اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے صدارتی ریفرنس کیس میں سابق وزیر قانون فروغ نسیم کو وفاق پاکستان کی نمائندگی کرنے کی اجازت دیتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا زیر غور مقدمے میں حکومت کا انحصار ان دستاویزات پر ہیں جو درخواست گزار کے مطابق غیر قانونی طور پر اکھٹا کی گئیں ہیں؟۔ دوران سماعت جسٹس قاضی محمد امین احمد نے سوال اٹھایا کہ کیا شواہد کے بغیر ججوں کی جائیدادوں کی انکوائری عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں؟۔منگل کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بینچ نے تین مہینے دس دن کے طویل وقفے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کی آئینی درخواستوں پر سماعت کی۔عدالت نے وفاق کی طرف سے سابق وزیر قانون کے پیش ہونے پر اعتراضات مسترد کرکے فروغ نسیم کو دلائل دینے کی اجازت دی اورآبزرویشن دی کہ اٹھائے گئے اعتراضات کو بعد میں دیکھا جاسکتا ہے ۔عدالت نے وفاق کے وکیل کے سامنے پانچ سوالات رکھے ۔فروغ نسیم سے جواب مانگا گیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ(اے آر یو)کیا چیز ہے ؟،اے آر یو ججوں کے احتساب کے آئینی شق 209میں کیسے آتا ہے ؟،جج کے خلاف شکایت گزار اے آر یو کے پاس کیوں گیا،آئینی چینل کے ذریعے براہ راست صدر مملکت یا سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس کیوں نہیں گیا؟،جج کے خلاف الزامات کی انکوائری اے آر یو نے کیوں کی،صدر یا سپریم جوڈیشل کونسل نے کیوں نہیں کی؟اوربراہ راست جج پر کیسے آگئے ،پہلے جائیدادوں کی انکوائری کیوں نہیں کی گئی؟۔دوران سماعت وفاق کے وکیل جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف شکایت گزار عبدالوحید ڈوگر کی دستاویز ایک سال کی تاخیر کے بعد ریکارڈ پر لے آیا تو عدالت نے اس تاخیر کے بارے سوالات اٹھائے ۔ حکومت کے وکیل فروغ نسیم نے مقدمے کے میرٹس پر دلائل دینے کی بجائے موقف اپنایا کہ درخواست گزار جج کے خلاف مس کنڈکٹ کا الزام ہے ، شو کاز نوٹس جاری ہونے کے بعد سپریم کورٹ کو معاملے پر اختیار سماعت نہیں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 2011کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو تحفظ حاصل ہے ۔جسٹس فیصل عرب نے کہا اگر ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہو تو سپریم کورٹ مداخلت کی مجاز ہے چاہے یہ بدنیتی صدر مملکت کی طرف سے کیوں نہ ہو۔جسٹس مقبول باقر نے فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے ہمیں بتائیں کس مواد پر آپ جج کے خلاف ریفرنس تک پہنچے ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا شو کاز نوٹس کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن بدنیتی کے نکتے پر عدالت کو مطمئن کرے ۔فروغ نسیم نے کہا بیرون ملک جج صاحب کے اہلخانہ کی تینوں جائیدادیں تسلیم شدہ ہیں اس لئے ان جائیدادوں کی انکوائری یا جاسوسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،جج کے منصب کا تقاضہ تھا کہ وہ قریب ترین رشتوں کی جائیدادوں کا منی ٹریل دیتے لیکن انھوں نے نہیں دیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پہلے ثابت کرنا ہوگا کہ یہ بے نامی جائیدادیں ہیں جس کے جواب میں وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ بے نامی کا بار ثبوت حکومت پر نہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جب جج صاحب کی اہلیہ اور بچے مالی طور پر خودمختار اور ٹیکس دہندہ ہیں تو پھر بے نامی کا مفروضہ کہاں سے آئے گا؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا میں اپنے مالی طور پر خود مختار بیٹے کی جائیداد کے لئے جواب دہ ہوں؟۔جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا مالی طور پر خود مختار رشتہ داروں کی جائیدادوں کاجواب جج کیوں دے ؟۔عدالت کی طرف سے متعدد سوالات اٹھانے پر فروغ نسیم نے جواب کیلئے مہلت مانگی جس پر سماعت آج دوپہر ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔