اروندکیجریوال جن کو دہلی کے انتخابات میںجیتنے کی توقع ظاہر کی جارہی تھی، انھوں نے اپنی انتخابی مہم کو ’’کام کی راج نیتی‘‘ پر مبنی رکھا۔ مجھے انٹرویو میں انھوں نے اپنی دلیل کو دوہرایا کہ عام آدمی پارٹی (عآپ) نے اپنی حکمرانی کے ریکارڈ پر ووٹ مانگے۔ اسکولس کو موضوع بنایا جن کی حالت پارٹی نے بدل دی ہے، برقی بلوں میں زبردست کٹوتی کو موضوع بنایا، عوامی نگہداشت صحت کی اپنی اسکیموں کو بھی انتخابی موضوع بنایا۔ انھوں نے کہا کہ یہی ’’حقیقی دیش بھکتی یا قوم پرستی‘‘ ہے۔ آزاد خیال پنڈتوں نے اْن کی مہم کو تیزی سے سمجھ لیا اور اسے مثال قرار دیا کہ کس طرح عوام کے حقیقی مسائل کی یکسوئی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہ استدلال کچھ اس طرح کا ہے: بی جے پی کی عدیم النظیر اور جارحانہ انتشارپسند کوششوں کے باوجود بی جے پی کو اگر عآپ نے شکست دینے میں کامیابی حاصل کی ہے تو یہ ثبوت ہے کہ ہندوستانی ووٹرز معاشی بہبود پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، کسی دوسرے مسئلے پر نہیں۔ یہ سچ ہے کہ عآپ کے محلہ کلینکس، گورنمنٹ اسکول ایجوکیشن کے معیارات کو بلند کرنے کیلئے اس کے غیرمعمولی عزم و استقلال، اور فری یا رعایتی برقی سے متعلق اس کی پیشکش نے ظاہر طور پر دہلی کے مزدور طبقہ اور کمتر آمدنی والوں کے ووٹ حاصل کئے ہیں۔ لیکن اگر آپ کیجریوال کی مہم کا بغور جائزہ لیں، آپ حکمت والی کئی چالیں اور تبدیلیاں نوٹ کریں گے جن سے اشارہ ملتا ہے کہ ہندوتوا کو عآپ مہم کے حکمت سازوں نے ایک عنصر کے طور پر نظرانداز نہیں کیا ہے اور نہ ہی بی جے پی کی جارحانہ کوشش کہ قوم پرستی کو وہ اپنی جاگیر باور کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک انٹرویو میں کیجریوال کا ’ہنومان چالیسا‘ پڑھنا اتفاق نہیں ہے۔انتخابی مہم کے آخری مراحل میں تمام پارٹی امیدواروں کو اپنے حلقوں کی مندروں کے درشن کرتے دیکھا گیا، نیز یگنہ اور پوجا پاٹ کرتے ہوئے تصویر کشی بھی کرائی گئی۔ پرشانت کشور کی ٹیم (جس نے اِس الیکشن میں عآپ کے ساتھ کام کیا) نے کوئی کسر نہ چھوڑنے کا واضح فیصلہ کررکھا تھا۔ اور کوئی مقصد سے کہیں بڑھ کر یہ کام عآپ کے کیڈر کو جواب دینے کے قابل بنایا گیا بشرطیکہ ان پر مخالف ہندو ہونے کا الزام عائد کیا جائے، جو بی جے پی نے اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف اکثر وبیشتر کیا ہے۔ کیجریوال نے قانون شہریت کے خلاف جاری شاہین باغ احتجاج سے خود کو بڑی ہوشیاری سے دور رکھا، اور احتجاج کو ختم کرتے ہوئے راستہ کھلوانے کیلئے امیت شاہ کو اْن کا عملاً چیلنج اسی حکمت عملی کا حصہ رہا۔ خواتین زیرقیادت جاری احتجاج سے نمٹنے کی ذمہ داری وزیر داخلہ پر ڈالتے ہوئے کیجریوال نے مجھ سے کہا: ’’میں کہتا ہوں اسکولس، وہ کہتے ہیں شاہین باغ۔ میں کہتا ہوں سڑکیں، وہ کہتے ہیں شاہین باغ۔ میں کہتا ہوں دواخانے، وہ کہتے ہیں شاہین باغ۔‘‘ انھوں نے ’’دہشت گرد‘‘ کی چوٹ کو بھی کس طرح ناکام بنایا، سبق آموز ہے۔ اس معاملے میں انھوں نے نہ صرف جذباتی ٹھیس پہنچنے کے احساس کو عام کرنے کا موقع ڈھونڈ لیا، بلکہ انھوں نے اسے اپنی قوم پرستانہ قابلیتوں پر زور دینے کا ذریعہ بھی بنایا۔ دہلی اسکولز میں حب الوطنی کا نصاب اسی حکمت کا لازمی حصہ ہے کہ بی جے پی کو اپنے حریفوں کو قوم دشمن قرار دینے کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔ کئی طرح سے کیجریوال نے پْراستقلال سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے لبرل ازم کے معاملے میں بھی تنازع پیدا نہیں ہونے دیا۔ مثال کے طور پر انھوں نے جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کی موثر تنسیخ کی تائید کی۔ کیجریوال اپنے سیاسی طرز کو ’’معتبر دیش بھکتی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ کافی قوم پرستانہ ہے جس میں اسکولز اور تعلیم کی بات ہوتی ہے، نہ کہ مسلسل ہندو۔ مسلم سیاست پر بیان بازی کی جائے۔ دہلی میں اْن کی مقبولیت کو خود اْن کے بدلاؤ سے بھی مدد ملی ہے۔ وہ اب واضح طور پر کم شدت پسند اور پہلے سے کہیں زیادہ ردعمل ظاہر کرنے والے شخص ہیں۔ اْن کی سیاست بھلے ہی اس ایقان سے جڑی ہے کہ وہ بجھے ہوئے سسٹم میں صاف ستھرے ’’بیرون سسٹم کے شخص‘‘ ہیں؛ لیکن اسی سسٹم نے انھیں ملائم کیا اور انھیں رشتے استوار کرنا سکھایا، اْن لوگوں کے ساتھ بھی جن کو کبھی وہ اپنے مخصوص انداز میں نشانہ بناتے تھے۔ آپ اسے کجریوال کا اصل دھارے میں شامل ہونا کہہ سکتے ہو۔ لیکن ہنوز انھوں نے سیاسی رول ادا کیا جس نے نئے معیارات قائم کئے ہیں۔ ایسا سمجھنا مکمل غلط ہوگا کہ عآپ مہم کو ایسی آئیڈیالوجی پر مبنی ترتیب دیا گیا جو بی جے پی کی کٹر مخالف ہے۔ ایسا سوچنا بھی غلط ہے کہ یہ بالکلیہ بجلی۔ پانی الیکشن ہوا۔ امیت شاہ کی قیادت میں بی جے پی نے جب جوابی وار کے ذریعے واضح کردیا کہ وہ چناؤ کو مخصوص خول تک محدود رکھنے نہیں دیں گے، کجریوال کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرتے رہنا پڑا۔ اور اگرچہ کیجریوال نے شاہ کو بحث کی دعوت دی جب بی جے پی وزارت اعلیٰ امیدوار کا اعلان کرنے میں ناکام رہی، لیکن عآپ مہم کے تعلق سے کافی ہوشیاری کے پہلوؤں میں سے رہا کہ کیجریوال نے اپنے کلیدی حریف کے ساتھ لفاظی پر مبنی راست ٹکراؤ کو ہمیشہ ٹالے رکھا۔ انتخابی لڑائی کی زبان میں اسے سرنگ کا شکار بننے سے محفوظ رہنا کہیں گے۔ کسی سے غیرضروری ٹکرانے پر یا تو آپ جمود کا شکار ہوسکتے ہیں یا پھر ناکام ہوسکتے ہیں۔ کجریوال نے مختلف روٹ کو ترجیح دی کہ جنگ سے قبل لڑائی جیت لی جائے۔