امت مسلمہ کی عمر کا اندازہ لگانا اور قرب قیامت کی علامتوں اور دور فتن کی دستک کے بارے میں علم حاصل کرنا مسلمان امت کے علماء کی روایت رہی ہے۔ ان کی تمام جستجو اور علم قرآن پاک کی آیات اور سید الانبیاء ؐکی احادیث کے دائرے میں گھومتا ہے۔ یوں تو ان چودہ سو برسوں میں لاتعداد بندگان خدا، اولیائ، اصفیاء اور اصحاب سیر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے ایسے مکاشفات ،الہام اور خواب بیان کئے ہیں جن میں اس دورِ آخر کے بارے میں اشارے ملتے ہیں۔ لیکن اس تمام علم پر عائد دو پابندیاں بہت واضح ہیں اور ان پابندیوں کے بغیر یہ علم دین اسلام کی حدود سے باہر نکل جاتا ہے۔ ایک یہ کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے، وہی جانتا ہے کہ کب، کیا ، کہاں، کیسے اور کیوں ظہور پذیر ہو گا،دوسری پابندی یہ کہ ہمارا تو ایک اندازہ ہے اور یہ اندازہ بھی آیات قرآنی اور احادیث نبوی کی روشنی میں متعین ہو گا۔ انہی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس علم کے ماہرین نے اس صدی کے آئندہ آنے والے ساٹھ برسوں کو بہت اہم قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ احادیث میں بیان کردہ ، قرب قیامت کی وہ تمام چھوٹی چھوٹی علامتیں تقریبا ظاہر ہو چکی ہیں :جیسے ننگے پاؤں چلنے والوں کا بڑی عمارتوں کی تعمیر پر فخر کرنا، لباس پہنے مگر ننگی عورتوں کا ظہور، سابقہ امتوں کی روش پر چلنا، قوم کے سب سے گھٹیا انسان کا بڑا بن جانا، انسان کے شر سے بچنے کے لئے اس کی عزت کرنا، مساجد میں نقش و نگار اور ان کی بناوٹ پر فخر کرنا، عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ تجارت میں شریک ہونا، صرف خاص لوگوں کو سلام کرنا، امین کو خائن اور خائن کو امین بنانا، قتل و غارت کی کثرت، اچانک موت کا بڑھ جانا، لوگوں میں موٹاپے کی کثرت، بازاروں کا قریب قریب ہو جانا، فحاشی کا ظہور اور علانیہ ارتکاب، شریف لوگوں کی ہلاکت اور گھٹیا لوگوں کا غلبہ، عورتوں کی کثرت اور اقوام عالم کا مسلمانوں پر ٹوٹ پڑنا وغیرہ یہ تمام اور ایسی کئی سو علامات کے بارے میں رسول اکرم ﷺنے بیان فرمایا ہے اور یہ علامات آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ منکرین حدیث عموما ان علامتوں کو بھی معاشرتی ترقی کا ایک اندازہ قرار دیتے رہے ہیں اور اسے رسول اکرم ؐکے بعد میں آنے والوں کا شاعرانہ تخیل بتاتے ہیں۔ لیکن انہی علامتوں میں سے ان سے کوئی اس حدیث کے بارے میں سوال کرے کہ ’’عرب کے ننگے پاؤں پھرنے والے چرواہے آسمانوں کو چھوتی ہوئی عمارتوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے‘‘ اور پوچھے کہ کیا چودہ سو سال پہلے کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ تہذیب سے کٹے ہوئے اس خطے میں اچانک تیل نکل آئے گا، دولت برسنے لگے گی اور پھر 160 یا 170 منزلہ عمارتوں میں مقابلہ ہوگا توان کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ ایسا ہی ہر اس حدیث نبویؐ کے بارے میں ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک واضح سچ کی طرح روشن ہوتی جا رہی ہیں۔ ان تمام چھوٹی علامتوں کے بعد اب یوں لگتا ہے کہ ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جس میں قیامت سے پہلے بڑے بڑے فتنے ظاہر ہوں گے اور ایک آخری بڑی عالمی جنگ ’’ ملحمۃ الکبریٰ‘‘ وقوع پذیر ہو گی جس کی وجہ سے دنیا کا بیشتر حصہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور دنیا سمٹ کر واپس انہی علاقوں تک محدود ہوجائے گی جہاں سے ابراہیمی مذاہب کے سر چشمے پھوٹے تھے۔ احادیث میں جن علاقوں میں اور جس طرح جنگوں کے آغاز کا ذکر ہے، وہاں گزشتہ بیس سالوں سے آہستہ آہستہ سلگتی آگ کی طرح جنگ اب بڑے بڑے شعلوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یمن، شام، عراق، افغانستان اور مصرو عرب، یہی تو میدان جنگ ہے جہاں آخری معرکہ برپا ہوگا۔ اسی علاقے میں اہل روم کی افواج 80 ممالک کے جھنڈوں تلے جمع ہونگی، اور ہر جھنڈے تلے بارہ ہزار سپاہی ہوں گے، یعنی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوجی اہل عرب سے لڑنے آئیں گے۔ وابق اور اعماق کا وہ میدان جو شام کے شہر حلب اور ادلب کے نشیب میں ہے وہاں آج بھی قریبی شہر دیرالزورکا علاقہ ، فرات کے کناروں پر امریکی اور روسی افواج میں برابر تقسیم ہے۔ یوں تو ابھی ان علاقوں کی جنگ ملکوں، شخصی حکمرانوں اور نظریات کی جنگ نظر آ رہی ہے۔ عراق و شام میں مسلکی اختلاف کا معاملہ بھی ہے اور نسلی تعصب بھی کارفرما ہے، یمن میں سعودی عرب اور ایران اپنے اثر و نفوذ کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ان سب نے دنیا کی عالمی طاقتوں کو بھی اس جنگ میں ملوث کر لیا ہے۔ روس، چین اور امریکہ اس خطے میں موجود وسائل پر قبضے اور علاقے پر حکمرانی کی جنگ میں بری طرح مبتلا ہوچکے ہیں۔ افغانستان سے مصر تک کا علاقہ یوں تو مسلمانوں کا مسکن ہے لیکن یہاں موجود وسائل پر گزشتہ ایک صدی سے عالمی طاقتوں کا قبضہ ہے۔ یہاں حکمران بھی عوام سے لڑائی میں مصروف ہیں اور عوام بھی مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔ یہ خطہ کیا صرف وہاں کے رہنے والوں کے لیے اہم ہے؟ نہیں بلکہ یہ ان قابض عالمی قوتوں کے لیے زیادہ اہم ہو چکا ہے۔ چین کے اس خطے میں ابھرنے اور روس کے ایک بار پھر انگڑائی لینے کے بعد اب یہ میدان جنگ مکمل طور پر تپ چکا ہے۔ قرآن و حدیث پر مبنی پیشگوئیوں کو ایک طرف رکھ کر اگر دنیا کے سیاسی پنڈتوں اور فوجی و اقتصادی ماہرین کی آراء کو دیکھا جائے تو اس وقت دنیا کا ہر اخبار اور سنجیدہ میگزین اس طرح کے تجزیے پھر شائع کر رہا ہے کہ اگر 2019ء میں ایک بڑی جنگ شروع نہ ہوئی تو دنیا میں طاقت کا توازن امریکہ و یورپ کے ہاتھوں سے نکل کر روس و چین کی طرف مڑ جائے گا۔ یہ لوگ متفق ہیں کہ 2020 ء خلا اور زمین دونوں پر چینی بالادستی کے آغاز کا سال ہے۔ جب چین کے 35 سٹلائٹ سٹیشن اپنا ’’بیڈو‘‘ سسٹم نافذ کردیں گے اور پاکستان سے افریقی ساحلوں تک کے ممالک امریکی جی پی ایس (GPS) سے آزاد ہو جائیں گے۔ بالادستی کی دوڑ میں چین ایک قدم آگے چلا جائے گا اور روس اپنی عسکری قوت اس کے ساتھ ملا دے گا۔ ایسے میں شدید قسم کی جنگ ان خطوں میں ضروری ہے جو پیش قدمی کو روک سکے۔ رابرٹ فارلے "Robert Forlay" امریکی وار کالج کا پروفیسر ہے جو گذشتہ بیس برسوں سے آنے والی جنگوں کی ماہرانہ پیشگوئیاں کرتا رہا ہے۔ اس کے نزدیک پانچ مقامات ایسے ہیں جہاں کسی بھی وقت ایک ایسی جنگ چھڑ سکتی ہے جو عالمی جنگ کا روپ دھار لے۔ یہ پانچ مقامات چین کا جنوبی سمندر، یوکرین، شام و عراق، جزیرہ کوریا، کشمیر اور ایشائے کوچک ہیں۔ نک کارٹر (Nick Carter) جو برطانیہ کا انتہائی قابل احترام دفاعی ماہر سمجھا جاتا ہے، اس کے نزدیک یورپ 2019 ء میں جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس کے مطابق یوکرین اور شام دو ایسے سلگتے مقامات ہیں جہاں سے دنیا جنگ میں داخل ہوگئی۔ پورے یورپ کو روس کی فوجی قوت سے خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ لاتعداد ماہرین کے مطابق 2019ء سرد جنگ کے خاتمے اور واضح جنگ کے آغاز کا سال ہے اور وہ ان ہی پانچ مقامات کا تذکرہ کرتے ہیں جہاں سے جنگ کا آغاز ہوگا۔ ان فوجی ماہرین کے علاوہ وہ مشہور عام نجومی، ستارہ شناس اور مخفی علوم کے ماہر اس جنگ کی ایک ترتیب بتاتے ہیں۔ ایسکلڈ راسموسن (Eskilld Rasmussen) نے ان تمام ماہرین کی پیش گوئیوں کو اپنی کتاب "The 2018 Book" میں جمع کیا ہے۔ اس کتاب کے مطابق ، ستاروں، علم الاعداد اور دیگر مخفی علوم کے حساب سے 2019 ء کے درمیان میں جنگ شروع ہوجائے گی . روس اور چین اپنی طرف سے یورپ اور بھارت پر حملے سے آغاز کریں گے۔ اگست2019ء میں شروع ہونے والی یہ جنگ سات ماہ چلے گی جس میں ان خطوں کو بہت زیادہ نقصان ہوگا۔ ہر طرف تباہی پھیل جائے گی مگر اس سارے قضیے میں امریکہ صفحہ ہستی سے غائب ہو جائے گا۔ حدیث کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں ’’زمین ایک قدر لاشوں سے پٹ جائے گی کہ ایک پرندہ صاف جگہ ڈھونڈنے کے لیے پرواز کرے گا، نہیں ملے گی، آخر کار تھک ہار کر لاش پر ہی گر جائے گا‘‘ (مفہوم حدیث)۔ یوں تو یہ سب کے سب اندازے ہیں۔ مگر خبر سچ ہے کیونکہ یہ رسول اکرمﷺ نے بتائی ہے۔ اندازہ تو صرف وقت کا ہے لیکن اہل نظر تو 2019ء کا ہی اندازہ لگا رہے ہیں۔(ختم شد )