پاکستان کا تجارتی خسارہ یعنی امپورٹ اور ایکسپورٹ بہت بڑا معاشی سر درد بنتا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر پر بوجھ پڑ رہا ہے۔ امپورٹ ایکسپورٹ میں فرق بڑھتا جا رہا ہے، تجارتی خسارہ میں اس مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں 106 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور یہ ساڑھے25 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ ہم وہ چیزیں امپورٹ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ملک پر بوجھ بڑھ رہا ہے ہمارا ملک اس قسم کی پر تعیش اشیا کو امپورٹ کو ایفورڈ نہیں کرسکتا ۔مثال کے طور پر پہلے چھ ماہ میں صرف گاڑیوں آٹو پارٹس اور موٹر سائیکل کے متعلق پرزوں کی درآمد پر ایک ارب 72 کروڑ ڈالر یعنی 317 ارب روپے خرچ کردیے یعنی چھ ماہ کے دوران ایک ارب ڈالر کی قسط کیلئے حکومت کوآئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننا پڑی تھیں جبکہ پاکستانی عوام نے آئی ایم ایف کی قسط سے ڈیڑھ گنا زیادہ مالیت کی پر تعیش گاڑیاں اور اس کے پارٹس وغیرہ منگوالئے ۔اسٹیٹ بینک کے اعدادو شمار کے مطابق اس مالی سال کی پہلی ششماہی میں گاڑیوں کی امپورٹ پر خرچ ہونیوالا زر مبادلہ گزشتہ سال کے مقابلے میں141فیصد زیادہ ہے پچھلے سال کی پہلی ششماہی میں 70 کروڑ ڈالر یعنی 121 ارب روپے کی گاڑیاں امپورٹ کی گئی تھیں۔ اس مالی سال کی یہ رقم ایک ارب 72 کروڑ ڈالر یعنی 317ارب روپے ہو چکی ہے،اس حساب سے تجارتی خسارہ بڑھے گا نہیں تو کیا ہوگا معیشت کیلئے یہ تباہ کن ثابت ہو رہا ہے ۔حکومت نے تمام گاڑیوں کی امپورٹ پر ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی 7 فیصد سے کم کر کے2 فیصد کردی تھی اور الیکٹرانک گاڑیوں کی امپورٹ پر ڈیوٹی 25 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کردی تھی اس کی وجہ سے گاڑیاں کچھ سستی ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے جولائی اور اگست میں9200سے زائد گاڑیاں امپورٹ کی گئیں، پھر ستمبر میں اسٹیٹ بینک نے بڑھتے ہوئے درآمدی بل میں کمی کیلئے نئی اور پرانی گاڑیوں کی بینک فنانسنگ پر پابندی لگادی تھی لیکن گاڑیوں کی امپورٹ میں پھر بھی کمی نہیں آئی حکومت نے اس سال منی بجٹ میں درآمدی گاڑیوں کی امپورٹ میں کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ کیا لیکن اس سے پہلے دسمبر میں دھڑا دھڑ گاڑیاں امپورٹ ہو چکی تھیں ۔ماہرین کے مطابق امپورٹ بل 40 ارب ڈالر کا ہو چکا ہے۔ادھر پچھلے20 سالوں سے قومی کارپوریشنز ملکی خزانے کا خون چوس رہی ہیں درجنوں صنعتیں تو ایسی ہیں جو کام کی ہیں نہ کاج کی دشمن اناج کی پاکستان اسٹیل، پی آئی اے ،ریلوے،پاور سیکٹر کی بعض ڈسکوز سمیت 200 کے قریب قومی کارپوریشنز 20 وزارتیں چلا رہی ہیں۔ بلا شبہ پاکستان ملکیت کی صنعتوں کا ایک قبرستان بن چکا ہے اس وقت پاکستان آئی ایم ایف پرو گرام میں ہے اور آئی ایم ایف نے حکومت کو سخت دبائو میں لے لیا ہے۔ پہلی بار اس کو اپنے پرو گرام میں شامل کیا ہے اور قومی کارپوریشنز کو نئے قوانین کی منظوری سے منسلک کیا ہے آئی ایم ایف کے مطابق قومی کارپوریشنز کے قرضے ،خسارے،واجبات اب 5 ہزار ارب سے بھی تجاوز کر چکے ہیں جو ملکی مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کا 8فیصد بنتا ہے ۔خسارے میں چلنے والی ان کارپوریشنز کی بات اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ حکومتی ضمانتیں بھی اسے کور نہیں کرسکتیں آئی ایم ایف نے حکومت کو جون تک اس کی سفارشات کے مطابق ان کارپوریشنز کو قانونی ریگولیٹری اور پالیسی فریم ورک کو اپ ڈیٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کے تحت حکومت سرکاری کمپنیوں کی کارکردگی کو صرف چیک کرسکے گی ۔کمپنی کے بورڈ متعلقہ وزارت سے مشاورت کرینگے لیکن وہ ان معاملات میں مکمل خود مختار ہونگے۔ یہ پہلے ہی ایسا ہو جانا چاہئے تھا کسی بھی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی اب آئی ایم ایف زبردستی حکومت کو ایسا کرنے کیلئے کہہ رہا ہے گو کہ یہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے جسے حکومت کو حل کرنا چاہئے تھا اب کمپنیاں اپنے اہداف بھی خود ہی طے کرینگی اب حکومت کا کمپنی چلانے میں کوئی کردار نہیں ہو گا ۔یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ خسارے میں چلنے والے اداروں کو پرائیویٹ کردینگے ۔نواز شریف جب وزیر اعظم تھے تو تب یہی بات دوہرائی گئی 2013 میں نواز شریف نے کہا کہ کچھ کمپنیوں سے اربوں کھربوں کا نقصان ہو رہا ہے، یہ میرا فرض بنتا ہے کہ ان کے نقصانات کو فوری طو پر کم کریں اس کے لئے راستے میں جو مصیبت آئے گی اسے ہر صورت دور کرینگے۔ اگر ہم یہ دور نہ کرسکے تو ہمیں حق نہیں کہ ہم حکومت چلائیں-افسوس کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی ابھی تک وعدے اور دعوے کئے ہیں عملی طور پر کچھ نہیں کیا وزرا بھی ان اداروں کو سدھارنے کیلئے اپنی اپنی حکمت علمی بناتے رہے لیکن ہوا کچھ نہیں۔اسد عمر نے بھی یہی کہا تھا اور ملائیشیا اور دیگر ملکوں کا حوالہ دیا تھا سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے بھی کئی اداروں کو پرائیویٹ کرنے کا کہا لیکن نہیں کرسکے نئے وزیر خزانہ نے بھی اسی بات کو دوہرایا لیکن صورتحال جوں کی توں برقرار ہے تین حکومتیں نقصان میں چلنے والے اداروں کو پرائیویٹ کرنے کا عزم کر چکیں لیکن ابھی ایک پتھر بھی نہیں ہلایا جا سکا-ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بات ہمیں آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کیا ہمیں نہیں پتہ کہ یہ ہمارے ملکی مفاد میں ہے-ماہرین کا کہنا ہے کہ کہ بین الاقوامی سطح پر خوراک اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور دوسرے عالمی عوامل کی وجہ سے پاکستانی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات اور بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے سے نمٹنے کے لئے حکومت کو کچھ ضروری اقدامات اٹھانے چاہئیں جن میں سے ایک اہم قدم مخصوص سرکاری اداروں کو نجی شعبے کی تحویل میں دینا ہے۔اب حکومت نے معیشت کی بہتری کے لیے سرکاری اخراجات کو کنٹرول کرنے، سبسڈیاں ختم کرنے اور ترقیاتی اخراجات کے لئے ترجیحات طے کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور منتخب سرکاری اداروں کو نجی شعبے میں دینے کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔ماہرین کے مطابق نجکاری درست اور بہتر فیصلہ ہے اور اسی میں عوام کی بہتری بھی ہے کیونکہ اس سے نہ صرف ملک میں غیرملکی سرمایہ آئے گا بلکہ ملازمتوں کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ٹیلی کام سیکٹر نے نجی شعبے میں جانے کے بعد بڑی ترقی کی ہے اور عوام کے لئے سہولت بھی پیدا ہوئی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ آپ کو ٹیلی فون کنکشن سفارش پر لینا پڑتا تھا اور اب یہ حال ہے کہ دس کمپنیاں کنکشن کیلئے آپ کا پیچھا کررہی ہوتی ہیں۔ تو نجکاری (کے غلط ہونے) کے بارے میں پایا جانے والا تصور ایک خاص قسم کی سوچ ہے اگر اسے ٹھیک طریقے سے کیا جائے تو اس سے عوام کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے لیکن کچھ ماہرین کے مطابق ماضی میں بھی نجکاری سے ملک کی معیشت کو فائدے کے بجائے نقصان ہوا۔جتنے اثاثے غیرملکی کمپنیوں کو بیچے گئے ہیں وہ پاکستان میں روپوں میں کماتے ہیں اور اپنا منافع ڈالر میں باہر بھیجتے ہیں تو اگر ہم اسی ٹریک پر رہے، ہم نے اثاثے بیچ کر آج ڈالر کمانے ہیں تو ہم آج تو سو ڈالر کمالیں گے لیکن اگلے دس پندرہ بیس سالوں تک ہم سو ڈالر سے زیادہ سالانہ باہر بھیجتے رہیں گے اور اس سے زر مبادلہ میں اضافے کے بجائے کمی ہوگی-حکومت کو معیشت کی بہتری کے لئے نجکاری کے بجائے کچھ اور اقدامات پر توجہ دینا ہوگی۔ملک میںپٹرول کی راشننگ کرکے پٹرول کی درآمد کم کی جاسکتی ہے۔ اگر ریلوے کا نظام بہتر کیا جائے جو میرے خیال میں ایک سال کے اندر ہوسکتا ہے تو مال کے نقل و حمل کو ہم روڈ سے ریل پر منتقل کرسکتے ہیں۔ اس سے ڈیزل کا استعمال کم ہوسکتا ہے۔ ڈیزل کا استعمال اس لئے زیادہ ہے کہ ملک کے اندر اشیاء کی نقل و حمل پچانوے فیصد ٹرکوں کے ذریعے ہوتی ہے۔حکومت کئی غیرضروری سرکاری اداروں کو بند کرکے سویلین شعبے کے غیرترقیاتی اخراجات میں اربوں روپے کی کمی لاسکتی ہے۔