کیا مولانا فضل الرحمن بھارتی ایجنٹ ہیں؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دینا بہت بڑی جسارت ہو گی ۔ مولانا نے ہمیشہ پارلیمانی سیاست کی ہے اوران کا سارا سیاسی سفر ایک کتاب کی طرح ہمارے سامنے رکھا ہے۔ان کا سیاسی بیانیہ اکثر ’’ تہتر کے آئین کے تناظر میں ‘‘ ظہور پذیر ہوتا رہا ، تشدد کی ہر شکل سے دور رہے ، انتہائی مشکل حالات میں اپنے وابستگان کو قومی سیاسی دھارے سے جوڑے رکھا اور پارلیمانی سیاست سے ان کی وابستگی کو ٹوٹنے نہ دیا۔ اب بھی اگر ان کی حب الوطنی پر کوئی شک کرتا ہے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہو گا کہ خود اس کے ضمیر کی عدالت اسے کٹہرے میں لا کھڑے گی۔۔۔۔۔۔خرابی کہیں اور ہے اور مسئلہ کچھ اورہے۔ وہ کیا ہے؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ قیام پاکستان تاریخ کا ایک باب ہے اورجمعیت علمائے ہند کا موقف بھی۔ تاریخ کے کسی بھی موڑ پر اختلاف رائے کا پیدا ہو جانا ایک قدرتی امر ہے۔یہ اختلاف جماعت اسلامی کو بھی تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے لیے جتنی قربانیاں جماعت اسلامی نے دی ہیں وہ عزیمت کا ایک غیر معمولی باب ہے۔جمعیت علمائے اسلام کے بارے میں ایک اور بات بھی اچھی طرح سمجھ لی جانی چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان بن گیا تو جمعیت علمائے اسلام نے مجبوری کے عالم میں اسے قبول کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام نے قیام پاکستان سے دو سال قبل اس وقت جمعیت علمائے ہند سے راستے جدا کر لیے تھے جب جمعیت علمائے ہند نے مسلم لیگ کی بجائے کانگریس کے پلڑے میں وزن ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا۔کانگریس کے ساتھ جانے کے فیصلے سے اختلاف ہوا اور مولانا شبیر احمد عثمانی نے جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد رکھی۔یہ بھی مت بھولیے کہ اس علیحدگی سے بھی ایک سال قبل مولانا شبیر احمد عثمانی مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے تھے۔جب پاکستان قائم ہوا تومولانا شبیر احمد عثمانی ہی جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ تھے۔ اپنی وفات تک جے یو آئی کی سربراہی ان کے پاس رہی۔بابائے قوم کا جنازہ بھی جے یو آئی کے سربراہ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے پڑھایا۔ یہی نہیں ، مولانا شبیر احمد عثمانی نے علمائے کرام کے ساتھ مل کر اس وقت قیام پاکستان کی جدوجہد شروع کی جب پنجاب اور صوبہ سرحد کے وڈیرے اور خوانین کانگریس کے ساتھ کھڑے تھے۔ان کی خدمات کا اعتراف خود بابائے قوم قائد اعظم نے کیا اور اس شان سے کیا کہ حق ادا کر دیا۔ پاکستان بننے کے بعد مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں پہلی مرتبہ قومی پرچم لہرایا جانا تھا۔ قائد اعظم نے حکم دیا یہ پرچم جے یو آئی کی قیادت لہرائے گی۔ چنانچہ مغربی پاکستان میں پرچم کشائی ہوئی تو بابائے قوم بھی موجود تھے اور لیاقت علی خان بھی لیکن قومی پر چم جے یو آئی کے سربراہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے لہرایا۔ اور مشرقی پاکستان میں خواجہ ناظم الدین موجود تھے لیکن پرچم لہرانے کا اعزاز مولانا ظفر احمد عثمانی کو حاصل ہوا۔جس جے یو آئی کے سربراہ سے بابائے قوم سے ریاست پاکستان کی پرچم کشائی کروائی ہو اس جے یو آئی کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانا بڑا مشکل کام ہے۔ اب آئیے اس سوال کی طرف کہ پھر مسئلہ کیا ہے اور خرابی کہاں ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ جس جمعیت علمائے ہند سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے مولانا شبیر احمد عثمانی نے جمعیت علمائے اسلام قائم کی اور قائد اعظم کا ساتھ دیا ، مولانا فضل الرحمن اس جمعیت علمائے اسلام کو پھر سے جمعیت علمائے ہند کا وارث ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور صد سالہ جشن منائے جا رہے ہیں۔دین کے باب میں فکر کی حد تک اس میں کوئی قباحت نہیں ۔کیونکہ دارالعلوم دیوبند ایک بہت بڑے علمی ورثے کا امین ہے اور فکری نسبت پورے برصغیر میں پھیلی ہوئی ہے۔مولانا فضل الرحمن گاہے آگے بڑھتے ہوئے جمعیت علمائے ہند کی سیاسی فکر سے بھی رشتہ جوڑتے دکھائی دیتے ہیں۔گویا انہوں نے شعوری طور پر مولانا شبیر احمد عثمانی کی فکر کے خلاف ’ کُو‘‘ کر دیا ہو۔ یہاں میں ایک واقعہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔میرے زمانہ طالب علمی کا واقعہ ہے۔ یہ اسلام آباد کے ایک ہوٹل کی تقریب تھی اور اس کے میزبان مفتی نظام الدین شامزئی صاحب تھے مولانا فضل الرحمن نے خطاب فرماتے فرماتے اچانک پاکستان اور قائد اعظم پر تنقید شروع کر دی۔ہم سب ہکا بکا رہ گئے کہ یہ مولانا کو ہو کیا گیا۔ جنرل حمید گل صاحب بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ وہ کھڑے ہو گئے کہ اس بات کا جواب دینا ہے۔ مفتی شامزئی صاحب نے انہیں روکنے کی بہت کوشش کی لیکن جنرل حمید گل کا کہنا تھا کہ میری موجودگی میں پاکستان اور قائد اعظم پر تنقید ہو اور میں خاموش رہوں یہ نہیں ہو سکتا۔چنانچہ جنرل حمید گل سٹیج پر آئے اور انہوں نے جو کہا وہ مجھے آج بھی یاد ہے: ’’ مولانا ، پاکستان اب بن چکا ، یہ اب ایک حقیقت ہے ، اس محمد علی جناح کی کوئی خوبی تو اللہ کو پسند آئی کہ ستائیس رمضان المبارک کو پاکستان عطا کر دیا۔ آپ تو اقتدار کی خاطردھکے کھا رہے ہیں اور رسوا ہو رہے ہیں ‘‘ ۔جے یو آئی کے مکتب فکر کی تقریب تھی لیکن کتنی ہی دیر ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔ برسوں قبل میں جے یو آئی کے ایک مرکزی رہنما کا انٹرویو کرنے گیاتو وہ مجھے قائد اعظم کے خلاف لکھی کسی متعصب شخص کی ایک کتاب کے صفحات پڑھ پڑھ کر سنانے لگے، اور انداز تخاطب تھا : آپ کا قائد اعظم۔حیرت اور صدمے کے ساتھ میں نے نا پسندیدگی کا اظہار کیا تو انہوں نے کتاب رکھ دی اور فرمایا : آپ نے اس کا باہر ذکر نہیں کرنا۔مولانا کے وابستگان کا اب یہ عمومی رویہ بنتا جا رہا ہے کہ پاکستان کسی بحران سے دوچار ہو جائے تو یہ خیر خواہی کے دو جملوں کی بجائے طنز کے طور پر ابولکلام آزاد کے اقتباسات شیئر کرنا شروع کر دیتے ہیں جن میں حکمت کے یہ انمول موتی چھپے ہوتے ہیں کہ پاکستان بننا ہی نہیں چاہیے تھا ۔اس کا کیا مطلب ہے؟یہ وہ فکری گرہیں ہیں جو مولانا شبیر احمد عثمانی نے کھول دی تھیں مگر مولانا فضل الرحمن انہیں دوبارہ لگا رہے ہیں۔ مولانا کو اس مراجعت کے فکری آزار سے ہوشیار رہنا چاہیے۔