کورونا نے جہاں عالمی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا، وہیں اس وائرس نے دنیا بھر میں تعلیم کے شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔وطن ِ عزیز میں بھی فروری کے مہینے میں پہلا کورونا کیس منظر عام پر آنے کے بعد مارچ میں کورونا کے پھیلائو روکنے کے لیے ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے اور کورونا کے ڈر سے تعلیمی ادارے تقریباً چھ ماہ سے زیادہ عرصے تک بندش کا شکار رہے۔ اس دوران بعض تعلیمی اداروں نے آن لائن تعلیم دینے کی اپنی کوشش کی،لیکن یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ اس آن لائن تعلیمی نظام سے ملک کے دْور دراز کے علاقوں ، خاص طور پر پسماندہ علاقوں کے طلبا و طالبات مستفید نہ ہو سکے۔ اب، کورونا کی دوسری لہر کے پھیلائو کے باعث ایک مرتبہ پھر ملک بھر کے تعلیمی ادارے کل(26) نومبر سے بند کیے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ 25 دسمبر تک آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا اورجن علاقوں میں آن لائن کلاسز سے تعلیم دینا ممکن نہیں، ان علاقوں کے سکولز کے طلباو طالبات کو ہوم ورک دیا جائے گا اور اسی ہوم ورک کی بنیاد پر چھوٹی کلاسز کے طلبا و طالبات کو اگلی کلاسز میں پروموٹ کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے،جبکہ 25 دسمبر سے 10 جنوری تک موسم سرما کی چھٹیاں ہوں گی۔ یوں ایک مرتبہ پھر والدین تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں اور ان کی پریشانی بنتی بھی ہے۔ ان کی یہ پریشانی دو طرح سے ہے؛ پہلی یہ کہ کورونا کے ڈر سے انہیں اپنے بچوں کو سکول ، کالج، یونی ورسٹی بھیجنے سے ڈر بھی لگتا ہے، دوسری یہ کہ بچوں کو گھر بٹھا کر فیس ادا کرنا بھی مشکل ہے، کیونکہ تعلیمی اداروں میں فیس تو پورا سال ادا کرنا پڑتی ہے۔ لاک ڈائون ہے یا نہیں؟ ان کی بلا سے، لیکن سکول والے بھی کیا کریں؟ان کو فیس نہیں ملے گی، تو وہ ٹیچرز کو تنخواہیں کہاں سے دیں گے اور اپنے گھروں کے اخراجات کیسے چلائیں گے؟ تو بھئی مشکل تو ہے! تعلیمی اداروں کی بندش سے پہلے ہی ہر سطح کے طالبعلموں کا جو نقصان ہو چکا، اس کا ازالہ ابھی نہیں ہوا تھا کہ وسط ستمبر سے مرحلہ وار کھلنے والے تعلیمی ادارے دوبارہ بند ہونے سے طلبا کو جو نقصان ہو گا ،اس کو کیسے پورا کیا جائے گا؟ اس حوالے سے حکومت کو ضرور سوچنا چاہیے اور تعلیمی سال اور دورانیے کو مد نظر رکھ کر مزید فیصلے کرنے چاہیے۔اب ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اس کورونا کی وجہ سے نقصان صرف تعلیم کا ہوا ہے ؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا پہلے گھر گھر تعلیم بچوں کو مل رہی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی شرح خواندگی ابھی تک 58 فیصد سے نہیں بڑھ سکی۔پنجاب کی شرح خواندگی دیگر صوبوں کی نسبت قدرے بہتر ہے۔ہم تو ابھی تک اس تعلیمی انقلاب کا بھی انتظار کر رہے ہیں، جس کا خواب ہمیں، ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے دکھایا ہے۔ ذرا سوچیں! آج ہمیں ڈگریوں کی تعلیم کی زیادہ ضرورت ہے یا اس مثبت شعوری و ذہنی تعلیم کی، جس سے ہمارا معاشرہ بالکل خالی نظر آتا ہے۔آج جو جلسوں میں تما م سیاست دان لمبی چوڑی تقریریں کر رہے ہیں، کیا یہ تعلیم یافتہ نہیں ؟ کیا بلاول بھٹو کے پاس آکسفورڈ یونی ورسٹی کی ڈگری نہیں؟ کیا مولانا فضل الرحمان کے پاس دینی و دنیاوی تعلیم نہیں؟ کیا مریم نواز ان پڑھ ہیں؟یا حکومت کے وہ لوگ جنھوں نے بڑے بڑے جلسے کیے، یہ ان پڑھ ہیں؟ نہیں! یہ سب لوگ پڑھے لکھے اور ڈگری یافتہ ہیں، لیکن افسوس! اس کے باوجود ان کے پاس اس شعور کی کمی ہے، جو انھیں یہ بتائے کہ ان کی سیاست لاکھوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہی ہے۔بختاور بھٹو کی منگنی کی رسم میں شرکت کے لیے تو مہمانوں کے لیے یہ شرط رکھ دی جاتی ہے کہ وہ کورونا کا ٹیسٹ کروا کر آئیں۔ مطلب! اس کورونا کو بھی آپ نظریہ ضرورت کے تحت استعمال کر رہے ہیں۔ واہ! کیا بات ہے آپ کی! اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی اداروں کی دوبارہ بندش سے طلبا کا تعلیمی ہرج ہو گا۔دوسری طرف اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین اپنے بچوں سے بے جا اور ان کی اہلیت وصلاحیت سے زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو اپنی مرضی کی تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔ ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کابیٹا یا بیٹی ڈاکٹر بنے یا انجینئر بنے، جبکہ بچے کارجحان آرٹس اور فنون لطیفہ کی طرف ہوتا ہے، مگر والدین بضد ہوتے ہیں کہ تم نے ڈاکٹر بننا ہے یا انجینئر بننا ہے اور اس کے لیے وہ اسے بائیولوجی یا کیمسٹری جیسے مضامین پڑھنے کے لیے زبردستی قائل کرتے ہیں۔ اب، ماں باپ کے اصرار پر ان کے بچے بہ امر مجبوری میڈیکل یا انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنا تو شروع کر دیتے ہیں، لیکن ان مضامین میں دلچسپی نہ ہونے کے باعث اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ فائنل امتحان میں ناکام ہوجا تے ہیں اور یوں ان کے اندر ایک احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے۔ اکثر اچھے خاصے ذہین طالبعلموں کے تعلیمی کیرئیر والدین کی ایسی خواہشات کی بھینٹ چڑھ کر تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تعلیم کا مقصد ڈاکٹر، انجینئر یا بڑا افسر بننا ہی ہے؟ یا پھر تعلیم کا اصل مقصد اچھا انسان بننا ہے؟ معاشرے میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک بہت پڑھا لکھا انسان جاہلوں جیسی ضد اور انا کا شکار ہوتا ہے اور دوسری طرف ایک ان پڑھ کئی پڑھے لکھوں کی نسبت بہت اچھے اخلاق کا مالک اور ہر دلعزیز ہوتا ہے۔ آخر میں سب والدین سے گذارش ہے کہ آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ اس عرصے میں آپ اپنے بچے کی ذہنی و اخلاقی تربیت ضرور کریں۔انھیں یہ ضرور بتائیں کہ ڈگری آپ کو اچھی نوکری تو ضرور دلا سکتی ہے، لیکن اچھا انسان آپ کو صرف اور صرف آپ کی اچھی سوچ بنا سکتی ہے۔انسان اچھا انسان دوسرا کا احساس کرنے سے بنتا ہے۔کہتے ہیں کہ دیر سے پہنچنا، کبھی نہ پہنچنے سے بہتر ہے، لہذا ڈگری اگر چھ مہینے اور دیر(تاخیر) سے مل جائے، تویہ اس سے بہت بہتر ہے کہ ڈگری ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی آپ انسانیت کو نہ سمجھ سکیں، لہذا اس وقت کو قدرت کی طرف سے موقع سمجھ کر اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں، جس کاہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ نے حکم دیا ہے۔