گردش میں ہم رہے ہیں تو اپنا قصور کیا تونے ہمیں کشش سے نکلنے نہیں دیا اے ماہتاب حسن ہمارا کمال دیکھ تجھ کو کسی بھی رنگ میں ڈھلنے نہیں دیا یہ اشعار میں نے نیب کی طرف سے لکھے ہیں کہ کچھ اس طرح کا حسن سلوک اپنے مطلوبہ لوگوں کے لئے وہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی ان کے حضور پیش ہوتا ہے۔ آئے دن کسی کا نام ای سی ایل میں ڈالا جاتا ہے اور کسی کا نکالا جاتا ہے اب اگلہ مرحلہ اور بھی دلچسپ ہے کہ بات خاندانوں تک آن پہنچی ہے۔ اب شہباز شریف کی اہلیہ اور بیٹیاں بھی نیب نے طلب کر لی ہیں۔ ہم تو سمجھے تھے کہ بات حمزہ تک رہے گی مگر بات تو دور تک جاتی نظر آ رہی ہے۔ اخبار پڑھنے والے روز ایک ہی طرح کی خبریں پڑھ پڑھ کر تھک گئے تھے کہ شاید حکومت کو ایک ہی کام ہے کہ شریف فیملی کو کیسے انگیج رکھنا ہے اور زرداریوں کو کیسے الجھانا ہے۔ کبھی ایک کو امید دلائی جاتی ہے تو کبھی دوسرے کو تھوڑا سا ریلیف دے دیا جاتا ہے۔’’اک معمہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘‘ یہ بھی بات کسی حد تک ہے کہ نیب سے صرف اپوزیشن ہی نہیں حکومت بھی تنگ ہے’’مسئلہ یہ ہے کہ ہر چیز کا حاصل حصول دیکھا جاتا ہے‘ وہ تو صفر ہے۔ حکومتی ارکان اپنی جگہ خود ساختہ دلائل دیتے ہیں کہ سب کچھ اچھائی کی طرف جا رہا ہے ۔ اسد عمر ارشاد فرماتے ہیں کہ ڈیڑھ سال میں معیشت ٹھیک ہو جائے گی۔ سو دن پھر چھ ماہ اور اب ایک سال چھ ماہ۔ باقی کے سال بھی گزر جائیں گے۔ پھر یہ احسن اقبال کی طرح 2030ء کا پروگرام دیا کریں گے۔ شیخ رشید فرماتے ہیں کہ اگر گوشت مہنگا ہو گیا تو کونسی قیامت آ گئی۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں انہوں نے کون سا اپنی جیب سے کھانا ہے۔ اے ٹی ایمز ان کے پاس ہیں’’رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ‘‘ جن محکموں کی ترقی کا وہ بتاتے ہیں تو سننے والے پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔ ہنسے بھی انسان تب کہ جھوٹ قابل برداشت: پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی اب چیف جسٹس صاحب کی بات ہی سن لیں جو فرما رہے ہیں کہ بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں نہیں۔ یہ ایک الگ بات کہ ججوں کی تعداد پوری نہیں۔ گزشتہ سال 34لاکھ مقدمات نمٹائے۔ یہ بھی درست کہ جتنا کام ہمارے جج کرتے ہیں پوری دنیا میں نہیں کرتے۔ ایف ڈرین کا حالیہ مقدمہ جس میں حنیف عباسی کی رہائی کا فیصلہ کیا گیا لوگ باتیں کر رہے ہیں۔ ویسے یہ بات تو عالمی سچائی ہے کہ قانون غریب آدمی کے لئے پھندا ہے اور طاقتور کے لئے مکڑی کا جالا۔ عدلیہ نے نیک نامی زیادہ کمائی ہے کہ بڑوں کو ہاتھ ڈالا ہے۔ ایک انچ کی کسر یہ رہ گئی کہ کئی بڑے ابھی باقی ہیں۔ ویسے تو نواز شریف کے ساتھ کئی لوگ تھے جو پانامہ آف شورکمپنیز میں تھے۔ مگرنواز شریف پکڑے گئے تو باقی مقابلتاً چھوٹے لگنے لگے۔ سراج الحق آج تک چیخ رہے ہیں کہ باقی کا کیا بنا۔ باقی کا کیا بننا تھا۔ جھگڑا تو کمبل کا تھا۔ بات یہ ہے کہ ’’ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے‘‘ بات تب بنے گی آپ غریب کو ریلیف کیا دیتے ہیں اب بھی انہیں ریلیف ملتا ہے جو ان کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ اچھے موسموں کی آس میں سارے موسم بے ذائقہ ہو گئے۔ ایک زخم لگتا ہے تو اس سے بڑا زخم لگا کر پہلے کو بے وقعت یا قابل برداشت بنا دیا جاتا ہے۔ حکومت اپنی مجبوری بتاتی ہے کہ قرض واپس کرنا ہے اور لینا بھی ہے۔ سب کچھ جاننے والوں کے سر پر ڈال دیا جاتا ہے اور یہی ہوتا آیا ہے: سب لوگ مطمئن ہیں فقط اتنی بات پر مجرم یہ مانتا ہے وہ حق پر نہیں رہا ادھر امام کعبہ فرماتے ہیں کہ موجودہ حالات میں علماء کا کردار بہت اہم ہے۔ وہ جو بھی فتویٰ دیں وہ حق پر مبنی ہونا چاہیے۔ علماء کے حوالے سے تو اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے اپنے مسالک سے نکل کر ایک امت کا روپ اختیار کرلیں۔ اگر وہ اکٹھے ہو جائیں تو عوام بھی ایک ہو جائیں۔ ایک وقت تھا جب وہ قومی اتحاد کے نام پر ایک ہوئے تھے تو لوگوں کا ایک سمندر ان کے پیچھے تھا مگر پھر سب کے اپنے اپنے مفادات انہیں لے بیٹھے کہ آخر ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد کا محاورہ بے معنی تو نہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومتی پارٹی اور اپوزیشن جماعتیں‘ سب اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں کسی نے سب کو معلق رکھا ہوا ہے: کسی کردار کو چلنے نہیں دیتا آگے ایک کردار کہانی میں جو شامل بھی نہیں مگر کہانی تو وہی لکھتا ہے۔ کسی کردار کو کہاں جا کر مارنا ہے اسے علم ہے۔ عوام کا مگر اس کھیل میں کوئی کردار نہیں۔ ریکوری تو کسی سے کچھ نہیں ہوتی۔ سندھ ہی کا معاملہ لے لیں۔ کتنے کردار ہیں جن پر اربوں روپے کی کرپشن ہے۔ ایک لمحے کو لگتا ہے کہ اب سب پکڑے جائیں گے۔ مگر پھر سندھ کارڈ نظر آنے لگتا ہے۔ زرداری ہی نے پورے سندھ کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اب بلاول کے کارڈ کے بعدوہ فاطمہ کو ترپ کا پتہ بنانے کو ہے۔ سندھ ان کے ہاتھ سے گیا تو پھر سب کچھ گیا۔ اٹھارویں ترمیم میں ان کی جان بلکہ جہان ہے۔ ن لیگ اور پی پی نے مل کر اپنا حصہ محفوظ کیا تھا۔ اس حوالے سے آپ سید ارشاد احمد عارف کا کالم پڑھ لیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ایک شعر کے ساتھ اجازت: کیا کرے وہ نیند جس کی اڑ گئی کیا کرے جس کا سہارا خواب ہے