سید انشا اللہ خاں ایک باکمال شاعر‘ بذلہ سنج اور رونق بزم شخصیت تھے۔یہ شعر انہی کا ہے۔ کہانی جو سنائی ایک ہیر رانجھا کی تو اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا ادبی محاسن اپنی جگہ سننے والوں کو ایسے قصے اور چٹکلے سناتے کہ محفل میں سب کی لو ان کے سامنے مدھم پڑ جاتی۔ ایک بار نواب کو ان کی ایک بات بری لگی اس نے سید انشا کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ہر روز ایک نیا چٹکلہ یا دلچسپ واقعہ سنایا کریں گے۔ دوسرے ماہ کے وسط تک حالت یہ ہو گئی کہ دوستوں اور ملنے والوں سے پوچھتے کہ کوئی چٹکلہ یا نیا واقعہ ان کے علم میں ہو تو بتائیں۔ تیسرے ماہ یہ باکمال شاعر اور بذلہ سنج شخصیت دیوانوں کی طرح نئے چٹکلے ڈھونڈتے نظر آیا۔ نواب نے ناغے کی صورت میں گردن کاٹنے کا حکم دے رکھا تھا۔ یہ جبر سید انشا کی باغ و بہار شخصیت کو گرہن لگا گیا۔انشاء کی ذہانت اور جدت پسندی انہیں اپنے ہم عصروں میں ہی منفرد نہیں بلکہ تاریخ ادب میں بھی ممتاز مقام دلاتی ہے۔ غزل،ریختی، قصیدہ اور بے نقط مثنوی اوراردو میں بے نقط دیوان رانی کیتکی کی کہانی جس میں عربی فارسی کا ایک لفظ نہ آنے دیا۔ یہی نہیں بلکہ انشاء پہلے ہندوستانی ہیں جنہوں نے دریائے لطافت کے نام سے زبان و بیان کے قواعد پرروشنی ڈالی۔ انشاء نے 1817ء میں لکھنؤ میں وفات پائی۔ کالم نگار کا روزگار لکھنے سے وابستہ ہے۔ ادیب کے پاس آزادی ہوتی ہے کہ ایک جملے کی تخلیقی تعمیر کے لئے چاہے ایک سال لگا دے۔ کالم نگار کو یہ رعایت میسر نہیں اس لئے لفظوں کا جو بھنڈار سامنے ہوتا ہے اس سے اپنے خیال کا ابلاغ کرتا ہے۔ حالات حاضرہ پرچند لکھنے والوں کا اسلوب مثالی رہا ہے۔تین چار ایسے بزرگ ہیں جنہوں نے اس میں عجب رنگ بھرے ہیں۔ یہ فاضل اور بڑے لوگ ہیں۔ ملک کے پندرہ بڑے اخبارات میں ہر روز مجموعی طور پر چھپنے والے 80کے قریب کالم نگار اور تجزیہ کار ۔ وہ کیا لکھیں‘ کیسے لکھیں اور کس کے لئے لکھیں یہ بنیادی سوال ہے۔رواں اور دلچسپ نثر لکھنے والے بہت مل جائیں گے‘ نئی اور منفرد بات کہنے والے اور ابلاغیاتی طاقت کے حامل لفظ استعمال کرنے والے ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ کئی برس سے تحریر کی مرمت ، رنگ و روغن کا کام کر رہا ہوں لہٰذا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عامیانہ تحریروں نے اخبارات کے قاری کا ذوق سستا اور غیر معیاری بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے‘ لوگوں کو تصویر کے ساتھ تحریر شائع کرانے میں دلچسپی ہوتی ہے‘ تحریری مواد کا معیار اور ابلاغ کردہ خیال کی صحت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ عہد حاضر میں کالم نگار سیاسی بروکر کا کردار ادا کر رہاہے۔ سیاسی جماعتوں نے بہت سے لوگ معاوضے پر رکھے ہیں۔ یہ کچھ بھی لکھیں‘ ان کے لکھے کو ان کی جماعت ٹی وی شوز اور بیانات میں زیر بحث لا کر اپنے حامیوں کی ساکھ اور مقبولیت بڑھاتی ہے۔ اس چلن کا ایک نقصان یہ ہوا کہ آزادانہ سوچ کے تحت لکھنے والے بے قدری کا شکار ہوئے۔بہت سے اعلیٰ لکھنے والے گھر بیٹھے ہیں اور لابیوں کے لوگ نمایاں جگہ پا رہے ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ لکھنے والا طبقہ تیزی سے سطحیت کا غلام ہو رہا ہے۔ بلاول نے کیا کہا‘ مریم نواز کو نزلہ ہو گیا۔ فلاں نے اچھے کپڑے پہنے‘ فلاں نے فلاں کے خلاف بات کر دی۔ یہ وہ خبریں ہیں جن پر کالم لکھے جاتے اور ٹی وی شوز کئے جاتے ہیں۔ عوام بھی اسی کو سیاست سمجھنے لگے ہیں‘ وہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا کا یہی کام ہے‘ خود میڈیا کے لوگ پروفیشنل ازم کو اسی تناظر میں دیکھنے لگے ہیں۔ پاکستان میں غربت بڑھ رہی ہے تو کیا اکا دکا کالم نگاروں یا ایک آدھ اینکر کو چھوڑ کر کسی نے اس پر مسلسل آواز اٹھائی‘ قومی پالیسیوں کا تجزیہ کیا گیا‘ موجود وسائل کے استعمال کی منصوبہ بندی ہوئی؟ ایک ایسے ادارے میں کام کرنے کا موقع ملا جہاں وسائل موجود ہونے کے باوجود بدانتظامی اور غلط فیصلے ادارے کا نقصان کر رہے تھے۔ میں نے ایک سینئر سے کہا کہ وہ مالکان کی رہنمائی کیوں نہیں کرتے‘ ان کا جواب بڑا حکمت سے بھرا تھا۔کہا: مجھے حکم ماننے کی تنخواہ ملتی ہے‘ دماغ استعمال کرنے کی نہیں۔ ایک بڑی جماعت کے رہنما ہیں‘ اکثر ملاقات رہی‘ پھر میرا دل بھر گیا۔ وہ ہر ملاقات یا ٹیلی فون کال پر ایسی خبریں سننا چاہتے ہیں جو ان کے مخالفین کے خلاف استعمال ہو سکیں۔مجھے میاں نواز شریف کی سیاست سے اختلاف رہا ہے۔1999ء میں جب وہ گرفتار ہوئے تو ان کو چکلالہ ریسٹ ہائوس میں نظر بند کر دیا گیا۔ اس وقت ان کو حراست میں لینے والوں نے مجھے بتایا کہ نواز شریف کے بیڈ روم سے کس طرح کے رسالے‘ ادویات اور فلمیں ملی ہیں‘ ان کے واٹر بیڈ کی کہانی بھی سنائی۔ میں نے ان معلومات کو سیاسی رہنما کی کردار کشی کے مترادف سمجھا اور خاموش رہا‘ چند روز بعد ایک بڑے اخبار کے سینئر رپورٹر نے یہ کہانیاں لکھنی شروع کیں۔ یہی حضرت بعد میں اعلیٰ درجے کی خوشامد کے باعث شریف خاندان کے سب سے زیادہ منظور نظر قرار پائے۔ انہوں نے بنی گالہ کی زمین کو بھی آسمان ثابت کرنے کی کوشش کی مگر تاحال انیں کامیابی نہیں مل سکی۔ تبدیلی لاکھوں افراد جمع کرنے والوں سے نہیں آتی۔ یہ کونپل ہمیشہ اکیلی پھوٹتی ہے‘ پھر ایسی چند کلیاں چٹکتی ہیں اور سارا آنگن معطر ہو جاتا ہے۔ ہوا کے مخالف چلنے سے غیر مقبول رہنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ لیکن مقصدیت اس خدشے کی دیوار گرا دیتی ہے۔ دوست کہتے ہیں کہ سیاست پر لکھو۔ میں کہتا ہوں جب سیاست ہو گی تو لکھوں گا۔ کیا کہیں سیاست ہو رہی ہے؟