جنرل قاسم سلیمان کون تھے؟اس سوال کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ ایران کے رہبر اعلیٰ سید علی خامنہ ای کے بعد سلیمانی اپنے ملک کی سب سے اہم شخصیت تھے۔ 1980ء سے لے کر 1988ء تک عراق‘ ایران جنگ میں ایک نوجوان آفیسر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ پھر وہ 1998ء میں پاسداران انقلاب کے اہم ترین ونگ قدس فورس کے سربراہ مقرر کئے گئے۔ جنرل سلیمانی ایرانی قیادت کی نگاہ میں ہیرو ہیں جبکہ امریکی صدر کے نزدیک وہ ولن تھے۔ ایران کے رہبر اعلیٰ نے جنرل سلیمانی کے لئے سب سے بڑے ایرانی اعزاز الذوالفقار کا اعلان کیا ہے۔اپنی انتہائی اہم شخصیت کی یوں ڈرون حملے میں ہلاکت اہل ایران کے نزدیک بہت بڑا صدمہ ہے۔ اسی لئے ایران میں سہ روزہ سوگ منایا جا رہا ہے۔ جبکہ عراق میں ان کی نماز جنازہ میں ہزارہا لوگوں نے شرکت کی اور ایران میں ان کے سوگ میں لاکھوں افراد کے ماتمی جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ امریکہ نے جس انداز میں خفیہ طور پر جنرل سیلمانی کو دیار غیر میں ہلاک کیا وہ نہ صرف بین الاقوامی بلکہ امریکی قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔ امریکہ جب چاہتا ہے من مانی کر گزرتا ہے۔ امریکہ چاہتا تو دنیا کو امن کا گہوارہ بنا سکتا تھا۔ وہ چاہتا تو عالمی سطح پر عدل و انصاف کو رائج کروا سکتا تھا وہ چاہتا تو نہ خود بنیادی انسانی حقوق پامال کرتا نہ کسی کو کرنے دیتا۔ امریکہ چاہتا تو وہ اس طرح سے عالمی قوانین کا احترام کرتا جیسے وہ اپنے ملک میں امریکی قوانین کا احترام کراتا ہے۔ مگر امریکہ دنیا کو کسی یو این او چارٹر یا کسی عدل و انصاف کے آئینے میں نہیں وہ اسے اپنے مفادات کے خدمت گار کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکہ نے گلوبل پولیس مین کا رول اختیار کر رکھا ہے اور اس پر وہ ندامت یا خفت نہیں فخر محسوس کرتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ہمیں ایسی ہر کارروائی کا اختیار ہے۔ یہاں لفظ اختیار قابل غور ہے کیا اختیار سے مراد ایسے اقدام کا استحقاق ہے۔ یقینا امریکی وزیر خارجہ کی مراد ہے کہ ہمارے پاس ہر ماورائے قانون و انصاف اقدام کی طاقت ہے اس لئے ہمیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں۔ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہم پوچھنے کی سکت نہیں رکھتے مگر ثنا خوان تقدیس مغرب سے تو ہم پوچھ سکتے ہیں کہ جناب والا! کیا سنگ و خشت کو اپنے تابع کرنے کا نام ترقی ہے یا سرکش نفس انسانی کو اعلیٰ و ارفع اصولوں کے تابع کرنا شرف انسانیت ہے؟ مرشد اقبال تو ہمیں بہت پہلے خبردار کر گئے تھے: ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا بنیادی انسانی حقوق‘ جمہوری اقدار اور دیانت و امانت کی اعلیٰ و ارفع اقدار امریکہ کا داخلی ایجنڈا تو ہو سکتا ہے مگر عالمی ایجنڈا ہرگز نہیں۔ قارئین کے استفادے کے لئے میں یہ بتا دوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکی کانگریس نے مواخذے کی کارروائی کی سفارش کر دی ہے اور اب یہ معاملہ امریکی سینٹ کے سامنے پیش ہو چکا جہاں سے اس کو توثیق باقی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مواخذہ کیوں ہو رہا ہے۔ ٹرمپ نے گزشتہ سال جولائی میں یوکرائنی صدر زیلنسیکی کو فون کر کے ان پر ناروا دبائو ڈالا تھا کہ وہ سابق امریکی نائب صدر جوبائیڈن اور ان کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے خلاف تحقیقات کروائے۔ہنٹر بائیڈن یوکرائنی گیس کمپنی میں ڈائریکٹر تھے جبکہ اکثر امریکی ذرائع ابلاغ ہنٹر بائیڈن کی کرپشن کو فیک نیوز قرار دے چکے ہیں ٹرمپ کا مقصد سابق نائب صدر جوبائیڈن کو مصیبت میں مبتلا کرنا تھا تاکہ وہ اگلے امریکی صدارتی الیکشن میں ٹرمپ کے خلاف ڈیمو کریٹ کا ایک مضبوط صدارتی امیدوار بن کر سامنے نہ آ سکیں۔ ایران میں امریکہ مخالف جذبات عروج پر ہیں۔ ایران نے امریکی بحری بیڑوں سمیت تل ابیب کو اپنا ٹارگٹ قرار دیا ہے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای سمیت ہر سطح پر امریکہ سے بدلہ لینے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ امریکہ نے ایرانی ثقافتی مرکز سمیت 52ایرانی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ ہمارے خطے میں کشیدگی بڑھتی ہے تو پاکستان کہاں کھڑا ہو گا؟ سردست ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قرشی نے علی الاعلان کہا ہے کہ ہم کسی کے خلاف استعمال نہ ہوں گے۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا کوئی کھٹن وقت آئے اور تحریک انصاف کی حکومت اپنی روایات کے مطابق ایک اور خوفناک یوٹرن لے۔ وزیر خارجہ نے بھی حسب روایت پھر سادگی سے کام لیتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں امن کے لئے کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ جہاں تک تیسری عالمی جنگ یا خطے میں محدود جنگ کا تعلق ہے اس کے بظاہر زیادہ امکانات نہیں۔ امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پلوسی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام پر شدید تنقید کی ہے۔ اسی طرح ٹرمپ مخالف ڈیمو کریٹ پارٹی ممتاز رہنما برنی سینڈر نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑنے دیں گے۔ امریکہ میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ میں معاشی صورت حال بھی بہت دگرگوں ہے۔ امریکی ووٹروں کی ایک معمولی تعداد ٹرمپ کے ’’دھمکی سٹائل‘‘ کو پسند کرتی ہے مگر ووٹروں کی اکثریت کسی نئی جنگ کے خلاف ہے۔ امریکہ میں کوئی بھی شخص چاہے وہ سیاست دان ہو یا معیشت دان یا قانون دان یا عام شہری، وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کی حمایت پر ہرگز آمادہ نہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کے لئے کوئی جنگی صورت حال ہماری تزویراتی سیاست اور ڈولتی معیشت کے لئے انتہائی مہلک ہو گی۔ ادلے بدلے والی کشیدگی جتنی جلدی ممکن ہو ختم ہونی چاہیے تاہم ہمیں خطے میں کوئی جنگ ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔