24 دسمبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج صاحب ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ملز ریفرنس میں سات سال قید اور پونے چار ارب روپے جرمانہ کی سزا دِی اور انہیں دس سال کے کسی عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار دے دِیا اور اِسی روز سپریم کورٹ نے ’’ میگا منی لانڈرنگ کیس‘‘ میں جے ۔ آئی۔ ٹی (Joint Investigation Team) کی رپورٹ پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رُکنی بنچ میں سپریم کورٹ نے سابق صدر ’’آصف علی زرداری گروپ، بحریہ ٹائون اور اومنی گروپ ‘‘ کی جائیدادوں کی خریدو فروخت اور انتقالی (Transfer) پر پابندی کا حکم دِیا ہے۔ ’’ جے ۔ آئی۔ ٹی‘‘ کی رپورٹ میں ’’آصف زرداری گروپ اور اومنی گروپ ‘‘ کو جعلی اکائونٹس سے مفادات حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دِیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’ زرداری گروپ نے سندھ بنک سے 24 ارب روپے قرض لئے، رشوت کی رقوم اکائونٹس میں آئیں ۔ آصف زرداری کے ذاتی اخراجات، کراچی اور لاہور کے ’’ بلاول ہائوسز‘‘ کی تعمیر جعلی بنک اکائونٹس میں گئے۔ بلاول ہائوس کے کھانوں ، یوٹیلٹی بلز ، کتّوں کی خوراک، بکروں ، بلاول بھٹو کے "Lunch" کا بوجھ بھی جعلی اکائونٹس نے اٹھایا‘‘۔ سپریم کورٹ نے آصف زرداری اور فریال تالپور سے 31 دسمبر تک نوٹسز جاری کر کے جوابات طلب کر لئے ہیں ۔ کیس کی سماعت کے دَوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’’ آصف زرداری اور بلاول کے گھروں کے اخراجات یہ کمپنیاں چلاتی رہی ہیں ۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہُوا ہے ۔ یہ وہ پاکستان نہیں جو پہلے تھا ۔ اومنی گروپ نے ایان علی ( ڈالر گرل) کو ادائیگیاں کیں۔ ’’اومنی گروپ ‘‘ کے مالکان کا غرور ختم نہیں ہُوا۔ وہ قوم کے اربوں روپے کھا کر بھی بدمعاؔشی کر رہے ہیں ‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ’’ جن لوگوں نے ملک کے اربوں روپے لوٹے انہیں معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔ ’’جے ۔ آئی۔ ٹی‘‘ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’’ میگا منی لانڈرنگ کیس‘‘ کی تحقیقات میں وزیراعلیٰ سندھ (سیّد مراد علی شاہ) نے تعاون نہیں کِیا۔ اُن کے خلاف بھی تحقیقات کی جائے۔ معزز قارئین!۔ ایسی صورت میں اگر آصف زرداری فریال تالپور اور بلاول بھٹو زرداری وغیرہ کا احتساب ہوسکتا ہے تو وزیراعلیٰ سندھ کا کیوں نہیں؟ لیکن، اصل معاملہ تو ’’دامادِ بھٹو‘‘ (آصف زرداری ) اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور اور ’’ نواسۂ بھٹو‘‘ (بلاول بھٹو زرداری) کے سیاسی مستقبل کاہے ۔ کئی دِنوں سے جنابِ آصف زرداری عوامی جلسوں اور سماجی تقاریب میں اپنے دونوں ہاتھیوں کی انگلیوں کو چُومتے اور پرواز کرتا ہُوا بوسہ ( Flying Kiss) عوام ( حاضرین) کی طرف اچھالنے کی "Net Practice" کر رہے ہیں ۔ شاید جیالے انہیں داد دیتے ہُوں لیکن، درحقیقت زرداری اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں ۔ ممکن ہے اِسی لئے کئی دِنوں سے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی واحد زندہ اولاد، اُن کی 62\61 سالہ بیٹی صنم بھٹو کو ( جنابِ زرداری کی قیادت میں )فعال ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کا کوئی اہم عہدہ دینے کی خبریں عام ہیں ۔ اِس لئے کہ اگر ’’ آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور فریال تالپور کو ’’میگا منی لانڈرنگ کیس‘‘ سزائیں ہو جائیں تو صنم بھٹو صاحبہ کو پارٹی کی چیئرپرسن بنا کر عوامی جلسوں میں ’’ نعرہ بھٹو ، جئے بھٹو‘‘ کا نعرہ لگا کر ’’ عوام کی خدمت‘‘ کا سامان کِیا جاتا رہے؟۔ صنم بھٹو صاحبہ نے "Harvard University" کی فارغ اُلتحصیل ہونے کے باوجود ، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد بھی اپنے والد صاحب اور بڑی بہن کی سیاسی وراثت کا کبھی دعویٰ نہیں کِیا اور نہ ہی جنابِ آصف زرداری نے انہیں اِس طرح کی دعوت دِی، پھر جنابِ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی وراثت کو بدترین حالات سے نکالنے میں صنم بھٹو کیا کر سکیں گی؟ ۔ یاد رہے کہ جنابِ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پارٹی میں تو کبھی انتخابات ہی نہیں ہُوئے۔ جنابِ بھٹو نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش کے مقدمے میں گرفتار ہونے سے پہلے اپنی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن نامزد کرگئے تھے۔ بیگم نصرت بھٹو نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی ’’ شریک چیئرپرسن‘‘ نامزد کردِیا تھا ۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور (دسمبر 1993ئ) میں شریک چیئرپرسن وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ’’پارٹی کے نامزد ارکانِ سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی‘‘ کا اجلاس طلب کرکے اپنی والدۂ محترمہ کو چیئرپرسن شِپ سے برطرف کر کے خود چیئرپرسن بن گئی تھیں ۔ اِس اجلاس کی چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دِی گئی تھی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب تک حیات رہیں ، اُنہوں نے اپنے ’’شوہر نامدار ‘‘ (آصف علی زرداری) کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہُوا تو آصف زرداری صاحب نے اُن کی مُبینہ ،برآؔمدہ وصیت کے مطابق اپنے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری کو بھٹوؔ کا خطاب دے کر اُنہیں ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ (پی۔ پی۔ پی) کا چیئرمین نامزد کردِیا اور موصوف خُود پارٹی کے شریک چیئرپرسن بن گئے لیکن، 2008ء کے عام انتخابات میں مخدوم امین فہیم اور راجا پرویز اشرف کی چیئرمین شِپ اور سیکرٹری جنرل شِپ میں 2002ء سے قائم پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) نے انتخابات میں حصہ لِیا۔ اِس لئے کہ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی چیئرمین شِپ میں جو’’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی) 30 نومبر 1967ء کو لاہور میں قائم ہُوئی تھی، وہ تو الیکشن کمیشن پاکستان کے پاس رجسٹرڈ ہی نہیں تھی؟۔ ’’مقتدر قوتوں ‘‘ کی نوازش سے ’’نان گریجوایٹ ‘‘ آصف علی زرداری 9 ستمبر 2008ء کو صدرِ پاکستان منتخب ہُوئے ۔ اُن کے دَور میں جنابِ بھٹو کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کو الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ نہیں کرایا گیا تھا اور نہ ہی 2013ء کے عام انتخابات میں ۔جولائی 2018ء کے انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس انتخابی نشان تیر (Arrow) والی آصف علی زرداری صاحب کی صدارت میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘( پی ۔ پی۔ پی۔ پی) اور انتخابی نشان تلوار (Sword) والی جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی یادگار ، بلاول بھٹو زرداری کی چیئرمین شِپ میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ ( پی۔ پی۔ پی) دونوں رجسٹرڈ تھیں۔ جنابِ آصف زرداری کی ’’سیاسی منصوبہ بندی ‘‘ تھی کہ 2018ء کے عام انتخابات میں اُن کی صدارت میں سرگرم عمل (پی۔ پی۔ پی۔ پی) ہی نے عام انتخابات میں حصہ لِیا۔ چنانچہ اب جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی یادگار ’’ نواسۂ بھٹو‘‘ (بلاول زرداری بھٹو) کی پارٹی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے باہر ہے ؟۔سوال یہ ہے کہ ’’ کیا مرحومین بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی بیٹی صنم بھٹو کو جنابِ آصف زرداری کی ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کی چیئرمین شِپ عطا کر کے ’’ بھٹو اِزم‘‘ کا نیا دَور شروع کِیا جائے گا۔ معزز قارئین!۔ صنم بھٹو کی شادی (1940ء کے ) دیوان آف ریاست جُونا گڑھ کے بیٹے ناصر حسین کے ساتھ ہُوئی تھی ۔ پھر 30 جولائی 2003ء کو طلاق ہوگئی ۔ صنم بھٹو ، اُن کا ایک بیٹا شاہ مِیر حسین اور بیٹی آزادے ( Azadeh) حسین لندن میں رہتے ہیں ۔ 28 جون 2018ء کو سوشل میڈیا پر لندن میں آزادے حسین کی شادی کے بارے میں خبر شائع ہُوئی تھی ،جس کا عنوان تھا "Bold and Beautiful Azadeh Hussain,Finally Tied the Knot" ۔ اِس سے قبل 19 نومبر 2017ء کو سوشل میڈیا کے حوالے سے ضیاء شاہد صاحب کے روزنامہ ’’ خبریں ‘‘ میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہُوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ آزادے حسین اِن دِنوں "Hollywood" میں خبروںکا مرکز بنی ہُوئی ہیں۔ 2008ء میں فلم "Crusty" اور 2012ء میں "Offender"میں شہرت پانے والی آزادے حسین کی آنے والی اپنی مختصر فلم "Rainy Vizcaya" میں سنجیدہ کردار ادا کر رہی ہیں ۔ معزز قارئین!۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے مطابق صنم بھٹو نے کراچی پہنچ کر ، اپنے بھانجے بلاول بھٹو اور ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کے دوسرے لیڈروں سے ملاقات کی ہے ۔ اِس مشن پر کہ’’ وہ ، پارٹی کی چیئرپرسن شِپ سنبھال کر ، اپنے بہنوئی آصف زرداری اور بھانجے بلاول بھٹو کی پارٹی کے لئے کیا کریں؟‘‘۔