ملک جہانگیر اقبال 

 

حیرت انگیز داستان

اگر نہیں پڑھا تو سمجھ لیں کہ انسانی سوچ/ نظریے/دشمنی کی تاریک ترین جھلک دیکھنے سے

 آپ اب تک محروم ہیں ۔ چلیں انتہائی مختصراً بتاتا ہوں امید ہے آپ کے دماغ میں اک خاکہ ضرور بنے گا ۔ لیکن آپ نے انقلاب فرانس کا تفصیلی مطالعہ ضرور کرنا ہے ۔  واقعات کا تسلسل یوں ہے کہ فرانس میں کنگ لوئی (پندرہ) کی بادشاہت ہے ۔ وہ اک بیوقوفانہ فیصلہ کرتے ہوئے تاج برطانیہ سے جنگ کرتا ہے اور بری طرح ہار جاتا ہے ۔تاریخ میں اسے 7 سالہ جنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس میں پورا یورپ تقسیم اور بدحال ہوا ۔ مالی طور پر فرانس کو شدید نقصان ہوتا ہے پر نقصانات کا بوجھ غریب کسانوں پہ ڈال کر بادشاہت و اشرافیہ عیش و عشرت جاری رکھتے ہیں ۔ 

اس وقت فرانس کی آبادی تین درجات میں تقسیم تھی 

1) مذہبی 

2) نوبیلیٹی یا اشرافیہ (فنکار, قانون دان , کاروباری حضرات اور آرٹ فورم سے تعلق رکھنے والے)

3) مڈل کلاس اور لوئر کلاس طبقہ جو آبادی کا 80% ہے  

اس دوران جب ٹیکسز کا بوجھ بڑھا تو یہ تمام بوجھ تیسری کیٹیگری پہ ڈالا گیا جس پہ غریب طبقہ نے نجی محفلوں میں بقیہ دونوں کلاسوں اور بادشاہت پہ سوال اٹھانا شروع کردئے ۔ خیر کنگ لوئی xv کے مرنے کے بعد اس کا پوتا کنگ لوئی xvi بادشاہت کی مسند پہ بیٹھتا ہے جو بذات خود نالائقی کا پہاڑ ہے پر کیا کیجئے بادشاہت ہے اور بادشاہت  میں قابلیت کہاں چلتی ہے ۔ 

اس دوران امریکہ میں جنگ آزادی شروع ہوتی ہے تو فرانس تاح برطانیہ سے بدلہ لینے کی خاطر امریکی افواج کی مالی مدد کرتا ہے حالانکہ اس وقت خود اسکی اپنی معاشی حالت دگرگوں ہوتی ہے جس کا مزید ستیاناس ہوتا ہے ۔ اک طرف عوام کی تیسری کیٹیگری غربت سے جونچ رہی ہوتی ہے دوسری جانب بادشاہ اور ملکہ کی عیاشیاں جاری ہوتی ہیں ۔ مذہبی اشرافیہ انہیں مکمل سپورٹ کرتی ہے جبکہ نوبیلیٹی پارٹیاں کرنے میں مگن رہتی ہے ۔ 

بادشاہ کے ارد گرد مذہبی اشرافیہ اور نوبیلیٹی کا گھیرا رہتا لہذا جب بھی مالی مشکلات آتیں سب یک زبان ہوکر بادشاہ کو مشورہ دیتے کہ " آپ ٹیکس بڑھا دیں " اور یوں ٹیکس بڑھتا اور غریب مزید غریب ہوجاتا ۔ جب غریب سوال کرتے تو اتوار کے روز چرچ میں پادری رقت آمیز جذباتی بیان دیتا کہ " یہ ٹیکس دینا آپ کا فرض ہے ایسا نہیں کریں گے تو خدا ناراض ہوگا۔ جیسز کرائس ہمارے انہی گناہوں کیوجہ سے سولی چڑھے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔" بہرحال زندگی اپنی رفتار سے آگے بڑھتی رہی اور غریب پستا رہا یہاں تک اک سال موسمی تبدیلیوں کے باعث کسانوں کی فصلیں خراب ہوئیں تو غریب طبقے کو کھانے کے لالے پڑ گئے جبکہ دوسری جانب ملک کی بقیہ بادشاہ پرست کلاسز جن کے گودام اناج سے بھرے پڑے تھے وہ غریب عوام سے غافل موج مستیوں میں لگے رہے ۔ 

فرانس کے دیہاتوں سے پریشان حال کسان بھوک و غصے سے باہر نکلے احتجاج کئے اور کئی مقامات پر بیکری والوں کو اس شک پہ سولی چڑھا دیا کہ اس نے بریڈ اپنے لئے ذخیرہ کر رکھی تھی اور یوں پہلی بار سڑکوں پہ انارکی پھیلی ۔ بادشاہ تک خوش آمدیوں کے ذریعے یہ خبریں پہنچی تو اسی اشرافیہ سے مشورہ کر کے بادشاہ نے "جمہوریت"کا احترام کرتے ہوئے پارلیمنٹ بنائی جسے تین درجات میں تقسیم کیا گیا ۔ 

1)مذہبی (آبادی میں انکی کل تعداد ایک لاکھ تیس ہزار تھی)

2) اشرافیہ (کل آبادی میں انکی تعداد ساڑھے تین لاکھ تھی) 

3) باقی ماندہ مڈل و لوئر عوامی نمائندگان (جن کی آبادی 2 کروڑ 70 لاکھ تھی) 

ان تینوں طبقات کا "برابری"کی بنیاد پہ ایک ایک ووٹ تھا ۔ اب اسمبلی میں ہوتا کیا تھا ذرا یہ دیکھیں ۔ مذہبی طبقہ مشورہ دیتا کہ کسانوں پہ ٹیکس لگایا جائے ۔ اس پہ اسمبلی میں ووٹنگ ہوتی ۔  مذہبی اور اشرافیہ ہاں میں ووٹ دیتے جبکہ غریب نمائندگان ناں میں اور یوں "صاف شفاف ووٹنگ" کی بنیاد پہ 1 کے مقابلے 2 ووٹوں سے یہ ٹیکس نافذ ہوجاتا اور جب غریب نمائندگان اشرافیہ یا مذہبی طبقات پہ ٹیکس لگانے کا بل پیش کرتے تو وہ ٹھیک اسی طرح 2-1 سے رد ہوجاتا یعنی اب باقاعدہ غریب کی آئینی و قانونی طریقے سے چمڑی اتاری جارہی تھی ۔ کچھ عرصہ کی اس ڈرامہ بازی کے بعد 1789 میں غریب نمائندگان نے اپنی الگ اسمبلی بنالی یہیں پہ میکسمیلیئن اور جارج ڈانٹن پہلی بار سامنے آئے جنہوں نے جیکوبن کلب نامی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی ۔ میکسمیلیئن روبسپیئر متشدد انسان تھا جس کے حامیوں نے بادشاہ نامنظور کا مطالبہ رکھا ۔ بادشاہ نے پیرس کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا اور یہاں سے خونی انقلاب فرانس کا آغاز ہوا ۔ الگ اسمبلی بنانے والوں نے اپنی الگ فوج بھی بنالی اور یوں فرانس کی فوج میں شامل فوجی بھی نئی فوج (نیشنل گارڈز) میں شمولیت اختیار کرنے لگے کہ وہ بھی مہنگائی سے تنگ تھے ۔  انہوں نے فوجی گوداموں سے ہتھیار اٹھائے اور ان ہتھیاروں کے بارود کیلئے گورنر ڈی لاؤنے کے قلعے پہ دھاوا بولا اور گورنر کا سر کاٹ کر نیزے میں لٹکا کر شہر بھر میں گھمایا ۔  نئی اسمبلی نے اس عمل پہ خوشی کا اظہار کیا ۔ اس دوران اک صحافی "اور ادیب جین پال سارتر بہت مشہور ہوا جو عوام کو بادشاہ اور اسکے حمایتی طبقات کیخلاف اکساتا کہ انہیں مار دو ورنہ یہ تمہیں مار دیں گے ۔ بادشاہ نے آسٹریا بھاگنے کی کوشش کی کیونکہ اسکی بیوی وہاں کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی پر سرحد میں نیشنل گارڈز نے اسے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا ۔ 

اب یہاں عوامی نمائندگان میں بھی دو گروپ بن گئے۔ ایک انتہاپسند دوسرے معتدل ۔ انتہاپسندوں کا ماننا تھا کہ بادشاہ اور ملکہ کو لٹکا دیا جائے جبکہ معتدل کہتے تھے بادشاہ کو بنا اختیار کے علامتی عہدے پہ رہنے دیا جائے۔ اک روز انتہاپسندوں نے جیل کے باہر پھانسی کیلئے احتجاج کیا تو نیشنل گارڈز نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور یوں کئی احتجاجی مارے گئے ۔ اور  انقلابی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ۔ چونکہ عوام کو مرو ماردو والی باتیں زیادہ پرکشش لگتی ہیں لہذا انتہاپسندوں کی مقبولیت بڑھتی گئی نئے انتخابات میں انتہاپسند پوری طرح سے حاوی ہوگئے اور یوں "اصلاحات" کا سلسلہ شروع ہوا ۔ 

سب سے پہلے پادریوں اور چرچ سمیت ہر اس شے کو ختم کیا گیا جس میں مذہب کا ذرا سا بھی شائبہ تھا اور یوں فرانس باقاعدہ و باضابطہ آئینی طور پر ملحد (Atheist) ریاست بنا ۔ عیسائی کلینڈر بدل کر نیا فرانسیسی کلینڈر لایا گیا ۔ حب الوطنی کے نام پر حکومت مخالف لوگوں کو پابند سلاسل کیا گیا اور یوں اک وقت آیا جب جیلوں میں قیدی رکھنے کی گنجائش ہی نہ بچی ۔ پڑوس کے تمام ممالک سے حالات کشیدہ ہوچکے تھے ۔ پڑوسیوں کو لگتا تھا کہ یہ انارکی انکی بادشاہت کیلئے بھی خطرہ ہوسکتی لہذا فرانس ہر وقت حالت جنگ میں ہی رہتا ۔ اس دوران صحافی کا قلم حکومت مخالفین اور بادشاہ کے ساتھیوں کیخلاف زہر اگلتا رہا اس نے اب یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ جنگ کی صورت میں یہ تمام قیدی غداری کر کے حکومت سے لڑیں گے لہذا یہ "ریاست" کیلئے خطرہ ہیں نتیجاً بپھری عوام نے جیلوں چوراہوں میں ہزاروں کی تعداد میں پادریوں، فنکاروں ، عورتوں اور بچوں کو ذبح کیا ۔ اس دوران آسٹریا نے مطالبہ کیا کہ بادشاہ لوئی کو اس کے حوالے کردیا جائے تو ہم فوجیں سرحد سے ہٹالیں گے پر شدت پسند پارٹی کے سربراہ میکسمیلیئن نے نہ صرف یہ آفر ٹھکرائی بلکہ ایوان کے نمائندگان سے بل پاس کروا کر بادشاہ کو موت کی سزا سنوائی گئی اور یوں چوک پہ بادشاہ کا سر تن سے جدا کردیا گیا اور یوں خیر سے اب پورا یورپ فرانس کیخلاف ہوچکا تھا !! 

 لوگوں کو جبری فوج میں بھرتی کیا جانے لگا اور یوں اک نئی خانہ جنگی کا آغاز ہوا جس میں انقلابیوں کی ہی دو اقسام آپس میں بھڑ چکی تھیں اور کم متشدد طبقے کو لگنے لگا تھا کہ اس سے تو بادشاہت ہی بہتر تھی ۔ دوسری جانب مذہب پسند بھی ہتھیار اٹھا چکے تھے تیسری جانب ان جنگوں میں چھوٹے قد کے اک فوجی افسر کی بہادری کا چرچہ ہر سو پھیلنے لگا تھا جس کا نام "نپولین بونا پارٹ " تھا ۔ 

پیرس کی صورتحال یہ تھی کہ معتدل مزاج ایوان نمائندگان نے جب جین پال کے نفرت آمیز رسالے پر اسکی بازپرس کی تو میکسمیلیئن نے سیاسی کارکنوں کو مسلح کر کے اسمبلی کا گھیراؤ کروایا اور بچے کچھے معتدل مزاجوں کو اسمبلی سے نکال باہر کیا اور اب فرانس جنونیوں کے ہاتھ تھا جنہیں مذہب سے نفرت تھی ۔ سیاسی مخالفت تو دور سیاسی مخالفت کے شبہ پر بھی گردن اڑا دیجاتی تھی ۔ 

اس دوران اک خاتون نے نفرت آمیز تقریروں پر جین پال کا قتل کردیانتیجاً عورت کی تو گردن اڑا دی گئی پہ جین پال کا مجسمہ بنا کر سابقہ چرچوں میں ویسے ہی ٹنگایا گیا جیسے حضرت عیسی علیہ سلام کی شبیہ ٹانگی جاتی ہے ۔ 

جین پال مرنے کے بعد مزید خوفناک ہوچکا تھا !!

یہاں سے خوف کی سیاست کا نیا باب شروع ہوا ۔ ایوان نمائندگان ڈمی سیٹ اپ بن کر رہ گیا۔ بارہ رکنی شوریٰ بنائی گئی اور اک طرح کی ڈکٹیٹر شپ نافذ کردی گئی ۔ جاسوس ہر گلی کوچے میں پھرنے لگے ۔ کہیں کھانا کھاتے ازراہ مزاح بھی حکومت کیخلاف کچھ بات کرتا تو اس پہ بھی سر تن سے جدا ہونے لگا ویسے یہی وہ "انقلاب" تھا جس میں "گلیٹین" ایجاد کی گئی یہ دراصل لکڑی کے دو پلر ہوتے تھے جس کے سرے پہ رسی کیساتھ اک تیز دھار بلیڈ بندھا ہوتا تھا نیچے سانچے میں بندے کا سر گردن تک پھنسا کر بلیڈ چھوڑا جاتا اور یوں اک لمحے میں سر تن سے جدا ہوجاتا ۔ اندازاً اس ڈکٹیٹر شپ کے تھوڑے ہی عرصے میں معمولی "جرائم" کے محض الزامات  پہ لگ بھگ 40 ہزار شہریوں کے سر تن سے جدا کئے گئے اور اب متشدد عوامی حلقے بھی خوف میں تھے اور اک دن ملکہ کا سر بھی… میکسمیلیئن کے ساتھ ملکر جیکوبن کلب نامی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھنے والے جارج ڈانٹن جو سرحد پہ جنگوں میں مصروف تھا اپنی پیرس واپسی پہ پرانے دوست میکسمسلیئن سے ملا اور مشورہ دیا کہ اب خوف کی سیاست ختم ہونی چائیے ۔ میکسمسلیئن نے اسکی بات سکون سے سنی اور پھر اپنے قریبی دوست کو غدار کا لقب دیتے ہوئے اسکی بھی گردن اتروا دی ۔ میکسمیلیئن اب ڈکٹیٹر شپ سے خدائی کیجانب چل پڑا تھا ۔ اسمبلی میں متشدد ٹولے کا غلبہ تھا اور پھر اک دن میکسمیلیئن نے اپنے متشدد رفقا سے کہا کہ " میرے پاس ایسے لوگوں کے نام موجود ہیں جو بظاہر دوست درحقیقت میرے مخالف ہیں۔۔۔" 

اس تقریر کا نتیجہ کیا نکلا ؟ 

متشدد دوستوں نے مل کر میکسمیلیئن کو ہی غدار اور سزائے موت کا حقدار قرار دیا اور 2 دن بعد میکسمیلیئن کا سر بھی تن سے جدا ہوگیا !! 

لیکن انقلاب ابھی بھی ختم نہیں ہوا ۔۔۔ اب یہ ہوا کہ متشدد طبقہ بکھرنے لگا اور جو پسا ہوا معتدل مزاج یا مذہب پسند طبقہ تھا وہ مل کر متشدد طبقے کو مارنے لگے یعنی جو متشدد تھے اب مظلوم بن گئے اور جو معتدل مظلوم تھے اب ظالم ہوگئے اور یہ مار دھاڑ اگلے پانچ سال چلی ۔ 

سڑکوں پہ جنگیں چلنے لگیں لوگ بادشاہ مانگتے تھے، بادشاہ تو نہ آیا پر سرحد سے نپولین بوناپارٹ اٹھ کر آگیا اور یوں بادشاہت کے خاتمے کیلئے شروع ہونے والا انقلاب ڈکٹیٹرشپ کی پیدائش پہ اختتام پذیر ہوا اسکے بعد ایک عشرہ سے زائد نپولین کی خوفناک جنگیں رہیں اور پھر نپولین کی شکست اور دوران قید موت کے بعد پھر سے فرانس میں بادشاہت آگئی… !! 

نتیجہ کیا نکلا ؟ 

صفر 

سیکھا کیا ؟ 

انسانی فطرت سیکھی اور سمجھی !!

میں نے تویہ سیکھا کہ جب غریب کو لگے کہ ٹیکس اس سے نچوڑا جارہا ہے اور سرمایہ دار کی خوشحالی بڑھتی جارہی ہے تو اسے حکمران ذمہ دار لگتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ حکمران اشرافیہ کا سگا اور ہمارا دشمن ہے ۔یہ سیکھا کہ جب خوف بڑھتا ہے تو غصہ پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ غصہ انارکی پھیلاتا ہے۔ 

یہ سیکھا کہ جب ریاستی قانون کا حصہ رہنے والی جماعتوں کو سینسر شپ کی نظر کردیا جائے تو حکومت مخالف (نہ کہ ریاست مخالف) عوام کو زبان بندی کا احساس ۔ہوتا ہے اور پھر وہ اپنا غصہ ریاست کیخلاف نکالنے لگتے ہیں 

یہ سیکھا کہ جب مخالفین پہ حب الوطنی اور غداری (مسلم ممالک میں کفر کا اضافہ کرلیجئے) کے فتویٰ سیاسی طور پہ لگانے شروع کردئے جائیں تو اس سے اٹھی نفرت کی آگ اک دن آپ کے اپنے گھر تک ضرور پہنچتی ہے (میکسمیلیئن کا انجام اسکی واضح مثال) 

یہ سیکھا کہ نظام کو تبدیل کرنا کشت و خون مانگتا ہے ۔ اس میں اصلاحات کی جاسکتی ہیں پر اگر آپ سارا نظام لپیٹنا چاہتے ہیں تو لاکھوں انسان مارنے کیلئے تیار ہوجائیں کہ اک بار یہ عمل شروع ہوا تو پھر کچھ بھی ہوجائے حالات قابو میں نہیں رہ سکتے وحدت قائم نہیں رہ سکتی ۔ 

یہ سیکھا کہ آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھا جائے ۔ عوام کو بولنے دیا جائے کہ جب تک عوام بول رہی ہے وہ خوف زدہ نہیں ہے اور جب بھی کسی خوف کیوجہ سے عوام بولنے سے ڈرنے لگے تو پھر یاد رکھئیے کہ خوف اک ایسی شے ہے جو کسی بھی وقت غصے میں بدل سکتی اور یہ خوف کے بعد کا غصہ ہی ہوتا ہے جو ہرن کو بھی شیر سے سینگ لڑوا دیتا ہے ۔ 

یہ سیکھا کہ ہماری عسکری و سابقہ و موجودہ سیاسی قیادت کو سیکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ معاملات کس طرح چلانے چلائیں ۔ ہماری مذہبی سیاسی قیادت کو سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی سیاسی حکمت عملی کو سیاسی ہی بنا کر پیش کریں نا کہ اسے مذہب کا نام دیں ۔ 

تو جناب یہ سب کچھ میں نے سیکھا ہے۔ آپ اس سے اتفاق کرسکتے ہیں اور اختلاف بھی ۔ آپ ان سب واقعات میں  عرب انقلاب اور مصر کے مورسی سے شام کے ساحل پہ ننھا بے جان لاشہ بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ آپکو اس میں جلتا لیبیا عراق اور گولیاں کھاتے سوڈانی بھی نظر آسکتے ہیں ۔ آپکو اس میں متشدد ہوتے بھارت کا مستقبل بھی دکھائی دے گا اور بغور دیکھئے تو اس سب میں آپ کو آپ بھی نظر آئیں گے میں بھی نظر آؤں گا … !!!