یہ جسے ریاست پاکستان نے نشان امتیاز سے نوازا ہے اور جسے میں اپنا مرشد کہتا آیا ہوں اس مجید امجد کے ایک نظم کی چند سطریں مجھے جانے کیوں بار بار یاد آ رہی ہیں سنگین فیصلوں کے گنبد سے پہرے دار پکارتے ہیں کیا کرتا ہے دل ڈرتا ہے ان کالی اکیلی راتوں سے دل ڈرتا ہے۔ میں تو خیر ساری نظم ہی بار بار ان دنوں پڑھتا جاتا ہوں۔شاید یہی وجہ تھی کہ میں نے ابھی کل پرسوں ہی یہ کالم لکھا تھا کہ مجھے ڈرلگتا ہے اور مرے ڈر میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے کہ ہم بلا شبہ اہم ہوتے جا رہے ہیں۔پرویز مشرف کے سدھے(یا سدھائے) ہوئے بانکے وزیر ہمیں بتاتے ہیں کہ تمہیں پتا نہیں کہ ہم اہم ہوتے جا رہے ہیں۔جب وہ یہ کہتے ہیں تو میں مزید ڈر جاتا ہوں۔جب روسی فوجوں نے افغانستان کی زمین پر قدم رکھا تھا اور یہ بات ہمارے ایک نامی گرامی سفارت کار کو بتائی گئی تو اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا‘لو ہمارا مسئلہ تو حل ہو گیا۔اس میں اختلاف ہے کہ ہم نے اس وقت اس لمحے کا فائدہ اٹھایا یا ہمیشہ کی طرح خوش ہوتے رہے۔میں البتہ ان لوگوں میں سے ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ روس کے خلاف افغانیوں کی جنگ میں ہمارا ان کا ساتھ دینا بنتا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے یہ کام قدرے ذہانت سے کیا۔مگر جب کبھی صورت حال نائن الیون پر پیش آئی تو ہم نے امریکہ کا یوں ساتھ دیا کہ صدیوں تک تاریخ اس کا ماتم کرتی رہے گی۔مشرف کی طرح اس دور کے، چلو تربیت یافتہ کہہ لیجے‘وزیر اس طرح انا کی مچان پر چڑھ کر اس بات کا اعلان کرتے ہیں گویا کہہ رہے ہوں جنگل والو سن لو‘شیر نے درخت پر چڑھنے کا فن سیکھ لیا ہے۔ ڈرو اس وقت سے جب ہم اہم ہوتے جائیں اور ہمیں اپنی اس حیثیت کو بامعنی بنانے کا طریقہ نہ آتا ہو۔صاف کہوں تو مجھے پوچھنا ہے کیا ہم اب بھی امریکہ سے جان چھڑا سکتے ہیں جبکہ خطے میں امریکہ کے خلاف نہ سہی، امریکہ سے ہٹ کر ایک اتحاد بننے جا رہا ہے۔ہم بار بار چین کی دوستی کا دم بھرتے ہیں‘مگر امریکہ سے ڈرتے ہیں اور امریکہ کے خوف سے اپنی حکومتیں تک بدل دیتے ہیں۔اگر کسی کو غلط فہمی ہے کہ امریکہ اپنے کھربوں ڈالر ضائع کر دے گا تو وہ غلطی پر ہے۔اسے خطے سے کوئی امیدیں ہیں تو پاکستان سے ہیں یا وہ زیادہ سے ترکی اور قطر کی طرف دیکھ سکتا ہے۔اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ برطانوی وزیر خارجہ نے سب سے پہلے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔برطانوی وزرائے خارجہ ہمیشہ سے امریکی مفادات کا ہر اول دستہ ہوتے ہیں۔اگرچہ اس بار وہ بھی قدرے بھنائے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں امریکہ سپر پاور نہیں ہے۔بڑی طاقت تو ہو سکتا ہے مگر سپر پاور نہیں۔وگرنہ وہ بار بار اپنی بات سے پلٹ نہ جاتا۔سپر پاور ایسا نہیں کرتی۔درست ہے مگر ہم یوٹرن کے فوائد کے عاشق ہیں اور خوب قلابازیاں کھاتے ہیں۔خیر یہ تو الگ بحث ہے۔میں بتا رہا ہوں مجھے ڈر لگتا ہے۔وجہ یہ بھی بتائی کہ ہماری حکومت خود کو بانس پر چڑھائے بیٹھی ہے۔خیر صرف حکومت کا معاملہ نہیں ریاست کا معاملہ ہے۔کل ہی میںنے سی آئی اے کے سربراہ کی پاکستان آمد اور آرمی چیف سے ان کی ملاقات کا ذکر کیا تھا۔آج ہم نے خطے کے ممالک کے خفیہ اداروں کی میزبانی کی ہے۔ انہیں ایک کانفرنس میں اکٹھا کیا ہے۔چین ‘روس ‘ایران‘ تاجکستان‘ ازبکستان‘ قازقستان جیسے ممالک اس میں شریک ہیں ، یہ بڑی بات ہے اس لئے مجھے ڈر لگتا ہے۔کہتے ہیں ایسے مواقع پر آپ کا ہاضمہ درست ہونا چاہیے۔آپ میں اتنا ظرف ہونا چاہیے کہ آپ کے سر پر یہ اہمیت چڑھ کر آپ کا دماغ خراب نہ کر دے۔آپ کی آنکھوں میں ایسا نشہ نہ چڑھ جائے کہ آپ کو اچھے برے کی تمیز نہ رہے۔میں بار بار عرض کر چکا ہوں کہ ایک سکیورٹی ریاست ہونے کی وجہ سے امریکہ سے ہمارے تعلقات کی ایک خاص نوعیت رہی ہے۔ڈرلگتا ہے امریکہ دوبارہ ہمیں اپنے مقاصد کے لئے منتخب نہ کرے، اطمینان صرف اس بات کا ہے کہ ہمارے اقتصادی اور عسکری تقاضے اب وہ نہیں رہے جب کبھی ہوا کرتے تھے۔اس زمانے میں ہم نے دفاعی معاہدوں میں کھڑے ہونے کے باوجود ایسی راہیں نکالیں کہ ایک زمانے میں چین سے دوستی کے لئے امریکہ کو ہماری ضرورت پڑی اور ہم نے فی سبیل اللہ اس کار خیر میں اپنا کردار ادا کیا۔پھر کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے۔امریکہ کو پھر اس خطے میں ہماری ضرورت ہے۔ہم مغرب اور امریکہ کو خطے سے برطرف کرنا چاہتے ہیں نہ ان کی دشمنی مول لینا چاہتے ہیں۔شاید خطے کے ممالک بھی ایسا نہیں چاہتے اور تو اور کیا ایران نہیں چاہتا کہ اس کے امریکہ اور مغرب سے تعلقات نارمل ہوں۔اس میں خطے کی بہتری ہے اسی میں ہماری بھلائی ہے اور اسی میں افغانستان کا فائدہ ہے۔کوئی یہاں سرد جنگ کا آغاز نہیں چاہتا۔ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ چین ہمارا دوست ہے۔آج کا نہیں بہت پہلے کا۔ایسا دوست کہ 65ء کی جنگ میں بھی وہ ہمارے حق میں سب سے توانا آواز تھی ،ترکی اور ایران سے پہلے۔یاد ہے حبیب جالب نے کہا تھا: زندہ باد اے چین و انڈونیشیا دوستی کا حق ادا تم نے کیا اور وہ جن کے ساتھ ہم دفاعی معاہدوں میں شریک تھے‘انہوں نے ہمارے لئے اسلحے کی سپلائی بند کر دی تھی اور گویا یہ کہا تھا کہ ہم نے تو تمہیں اپنے دشمن روس کے خلاف استعمال کرنے کے لئے تیار کیا تھا‘تم یہ اپنے دشمن کے خلاف ہم سے پوچھے بغیر کیسے میدان جنگ میں اتر کھڑے ہوئے ہو۔امریکہ نے آج تک ہمیں عسکری معاملات میں ٹیکنالوجی منتقل نہیں کی۔یہ الگ بات کہ ہم نے ریورس انجینئرنگ سے بہت کچھ حاصل کیا جب کہ چین نے ہمیں دفاعی طور پر خودکفیل ہونے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔پھر بھی مجھے اندیشہ ہے کہ ہم امریکہ کے دبائو میں رہیں گے۔اصل بات دبائو نہیں ہوتا اسے برداشت کرنا ہوتا ہے۔کیا ہم امریکہ کا دبائو برداشت کر کے اپنے لئے راہ عمل نکال سکیں گے۔یہ میں حکومت پاکستان سے نہیں ریاست پاکستان سے مخاطب ہوں۔کیا ہم اپنے مفادات کا دفاع کر سکیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نہ صرف درست سمت کا تعین کریں بلکہ اپنا ہائوس ان کردار ادا کریں۔یہ لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ آج کل اس اصطلاح کا استعمال عام ہے۔ہم بکھرے ہوئے ہیں۔انتشار کا شکار ہیں‘سیاسی طور پر ہی نہیں‘ذہنی طور پر بھی۔ یکسو ہو جائیے‘یک سو! ’’خطے کی خدمات ہماری زیادہ ہیں‘ترکی تو نیٹو کارکن بھی ہے۔جغرافیائی اور تاریخی طور پر ہم وہاں کھڑے ہیں ،جہاں دوسرا کوئی نہیں ہے۔بس اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم درست سمت پر ہیں یا نہیں۔ضیاء الحق کے سفارت کار نے تو کہا تھا کہ ہمارا مسئلہ حل ہو گیا۔مگر ضیاء الحق نے اس کا انتظار نہ کیا اور آگ میں کودنے کا ازخود فیصلہ کر دیا۔تاریخ ایسے لوگوں کی مدد کرتی ہے ۔خدا نے اس آگ کو گل و گلزار نہ بھی کیا ہو توبھی اس کی تپش سلب کرلی۔ہم نے خطرناک کھیل کھیلا مگر اس میں قدرے سلامت گزرے‘آگے چل کر مگر پھنس گئے ۔جب ہم ایک ہی دھمکی سے ڈر گئے کہ ہم تمہیں پتھر کے زمانے میں پہنچا دیں گے۔ہمارے کمانڈو نے ہتھیار ڈالے تو نہیں مگر دشمن کی پناہ میں شامل ہو گیا۔تاریخ ایک بار پھر ہمارا امتحان لے رہی ہے۔