کہ بہت سخت اگرچہ نہیں تھا لیکن اسکے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ جنوری سے شروع ہو کر لاک ڈائون میں مئی کے پہلے ہفتے نرمی تک کرونا کے کیسز کی کل تعداد اٹھائیس ہزار سات سو تھی۔عید سے پہلے اور بعد اس لاک دائون کی نرمی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے غیر ذمہ داری کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے مریضوں کی بھرمار کر دی اور آپ جب یہ کالم پڑھ رہے ہونگے پاکستان میں کورونا کے ایک لاکھ مریض رپورٹ ہو چکے ہونگے۔صرف ایک ماہ میں ستر ہزار مریضوں کا اضافہ کوئی مذاق نہیں ہے۔جس تیزی سے مریض بڑھے ہیں اگلے ایک ماہ میں ہمارا صحت کا نظام اسکا متحمل نہیں ہو سکے گا اور خدا نہ کرے کہ ہم کسی بہت بڑے سانحے کا شکار ہوں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اسکے ذمہ دار صرف اور صرف ہم لوگ ہونگے جو اس آفت کے بارے میں تمام معلومات ہونے کے باوجود، دنیا بھر کے ڈاکٹروں ، بین الاقوامی اداروں کی ہدایت اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اس معاملے میں احتیاط کرنے کو تیار نہیں۔یہ اجتماعی خود کشی کے مترادف ہو گا۔ موت کا ایک دن معین ضرور ہے لیکن خود بچنا اور دوسروں کو بچاناضروری ہے۔ اس پھیلائو کے نتیجے میں حکومت کے لئے اسکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا کہ وہ ایک مکمل لاک ڈائون کا فیصلہ کرے۔ اسکے نتیجے میں یقیناً لوگوں کے بھوک سے مرنے کا خدشہ ہے کیونکہ جب روزگار کے مواقع نہیں ہونگے تو کوئی جتنا بھی مالدار ہو ایک نہ ایک دن جمع پونجی ختم ہو جائے گی۔ غریب اور متوسط لوگ تو شاید چند دن یا ماہ ہی گزار پائیں۔ ان بھوک کے شکار لوگوں کی تکلیفوں کے ذمہ دار ہم خود ہونگے کیونکہ ہم اس بیماری کے خلاف واحد ہتھیار کو استعمال کرنے کو تیار نہیں بلکہ ہم آئے روز کرونا کو چیلنج کر رہے ہیں۔جتنا اسکو چیلنج کرینگے اتنا ہی وہ آپکو مارے گا کیونکہ ہمارے پاس اسکو مارنے کے لئے کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ جیسے آگ لگنے کی صورت میں آپ اس جگہ سے دور ہو کر جان بچاتے ہیں اسی طرح سے اس سے دوری ہی واحد راستہ ہے جس سے اسکو شکست دی جا سکتی ہے۔ یہ نئی دنیا ہے اسکے نئے حقائق ہیں، کوئی مالدار ترین ملک، کوئی پارسا ترین آدمی، کوئی طاقتورترین فوج اور کوئی صحتمند ترین شخص دنیا میں نہیں ہے جو اس سے محفوظ ہونے کا دعویٰ بھی کر سکے۔اس بات کو جتنی جلد ہم سمجھ جائیں ہمارے لئے اور عالم انسانیت کے لئے بہتر ہے ورنہ ’’ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘‘۔ دنیا بھر کے ماہرین جو دنیا کی تباہی کے بارے میں مختلف وجوہات کا صدیوں سے جائزہ لیتے آ رہے ہیں وہ سالہا سال کی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کوئی ایٹمی سانحہ، سیلاب، زلزلہ، بیماری اور آسمانی آفت دنیا کو تباہ نہیں کر سکتی اگر کوئی اس دنیا کو تباہ کر سکتا ہے تو وہ صرف انسانوں کا فطرت کے ساتھ کھلواڑ ہے اور اسے چیلنج کرنا ہے۔ ہم آئے دن فطرت کو چیلنج کر رہے ہیں جسکی وجہ سے سیلاب، زلزلوں اور اس قسم کی بیماریوں کا سامنا ہے۔خدا نے ہمیں وارننگ بھیج کر سنبھلنے کا موقع دیا ہے۔ وہ لوگ جو ہمارے خیال میں اہل ایمان نہیں ہیں وہ بھی مان رہے ہیں کہ ہمیں قدرت نے سنبھلنے کا موقع دیا ہے لہٰذا اس موقع کو ضائع نہ کریں ۔