سیاسی شعور تاریخ کے مطالعے سے جبکہ حکمت ریاضت سے آتی ہے۔ ایئرمارشل اصغر خان تاریخ سے سبق حاصل کرنے پر زور دیتے رہے۔ ’’ہم تاریخ سے کیوں نہیں سیکھتے؟‘‘ اس عنوان سے انہوں نے تاریخی مثالوں سے مزین ایک چشم کشا کتاب بھی لکھی۔ اس کتاب میں اصغر خان نے واضح کیا کہ اگر ہم نے اپنی ہی تاریخ سے سبق سیکھا ہوتا تو فلاں فلاں ٹریجڈی سے بچا جا سکتا تھا۔ بیچارے اصغر خان یہ واویلا کرتے اور رونا روتے اپنے دل میں قومی درد و الم کا بوجھ اٹھا کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور عوام نے کوئی سبق نہ سیکھا۔ تاریخ تو دور کی بات، جناب عمران خان کل کی مثال سے سبق سیکھنے پر آمادہ نہیں دکھائی دیتے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ’’انقلابی دانشوروں‘‘ اور جذباتی سیاست کا جھولا جھولتی اپنی صاحبزادی سے مشورہ کرنے کے بجائے گرم و سرد چشیدہ سیاست دانوں چودھری نثار علی خان، میاں شہباز شریف اور سردار ایاز صادق کی بات سنتے تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے۔ آج تحریک انصاف میں سنجیدہ فکر سیاست دان معدوم تو نہیں مگر محدود ضرور ہیں۔ اگر عمران خان سیاست میں دور رس تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پرویز خٹک، اسد قیصر اور شاہ محمود قریشی کے حکیمانہ مشوروں پر کان دھرنے چاہئیں مگر خان صاحب کی آئے روز کنٹین برانڈ جذباتی تقاریر سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ شیخ رشید، مراد سعید اور فیصل واڈوا کے بھڑکانے میں آ جاتے ہیں اور یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ ہم نے پارلیمنٹ چلانے کے لیے جو کچھ رعایت دینی تھی وہ دے دی اب پارلیمنٹ چلتی ہے تو چلے نہیں چلتی تو نہ چلے۔ اس پر جواباً خورشید شاہ جیسے زیرک سیاست دان نے بھی بہت سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر حکومت نے چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی شہباز شریف کو ہٹانے کی کوشش کی تو اپوزیشن اس کے خلاف وہی کچھ کرے گی جو گزشتہ دور میں تحریکِ انصاف ایوان کے اندر ہلٹر بازی کی صورت میں کرتی رہی ہے۔ اگر حکومت کی عاقبت نااندیشی اور اپوزیشن کی نا سمجھی کی بنا پر خدانخواستہ پارلیمنٹ کی بساط لپیٹی گئی تو یہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک ڈرائونے خواب سے کم نہ ہو گا۔ پاکستان کی پارلیمانی و سیاسی تاریخ میں ہمیشہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹھنی رہتی تھی مگر اس کے باوجود پبلک اکائونٹس کمیٹی کو ہمیشہ ایک باوقار غیر سیاسی فورم سمجھا گیا۔ ماضی میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین بڑے نامور لوگ رہے ہیں۔ جناب نورالامین،مظفر علی قزلباش،مبشر حسین، اے جی این قاضی، غلام اسحق خان، ایم حمزہ ایم این اے، ملک اللہ یار خان اور خورشید شاہ جیسے حضرات اس کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا فورم کوئی سیاسی اکھاڑہ نہیں۔ برسوں سے یہ پارلیمانی روایت چلی آ رہی ہے کہ کوئی وزیر پبلک اکائونٹس کمیٹی کا رکن نہیں بنتا اور کمیٹی کا چیئرمین قائدحزب اختلاف ہوتا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، پی ٹی آئی کے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ممبران راجہ ریاض اور ریاض فتیانہ نے شیخ رشید کی اس کمیٹی میں آمد کی مخالفت کی ہے۔ اگر پی ٹی آئی نے کسی صائب مشورے کے نتیجے میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو پبلک اکائونٹ کمیٹی کا چیئرمین مقرر کر دیا ہے تو اب اس فیصلے پر قائم رہے۔ اسی طرح شہباز شریف نے جن جن امور کی پابندی کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی وہ اس وعدے کی مکمل پاسداری کریں۔ دوطرفہ لچک کے بغیر ایوان قانون سازی کا بنیادی فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔ ہم بھی ان ’’فریب خوردہ شاہینوں‘‘ میں شامل تھے کہ جن کی انڈرسٹیڈنگ یہ تھی کہ جناب عمران خان اسٹیج یا کنٹینر پر جلوہ گر ہوتے ہیں مگر ان کی پروفیشنل ٹیمیں معیشت، تعلیم، صحت، پولیس اور بیورو کریسی کے بارے میں خالصتاً علمی و فنی طریقے سے ورکنگ پیپر مرتب کر رہی ہیں۔ خاص طور پر کے پی کے حکومت کے پانچ سالوں کے دوران تو سٹیٹ کرافٹ سے کام کو قریب سے دیکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کی جا سکتی تھی۔ ان پانچ سالوں میں چاہیے تو یہ تھا کہ عمران خان پارلیمنٹ کی کارروائی میں بھرپور دلچسپی لیتے اور قومی اسمبلی کی لائبریری سے بھرپور استفادہ کرتے اور پارلیمانی تاریخ سے آگہی حاصل کرتے۔ اس دوران چاہیے تھا تا کہ عمران خان اپنی پارٹی کی تنظیم پر توجہ دیتے اور کارکنوں کی تربیت کرتے اور انہیں سماجی خدمات کی ترغیب دیتے مگر عمران خان نے پتہ مار کر اس طرح کے سیاسی ہوم ورک سے گریز کیا اور یہی حال عمران خان کے دیگر صف اوّل کے نمایاں سیاست دانوں کا رہا۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان اپنے اوپر حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کی بنا پر یہ سمجھتے تھے کہ ایک بار کسی نہ کسی طرح سے اقتدار ہاتھ میں آ جائے تو وہ کئی کرشمے اور معجزے کر کے دکھا سکتے ہیں مگر عملی میدان میں ایسا ممکن نہیں۔ اب خان صاحب اعتراف کریں یا نہ کریں انہیں یقینا محسوس ہو رہا ہو گا کہ کہیں پانچ سال تیاری میں ہی نہ گزر جائیں۔ خان صاحب نے پچاس لاکھ گھروں کی نوید سنائی تھی مگر اب اس طرح کے اعلانات آ رہے ہیں کہ اتنے بڑے پراجیکٹ کو پرائیویٹ سیکٹر کی شمولیت کے بغیر مکمل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح ٹیکس اصلاحات لائے بغیر ٹیکسوں کا شور مچا کر اور کاروباری لوگوں کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا اور جو ملک کے اندر ہیں وہ ابھی تک کاروبار کے ٹھپ ہو جانے پر سخت پریشان ہیں، بجٹ کا بڑا حصہ قرضوں کے سود اور دفاعی اخزاجات میں صرف کرنے کے بعد اس میں جو کچھ بچے گا اس سے بیس بائیس کروڑ عوام کو صحت کارڈ، اڑھائی کروڑ بچوں کو تعلیم، ایک کروڑ ملازمین اور پچاس لاکھ گھر کیسے دیئے جائیں گے۔ اس پر مستزاد پنجاب اور خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کے نامور سیاست دانوں کو مقرر کرنے کی بجائے وہاں ڈمی وزرائے اعلیٰ مقرر کر دیئے گئے ہیں اور سارا کام اسلام آباد سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جناب عمران خان غیر معمولی سیاسی، معاشی اور انتظامی صلاحیت رکھتے ہیں تب بھی ایک انسان کی حدود ہیں۔ اسی لیے تو فرمانِ خداوندی کہ ہم کسی انسان کو اس کی حد سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے۔ نا اہل لوگوں کو بڑے بڑے مناصب دے کر عمران خان پارٹی کے اہل قائدین اور مخلص کارکنوں میں شدید نوعیت کی بے چینی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں پہلے ہی کئی دھڑے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے پارٹی داخلی انتشار کا شکار ہو جائے گی اور نا اہل منصف داروں کی بیڈ گورننس سے تحریک انصاف عوامی مقبولیت کھو بیٹھے گی۔ پبلک اکائونٹ کمیٹی کے معاملے پر عمران خان کا امتحان ہے کہ وہ شیخ رشید کو سب کچھ ہائی جیک کرنے کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں یا تحریک انصاف کے سنجیدہ فکر قائدین کے مصالحانہ مشوروں پر عمل کرتے ہیں اور پارلیمنٹ کو چلنے دیتے ہیں۔ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ سیاسی شعور تاریخ کے مطالعے سے جبکہ حکمت ریاضت سے آتی ہے۔