پنجاب پولیس کی کارگزاری اور عوامی شکایات کے حوالے سے میرے دو کالموں پر ردعمل خاصہ خوشگوار رہا‘ سابق پولیس افسر عزیز اللہ خان نے جو اب ماشاء اللہ وکالت کے شعبے سے منسلک ہیں‘ تفصیلی خط میں اپنانقطہ نظر پیش کیا جو ماتحت اہلکاروں کے دل کی آواز ہے۔ لکھتے ہیں: ’’37 سالہ پولیس سروس میں بے تحاشہ واقعات سے واسطہ پڑا ‘عوام کی پولیس سے موروثی نفرت بھی دیکھی اور افسران کا ماتحتوں سے بْرا رویہ بھی دیکھا اور سہا‘اپنی سروس اور تجربہ کی روشنی میں پولیس ڈپارٹمنٹ کی کچھ خامیاں شیئرکر رہا ہوں جس کی وجہ سے عوام اور پولیس کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔پولیس کو پوری دنیا میں اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر پچھلے ایک ہفتہ سے پنجاب پولیس زیر عتاب ہے ۔رحیم یار خان میں صلاح الدین پولیس تشدد کیس میں پولیس ملازمین کے خلاف مقدمہ درج ہے جس میں جوڈیشل انکوائری ہو رہی ہے ۔وہاڑی میں عورت پر تشدد کیس میں تو کمال ہو گیا ۔آر پی اومْلتان وسیم سیال نے ڈی ایس پی راو طارق سمیت آٹھ ملازمین کو حوالات میں بند کر کے اپنی نوکری پکی اور انصاف کا بول بالا کیا یہ اور بات کہ تفتیش میں ڈی ایس پی معہ دو ملازمین بے گْناہ ثابت ہوا۔ ڈی ایس پی اور اْن کا خاندان کس اذیت سے گزرا وہی جانتے ہیں یہ بھی ہو سکتا ہے ڈی ایس پی رائو طارق نے بھی کسی بیگناہ کو حوالات میں بند کیا ہو اور یہ مکافات عمل ہو۔ آئی جی صاحب نے کمال کیا ایک آرڈر پاس کیا ‘ہر تھانہ میں تعینات پولیس ملازمین کے موبائل فون کے استعمال پرپابندی لگا دی؟ گْزشتہ ایک ہفتہ سے مختلف چینلز پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ سیاستدان ‘اینکرز ر‘یٹائیرڈ آئی جی صاحبان پولیس ریفارمز پر باتیں کر رہے ہیں‘ پولیس تشدد کی فلمیں دکھائی جارہی ہیں ‘میں یہ تماشہ دیکھ اور سْن رہا ہوں ائیرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر پالیسیاں بنانے والے یہ لوگ ریفارمز کی باتیں کرتے ہوئے مجھے زہر لگتے ہیں ان میں سے کسی کا باپ یا بھائی کنسٹیبل رہا نہ انہوں نے کسی تھانہ میں بطور ملازم کْچھ دن کزارے ؟ ریٹائیرڈ آئی جی صاحبان اپنی اننگز کھیل چْکے ہیں ‘اپنی تعیناتی میں حْکمرانوں کے سامنے کبھی بولے نہ کبھی ملازمین کی ویلفیئرکے بارے میں بات کی صرف اپنے بچوں اور ذات کے بارے میں سوچا؟ آج وہ اچھی ٹریننگ کی بات‘ ملازمین کی اخلاقی اقدار کی بات کرتے ہوئے مجھے اچھے نہیں لگتے ۔ یہی حال پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لیڈروں کا ہے جن کو اب کوئی کام نہیں‘ صرف شام کو چینلز پر بیٹھ کر اپنے لیڈروں کی کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لئے اپنی قبر کالی کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم اب تک کْچھ نہیں کر سکے مگر اب ہمیں حکومت مل گئی تو سب اچھا کر دیں گے؟ رہ گئے تحریک انصاف والے اْنہیں یقین ہی نہیں آرہا کہ وہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں ؟ ایک وقت تھا جب پولیس محکمہ میں ملازمت کرنا باعث عزت سمجھا جاتا تھا 60ء ‘70ء ‘80ء کی دہائی میں اے ایس آئی پروبیشنر بھرتی ہونا کسی بھی فیملی کے لئے باعث فخر تھا۔ سلیکشن بڑی صاف اور شفاف ہوتی تھیں خاص طور پر جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں ہر سال اے ایس آئی کی پوسٹیں نکلا کرتی تھیں۔ انٹرویو کو صاف اور شفاف رکھنے کے لئے رات کو ہی ڈی آئی جی رینج کو دوسری رینج میں انٹرویو کے لئے بھجوا دیا جاتا تھا پولیس میں سیاسی سفارش بْہت کم ہوتی تھی ۔پھر نواز شریف کا دور آیا محکمہ پولیس اور ریونیو میں سیاسی بھرتیاں شروع ہوئیں ‘ایم پی اے اور ایم این اے کو اے ایس آئی اور نائب تحصیلدار کی سیٹیں دیں گئیں۔ لاہورمیں نواز شریف کے اپنے حلقہ انتخاب کے لوگ پولیس اور ریونیو میں بھرتی ہوگئے پورے پنجاب میں بْہت سے ایسے جرائم پیشہ لوگ بھی پولیس میں آگئے جو سابقہ ریکارڈ یافتہ تھے۔ پولیس کی بربادی میں ایک کیل ڈائریکٹ انسپکٹرز کی سلیکشن تھی۔ نوجوان اور پڑھے لکھے لڑکے اس محکمہ میں آئے جنہیں ترقی کے سبز باغ دکھائے گئے کہ وہ پانچ سال بعد ڈی ایس پی ہو جائیں گے مگر ایسا کْچھ بھی نہ ہوا بلکہ کنسٹیبل سے بھرتی ہونے والے اے ایس آئی سے بھرتی ہونے والے اور انسپکٹر سے بھرتی ہونے والے ملازمین کے درمیان ایک ایسی عدالتی جنگ چھڑ گئی جس نے اس محکمہ کو برباد کر دیا۔ملازمین کی ترقیاں رْک گئیں وکلا کی چاندی ہو گئی۔ لاہور میں بیٹھے افسران اعلیٰ سے سنیارٹی لسٹیں ہی نہ بن سکیں۔ آئوٹ آف ٹرن پروموشنز ہوئیں جونئیر سینئیر ہو گئے‘ ہر ملازم عدالتوں میں گیا اس میں بْہت بڑا ہاتھ پی ایس پی افسران کا بھی تھا جو ڈائریکٹ انسپکٹرز کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔ اگر جنرل مشرف کی حکومت نہ آتی تو شاید شہباز شریف ان انسپکٹرز کو ترقیاں دے کر صوبہ میں لاتا اور اس طرح پی ایس پی کلاس سے صوبائی حکومت کی جان چھوٹ جاتی۔نواز شریف اور شہباز شریف کی حکومت دوبارہ آئی تو اب اْنہوں نے نیا کارنامہ کیا کہ سب انسپکٹرز بھی ڈائریکٹ بھرتی کرنا شروع کر دیے اور اب یہ عالم ہے کہ پولیس میں کانسٹیبل سے لے کر انسپکٹر تک ہر رینک پر بھرتی ہوئی ہے اگر ان کی حکومت رہ جاتی تو ڈائریکٹ ڈی ایس پیز کی بھرتی کا بھی پروگرام تھا۔اپنی حکومت کے لئے پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے جس طرح محکمہ پولیس کو برباد کیا تاریخ ان کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ اعلیٰ پولیس افسران کا رویہ رینکرز ملازمین سے کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا ۔میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ آپ غلطی پر سزا دیں پر عزت نفس مجروح نہ کریں مجھے آج بھی اپنے ساتھ کی گئی ایک زیادتی یاد ہے۔ میں 2014ء کوآر پی او بہاولپور کے دفتر کے باہر موجود تھا مجھے آر پی او نے بلوایا تھا اور مجھے باہر کھڑے ہوئے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا۔ میں نے اردلی کی طرف دیکھا تو وہ بولا سر اندر صاحب کے مہمان بیٹھے ہیں اْنہوں نے منع کیا ہے کہ جب تک وہ گھنٹی نہ دیں کوئی اندر نہ آئے۔ تھوڑی دیر بعد آر پی او کے کمرہ کا دروازہ کھْلا تو ایک ایسا شخص باہر نکلا جو بہاولپور میں اچھی شْہرت نہ رکھتا تھا‘ مجھے دیکھ کر مْسکرایا اور بولا خان صاحب ! آر پی اوصاحب میرے اچھے دوست ہیں اگر کوئی کام ہو تو بتانا۔میں نے اْس کا شکریہ ادا کیا اور وہ چلا گیا ۔اردلی معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھتے ہوئے بولا "صاحب کے بْہت اچھے دوست ہیں ‘‘میں نے اپنی یونیفارم درْست کی کہ اب میری باری ہو گی ‘اچانک ایک انڈر ٹریننگ اے ایس پی تشریف لائے میری طرف دیکھا بغیر سلام دعا دروازہ کھولا اور اندر چلے گئے۔ میں نے اردلی کی طرف دیکھا تو اْس نے مْنہ دوسری طرف کر لیا جیسے کہہ رھا ہو آپ کی اوقات اتنی جلدی اندر جانے کی نہیں ہے؟مجھے 36 سالہ محکمہ پولیس میں کی گئی اپنی ملازمت اور خدمات جن میں کئی دفعہ اپنی جان کو خطرہ میں بھی ڈالا ‘پر شرم محسوس ہوئی احساس ندامت میں میری یونیفارم کچھ اور پسینہ میں شرابور ہوگئی۔میرا تجربہ میری خدمات رینکر اور پی ایس پی کلاس کی نفرت اور حقارت کا شکار ہو گیا۔ تقریباً آدھا گھنٹہ بعدشاید آر پی او صاحب کو مجھ پہ ترس آگیا ۔ڈور بِل بجی اردلی نے بتایا صاحب بلا رہے ہیں ۔میں کمرہ کے اندر داخل ہوا‘ مجھے لگا جیسے دوزخ کی گرمی سے جنت کی ٹھنڈی اور خوشبودار دنیا میں داخل ہو گیا ہوں۔ صاحب نے حقارت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا ‘مجھے ایسا لگا جیسے میں دنیا کا حقیر ترین شخص ہوں۔ مجھے حْکم ملا کہ میں ایس ایچ اوکیساتھ کل پھر پیش ہوں اور اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا جس کا مطلب یہ تھا کہ اب میں جا سکتا ہوں۔ اس کام میں مجھے ایک منٹ لگا ‘میں نے سلیوٹ کیا اور باھر آ گیا باھر آنے کے بعد مجھے اپنے ساتھ کیے گے سلوک پر دْکھ ہوا۔ میں بھی تو گریڈ سترہ کا ہی افسر تھا چند ایک افسران کو چھوڑ کر جن کے ماتحت میں نے کام کیا اور جن کا رویہ قدرے بہتر ہوتا تھا باقی سب ایک جیسے تھے ‘کچھْ زبان کے بْرے کْچھ قلم کے سب یاد آنے لگے۔ اپنی 36سالہ ملازمت کے ساتھ آج بھی میں اس مقام پر تھا جہاں میری عزت نہ تھی۔ میں سوچ رہا تھا ’’کیا میں قابل عزت ہوں‘‘۔ عزیز خان ڈی ایس پی (ریٹائرڈ) ایڈووکیٹ لاہور