بھارت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ڈھٹائی سے وہ فسطائی حربے استعمال کیے جارہاہے۔کرفیو اورمحاصرے میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتاجارہاہے۔ محرم الحرام میں کرفیو کی سختیاں اور سوا ہوچکی ہیں۔ محرم ظلم اور ناانصافی کے خلاف جدوجہدپر ابھارتاہے۔ بالخصوص ظالم حکمرانوں کو امام عالی مقام حسین ابن علیؓ نے کربلا کے میدان میں بے سازوسامانی کے عالم میں نہ صرف چیلنج کیا بلکہ آپ ؓ وقت کی ایک بہت بڑی عسکری اور سیاسی قوت سے ٹکرا گئے۔ شہادت کے بلند مرتبے پر فائز ہوکر تاریخ میں امر ہوگئے۔ چند برسوں بعد یزید بن معاویہ اور اس کے خاندان کا اقتدارتاریخ کے کوڑان دان کی نذر ہوگیا۔حال یہ ہے کہ عالم رنگ وبو میں اس کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہا۔امام حسینؓ امام مظلوم بن کر تاابد زندہ وجاوید ہوگئے۔ کشمیر میں بھی کربلا جیسا ہی منظر نامہ درپیش ہے۔ظالم اور مظلوم باہم صف آرا ہیں۔لگ بھگ چھ ہفتوں سے اسی لاکھ کشمیریوں کا محاصرہ جاری ہے۔ حکومت ہند اپنے شہریوں اور دنیا کو باور کراتے نہیں تھکتی کہ راوی چین ہی چین لکھتاہے۔قومی دھارے کی سیاست کرنے والے سیاستدانوں کو بھی بھارت نے یہ پیغام دیا ہے کہ اب ان کی ضرورت نہیں۔ مودی سرکار کشمیر کے اندر حکمرانی کی ذمہ داریاں نئی نسل کے ان ’’چندیدہ افراد‘‘ کو سونپنا چاہتی ہے جو دہلی کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے پر آمادہ ہوں۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے عبقری اسرائیلی حکومت کے دماغ سے سوچتے اور آنکھ سے دیکھتے ہیں جو عالمی رائے عامہ کی فکر کرتی ہے اور نہ مقامی آبادی کے سیاسی نظریات یا تصورات کی۔ دونوں حکومتیں ایک ہی طرح کی فسطائی ذہنیت کی حامل ہیں ۔اختلاف اور صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کو کچلا جاتاہے ۔ فورسز کا اجتماع ہر روز بڑھ رہاہے۔ کشمیر میں رفتہ رفتہ آبادی کا تناسب بگاڑنے کے منصوبے پر عمل بھی شروع کردیا گیا ہے۔ قانونی اور آئینی رکاوٹیں دور ہوچکی ہیں۔اب کوئی بھی بھارتی شہری کشمیر میں جائیداد خرید اور سیاست میں حصہ لے سکتاہے۔ کشمیریوں کے تشخص اور خاص کر مسلم آبادی کی عددی بالادستی کو سنگین خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ عالمی اداروں ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا نے کشمیر کے حالات کا پردہ چاک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن بدقسمتی سے مغربی ممالک جو انسانی حقوق کا دن رات لاگ الاپتے تھکتے نہیںابھی تک جاگ نہ سکے۔ عرب ممالک کا پیغام ہے کہ کشمیر کو مسلم امہ کا ایشو نہ بنایاجائے۔ دسمبر 1994ء میں مراکش کے دارلحکومت کاسابلانکا میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں شریک کشمیری رہنما ڈاکٹر ایوب ٹھاکر مرحوم نے بتایا کہ سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ کشمیر کو محض مسلمانوں کا ایشو نہ بنائیں ۔مغربی ممالک ایسے کسی مسئلہ کے حل میں تعاون نہیں کرتے ہیں جس کی بنیاد مذہب اور وہ بھی اسلام پر ہو۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا بھی یہ مشورہ ہے۔ اس پر ناراضی کا اظہار کرنے کے بجائے غوروفکر کیا جانا چاہیے کہ کس طرح اس مسئلہ کو دنیا کے سامنے پیش کیاجائے کہ عالمی حمایت حاصل ہوسکے۔ بھارت کی ایک غلطی نے کشمیر کو دوبارہ عالمی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ دوطرفہ تنازعہ اب تو خود بھارت بھی اسے تسلیم نہیں کرتا۔اس کے خیال میں اب محض آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضہ کرنا باقی ہے۔ کشمیری لیڈروں کے لیے بیرون ملک کا سفر غالباً اب ناممکن ہوگا۔امکان ہے کہ میرواعظ عمر فاروق سمیت تمام قائدین لمبے عرصے تک جیلوں یا گھروں میں نظربند رہیں گے۔ یاسین ملک کے خلاف قتل اور اغوا کا مقدمہ باضابطہ شروع ہونے کوہے۔انہیں اس مقدمے میں موت کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے۔ جماعت اسلامی کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی اگلے پانچ برسوں تک برقراررکھنے کا فیصلہ دہلی کی ایک عدالت سنا چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے حامیوں کا عرصہ حیات تنگ کیا جاچکاہے ۔ تھوڑی بہت کسر جو رہ گئی ہے وہ بھی اگلے برسوں میں پوری کردی جائے گی۔ اس پس منظر میں آزادجموں وکشمیر کی حکومت اور لیڈرشپ کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔ مظفرآبادابھی تک خالی الذہن ہے۔ معاہدہ کراچی اور آئین کے تحت آزادکشمیر حکومت محض داخلی معاملات چلانے کی ذمہ دار ہے۔کون نہیں جانتاکہ گزشتہ سات عشروں میں دنیا بدل چکی اور اس کے تقاضے بھی ۔ خاص طور پر اس تنازعہ کو محض پاک بھارت تنازعہ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا ایک مشق لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں عرض کیا کہ آزادکشمیر کی حکومت کی تشکیل نو کی جائے۔ اسے خودمختار حکومت تسلیم کیے بغیر بھی بہت سارے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہانگ کانگ خارجہ امورکے چند ایک اہم امور چلانے کا اختیار رکھتاہے۔حکومت پاکستان اور آزادکشمیر کے درمیان اپریل 1949ء میں طے پانے والے معاہدہ کراچی کی محض ایک شق تبدیل کرنے سے آزادکشمیر کی حکومت کو اپنا مقدمہ دنیا میں پیش کرنے کا قانونی جواز مل سکتاہے۔ دنیا کشمیر کی کہانی کشمیریوں کی زبانی سننے کو بے چین ہے۔ مقبوضہ کشمیر والوں کے لیے کم ازکم بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے دورمیں دنیا سے بات کرنا ممکن نہیں۔ آزادکشمیر اسمبلی میں بارہ نشستیں مقبوضہ کشمیر کے مہاجرین کے لیے مختص ہیں انہیں مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت کے لیے مختص کیا جاسکتاہے ۔ میرا گمان ہے کہ Business as usual والا فارمولا اب متروک ہوچکا ہے۔ آزادکشمیر میں بیداری اور مقبوضہ کشمیر والوں سے ہمدردی کی ایک لہر نہیں بلکہ سونامی اٹھ چکاہے۔ قوم پرست جماعتوں کے حالیہ احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں شہریوں کی شرکت اس امر کی شہادت ہے کہ عوامی جذبات کو زبان دینے کی ضرورت ہے۔ بے دھڑک لوگ کنٹرول لائن عبور کرنے چل پڑتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کا انجام موت بھی ہوسکتاہے لیکن اس کے باوجود ٹھٹھ کے ٹھٹھ شہریوں کے سراپہ احتجاج ہیں۔ آزادکشمیر کا پرچم اٹھائے ، جذبات سے مغلوب لوگوں کو کوئی راستہ نظر نہیں آتاتو اپنے اداروں کے خلا ف نعرے بازی کرنے لگتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین بھی انہیں حکومت کے خلاف استعمال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے حالانکہ گزشتہ تیس برسوں میں کشمیر پر وزیراعظم عمران خان سے زیادہ کسی نے دلچسپی لی اور نہ عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کی جاندار کوشش کی۔لوگ حکومت سے مزید اقدامات کا تقاضہ کرتے ہیںبعض نادان جنگ شروع کرنے کی بھی صلاح دیتے ہیں ۔یہ وقت ہے کہ اپنے شہریوںکو اعتماد میں لیاجائے اور انہیں بتایا جائے کہ کشمیر پر سودے بازی کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔