جب مودی سرکار اور آر ایس ایس ببانگ دہل یہ اعلان کر رہی ہے کہ ہم نے ہندوستان کو پوری اور کامل ہندو راشٹر بنانا ہے تو پھر ہندوستانی مسلمانوں کا اس ہندو راشٹر میں حشر کیا ہو گا محتاج وضاحت نہیں۔ کیونکہ یہ کوئی اسلامی مملکت نہیں بننے جا ری کہ جہاں باقی مذاہب کے پیروکاروں کے حقوق کا بھرپور تحفظ ہو۔ اس ہندو سٹیٹ میں ہندوئوں کے علاوہ کسی اور بالخصوص مسلمانوں کو رہنے کا حق حاصل نہیں ہو گا۔ 2020 ء کے آغاز پہ امن کی امیدوں اور خوشحالی کی تمنائوں کے ساتھ دنیا بھر میں جشن کا سماں تھا۔آتش بازی کی جارہی تھی۔لیکن ہندوستان کے مسلمان آرایس ایس کے چٹے بٹے فاشزم ،خوفناک تنگ نظری ،نفرت ،تعصب اورانتہا پسندی کے گھیرائومیں تھے ۔تاریخ گواہ ہے کہ جب یورپ میںنسل پرستانہ برتری ، مذہبی منافرت کے جنون وتعصبات نے جنم لیاتو مسلمانوں سے اندلس چھین لیاگیا۔ آج 2020 ء ہے اورہندوستان میں نسل پرست نظریات اور مذہبی منافرت کی جڑیں ہر گزرتے دن کے ساتھ گہری ہوتی چلی جارہی ہیں ۔ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف منافرت ،اشتعال اور ہیجان انگیز بیانات اور تقاریر کوجس بڑے پیمانے پر پذیرائی مل رہی ہے اسے دیکھ کرلگ رہاہے کہ کوئی بعید نہیں چند سالوں میں اس خطے میں ایک اورسپین بن جائے اورہندوستان کے مسلمان اپنے آبائی سرزمین سے نکال دیئے جائیں ،کیوںکہ ہندوستان میں ہرطرف مذہبی جنون وتعصب کا گھنائونا عفریت بڑا ہی طاقت ورہوکرچنگاڑ رہاہے ۔ہندوستانی مسلمان پرہرگذرتے دن کے ساتھ ساتھ دھونس ،دبائو، غموں اور مصیبتوں کی قیامت خیزیاں بدستورجاری ہیں اوراکیسویں صدی ان کے لئے ایک خوفناک غلامی وجبر کا دور ثابت ہورہی ہے،ان پرہر سو فضا میں حکومتی جبر وقہر مسلط ہے ،ان پرنازی جرمن کے طرز عمل کا نیا تجربہ دہرائے جانے کو ہے ۔پانچ سو سالہ تاریخی بابری مسجد کومسلمانوں کی ملکیت کے تمام ثبوتوں کے باوجود شہیدکردیاگیااوراس مقام پراب رام مندربنایاجارہاہے۔ شہریت قانون صرف اس لئے بنایاگیاتاکہ مسلمانوں کوہندوستان سے نکال باہر کیاجاسکے۔ ا سلامی تاریخ کے المناک ابواب میں سے ایک باب غرناطہ کا سقوط ہے ۔آج سے 13صدیاں قبل سپین کی مہم کے دوران جبل الطارق نامی جزیرے (موجودہ جبرالٹر)پر پہنچنے کے بعد جب طارق بن زیاد نے اپنے لشکر کو کشتیاں جلانے کا حکم دیا تھا، تو اس کے وہم گمان میں بھی نہ ہوگا کہ تقریبا آٹھ سو سال بعد مسلمانوں کی واپسی ایسی حالت میں ہوگی کہ 8صدیوں تک سپین پر حکمرانی کرنے کے بعد مسلم حکمران نامردوں کی طرح آنسو بہاتا ہوا اقتدار کی کنجیاں عیسائی حکمرانوں کے حوالے کردے گا۔ سپین کے آخری مسلم حکمران ابوعبداللہ کی جس نے آج سے 527سال قبل 2 جنوری 1492ء کوغرناطہ کا اقتدار مسیحی ملکہ ازابیلا اور شاہ حوالے کرکے سپین میں صدیوں پر محیط عظیم الشان مسلم اقتدارکے خاتمے پر مہر ثبت کردی تھی۔ مسلمانوں کی گرفت کمزور ہونے کے بعد سپین متعدد چھوٹی چھوٹی ریاسستوں میں تقسیم ہوگیا تھا جن میں سے غرناطہ واحد ریاست بچی تھی ۔شمال کی عیسائی ریاستیں رفتہ رفتہ جنوب میں، مسلمانوں کے ایک ایک علاقے پر قبضہ کرتی رہیں، سب سے پہلا شہر جو مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلا وہ طلیطلہ تھا اور دو سو سال بعد جو آخری شہر مسلمانوں کے ہاتھ سے گیا وہ غرناطہ تھا ۔ غرناطہ سے مسلمانوں کاصفایا کرنے کے لئے مسلمانوں پر جس طرح عرصہ حیات تنگ کیا گیا، وہ انسانی تاریخ کا تاریک ترین باب ہے۔سقوط غرناطہ کے بعد مسیحی بادشاہ اور اس کی بیوی ازابیلا نے ابتدا یہ کی کہ مسلمان خود ہی عیسائیت اختیار کر لیں ،لیکن جب مسلمانوں نے ترک مذہب کومسترد کر دیا تو مختلف مواقع پر مختلف قوانین شہریت بنا کر مسلمانوں کو سپین سے مٹا دیا گیا ۔ عربی پر پابندی لگی تو ہر گھر کی تلاشی کے بعد ہزاروں عربی کتابیں جمع کر کے باب الرہلہ کے چوک میں سپرد آتش کر دی گئیں،یورپی مورخین کا اندازہ ہے کہ شاہ شیمنس کے حکم سے صرف غرناطہ میں سپرد آتش کی جانے والی عربی کتابوں کی تعداد اسی ہزار تھی۔ اس میں قرآن کے وہ نسخے بھی تھے جو مسلمان چھپا کر رکھتے اور اپنے بچوں کو پڑھاتے تھے ۔اس کے علاوہ تاریخ، ادب،فقہ،حدیث، تفسیر فلسفہ، کلام،طب، طبعیات، فلکیات وغیرہ وغیرہ کی کتب، جو آٹھ سو سال میں مشرق و مغرب سے لا کر جمع کی گئیںتھیں گھروں اور لائبریریوں سے نکال کر جلا دی گئیں ۔1604ء میں مسلمانوں کے حوالے سے آخری قانون شہریت یہ آیا کہ مسلمان سرزمین اندلس کو بالکل خالی کر دیں ۔ چنانچہ دو سال کے عرصے میں تقریبا پانچ لاکھ مسلمانوں نے اندلس کو خیر باد کہہ دیا، زیادہ تر افریقہ میں یا جہاں انہیں پناہ ملی ،چلے گئے ۔ان میں سے ایک تہائی لوگ راستے ہی میں یا قتل کر دیئے گے یا خود مر گئے ۔اور 1606کے بعد سپین میں ایک مسلمان بھی باقی نہ رہا۔ 2020ء کی صورت میں ہندوستان میں مذہبی منافرت ، نسل و قوم پرستی کے جنون وتعصب کا جو سورج طلوع ہواہے وہ شاید دہائیوں تک نہ ڈھل سکے ۔خدانہ کرے لیکن ایسادکھائی دے رہاہے کہ اکیسویں صدی ہندوستان میں مسلمانوں کواسپین جیسی صورتحال درپیش ہوگی ۔اس میں کوئی کلام نہیں کہ 22کروڑ ہندوستانی مسلمان آرایس ایس اورہندتواکے چنگل میں ہیں اوروہ آرایس ایس کی نسل پرستانہ برتری کے نازی طرز مظالم کے شکارہیں۔اس صورتحال کو ہندوستانی مسلمان عین الیقین کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اوروہ اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ ان کے لئے اس کے سواکوئی دوسراراستہ موجودہی نہیں رہاہے کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے نہایت پامردی پوری مستعدی کے ساتھ برسراحتجاج ہیں اپنی احتجاجی تحریک سے مودی اینڈکمپنی کے غرور اور عددی برتری کے پندار کا غبارہ پھاڑکررکھ دیں۔انہیں یہ بات پوری طرح سمجھ آچکی ہے کہ وہ اپنی جد وجہد پوری قوت سے جاری رکھنے کے لئے ، کمر بستہ ہوجائیں ،توپھرہی وہ سرزمین ہندوستان پرجی سکیں گے اورپرسایہ کی ہوئیں جبر واستبداد کی گھٹائیں چھٹ کے رہیں گی۔ واضح رہے کہ کرہ ارض پرموجودعوامی طاقت آزمودہ ہے اورعوامی سمندرظالم حکمرانوں کے سارے عزائم خس وخاشاک کی طرح بہا لے جاتاہے۔