2018ء کے قومی انتخابات کے بعد پاکستان میں نئی حکومت بننے جا رہی ہے اس کے ساتھ ہی ملک میں اپوزیشن کا متحدہ محاذ بھی بن گیا ہے اس اتحاد میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو کہ ان انتخابات میں بری طرح شکست کھا کر اپنا پارلیمانی وجود گنوا بیٹھے ہیں متحدہ اپوزیشن کے قیام کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ دھاندلی تو یقینا ہوئی ہے لیکن اس بار دھاندلی کسی اور نے نہیں بلکہ خود ووٹرز نے کی ہے ان ووٹرز نے نہ صرف اپنا بلکہ اپنے بچوں کا مستقبل بچانے کی خاطر یہ سب کچھ کیا ہے دھاندلی ان قوتوں کے خلاف ہوئی جو کہ ہمیشہ اقتدار پر قابض رہنا چاہتی تھیں یہ قوتیں اپنی خاندانی اجارہ داری برقرار رکھتے ہوئے اپنی کرپشن بھی جاری رکھنا چاہتی تھیں اس وقت ماضی کے دو حکمران خاندان احتساب کے شکنجے میں آ چکے ہیں اس کے علاوہ دیگر سیاسی شخصیات بھی احتسابی عمل سے دوچار ہونے والی ہیں۔ احتساب کے اس عمل کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کے پس پردہ اسی متحدہ اپوزیشن کا ایجنڈا ہے ابھی حکومت بنی ہی نہیں اور آنے والی حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن کا قیام یہ بھی سیاست کا انوکھا واقعہ ہے۔ ذرا اندازہ کریں کہ آج ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما کس طرح شیرو شکر ہیں اور پھر کس طرح دیگر ہارے ہوئے سیاستدانوں کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر موجود ہیں یقین جانیے کہ میں نے قومی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد اپنے ذرائع سے اسلام آباد میں انتہائی اہم عہدوں پر رہنے والے بیورو کریٹس اور اپنے پرانے دوستوں سے ان انتخابات کی شفافیت کے بارے میں پوچھا تو ہر کسی نے بتایا کہ یہ انتخابات ہر طرح سے شفاف تھے۔ بے شمار پریذائیڈنگ آفیسرز سے بھی بات ہوئی اور پھر اسی طرح رحیم یار خان کے ایک انتہائی اہم انتخابی حلقے پر بطور پریذائیڈنگ آفیسر کام کرنے والی محترمہ اوم نثار صاحبہ سے ان انتخابات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بطور سینئر سکول ٹیچر گزشتہ 25سالوں سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں اور کئی مرتبہ قومی انتخابات میں بطور پریذائیڈنگ آفیسر کے فرائض سرانجام دے چکی ہیں مگر اس مرتبہ ان انتخابات میں ہر طرح سے شفافیت کا عمل پوری طرح بروئے کار لایا گیا اور خاص طور پر افواج پاکستان کے جوانوں نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ مختصر یہ کہ قومی انتخابات ہر طرح سے شفاف تھے۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات انقلاب خاموشی سے اور دبے پائوں بھی آ جایا کرتا ہے سو اس دفعہ یہ انتخابی انقلاب آیا ہے جو کہ بہت بڑے بڑے برج الٹ کر چلا گیا اب اس خاموش انقلاب کا ردعمل بھی تو ہونا تھا یعنی ہارے ہوئے سیاستدانوں نے اپنا غم اور غصہ بھی تو دکھانا تھا جو کہ اب متحدہ اپوزیشن کی شکل میں دیکھنے کو مل رہا ہے اس پورے عمل میں اگر کوئی قومی یا عوامی نوعیت کا کوئی پروگرام نظر آ رہا ہے؟ تو بتائیں وہ کیا ہے؟ صرف یہ کہ سیاستدان آپس میں گھل مل گئے ہیں اور پھر پارلیمنٹ میں اپنی غیر موجودگی کا غم ان کو کھائے جا رہا ہے اس سے بڑھ کر یہ کہ اب احتسابی شکنجہ ان کے اوپر بھی آنے والا ہے۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے پر اعتماد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ایک اتحادی حکومت کے سربراہ ہونگے یہ حکومت جب اپنا اقتدار سنبھالے گی تو اس وقت پاکستان کے کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ 50فیصد سے بڑھ کر 14.03ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر ہو گا اس خسارے کی وجہ سے پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 9ارب ڈالر رہ گئے ہیں قومی انتخابات کے بعد مستحکم ہونے سے قبل ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر 130روپے فی ڈالر سے زائد ہو چکی تھی اب اس کے نتیجے میں پاکستان کے مجموعی قرضے 24.5ٹریلین روپے تک جا چکے ہیں جو کہ ہماری مجموعی معیشت کا 72فیصد بنتا ہے (اس میں 16.5ٹریلین ملکی اور 8ٹریلین روپے کے غیر ملکی قرضے ہیں) اس وقت مالیاتی اور تجارتی خسارہ ہماری تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ ان تمام حالات میں اپوزیشن کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے پاکستان سے ان کو کتنا لگائو ہے یہ بھی اب سب کے سامنے ہے۔ جیسا کہ ہارے ہوئے سیاستدان اپنا غم غلط کرنے کی پالیسی پر کارفرما ہیں اور عمران خان اب حکومت بنانے جا رہے ہیں اب ہونا یہ چاہیے کہ عمران خان ان تمام سیاستدانوں کو خیر سگالی کا پیغام دیں اور ان سب کو سادہ سے کھانے پر مدعو کریں اور پھر ان کو محبت‘ یگانگت اور پھر قومی مفادات کی خاطر صلح اور ہم آہنگی کا پیغام دے کر ملکی مشکلات اور خطرات کے چیلنجوں کی پوری تصویر دکھائیں اور پھر ان کا عملی تعاون مانگیں یہ ایک اچھا آغاز ہو گا اس طرح قوم کو بھی پتہ چل جائے گا کہ کون سے قومی لیڈر اپنی ذات سے بالاتر ہو کر مملکت پاکستان اور قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس موقع پر یہ اپیل بھی کی جائے کہ قومی مفادات کے پیش نظر اب تمام سیاستدان فوجی افسران‘ جج صاحبان اور بیورو کریٹس بیرون ملک سے اپنے تمام اثاثے واپس پاکستان لے آئیں۔ عمران خان کو کرپشن کے خلاف جنگ اور لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لانے‘ بلا امتیاز احتساب اور پھر ملک میں تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں دینے کے اپنے وعدے بھی پورے کرنے ہونگے نئی قانون سازی سے اس عمل کی غیر جانبداری کو یقینی بنانا ہو گا منی لانڈرنگ اور دیگر ذرائع سے ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لیے غیر ملکی حکومتوں سے نئے روابط بھی قائم کرنا ہو نگے۔ اس ضمن میں نئے معاہدے بھی کرنے پڑیں گے اس کے علاوہ عمران خان کو وزیر اعظم کی حیثیت سے فوری طور پر اپنے غیر ملکی دوروں کو بھی ہنگامی بنیادوں پر ترتیب دینا ہو گا کسی دعوت نامے کا انتظار نہ کیا جائے فوری طور پر شٹل ڈپلومیسی کا آغاز کر دیا جائے۔ خطے کے حالات کے پیش نظر چین‘ایران‘ ترکی‘ افغانستان‘ روس اور سعودی عرب کے علاوہ بھارت کے ہنگامی دوروں کا پروگرام اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ عمران خان اب چونکہ ایک مدبر‘ غیر جانبدار اور محب وطن رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہے ہیں قومی مفاد اور عوامی امنگیں جب پیش نظر ہونگیں تو پھر تبدیلی کا خواب بھی یقینا پورا ہو گا ملک میں امن قائم کرنے کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کرنے والے افواج پاکستان کے جوانوں اور افسروں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا دہشت گردی اب دم توڑ چکی ہے مگر اب بھی خطرات موجود ہیں ان حالات میں پرامن انتخابات کا ہونا بھی خوش آئند ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام قومی ادارے نئی حکومت کی ترجیحات پر عمل کر کے پاکستان کو مضبوط بنائیں اور ملک میں جمہوری سفر کو رواں دواں رکھنے کی خاطر ہر ادارہ اپنا کردار بھر پور انداز میں ادا کرے۔ دوسری جانب عمران خان نے اپنے لیے جن اعلیٰ مقاصد کا تعین کر رکھا ہے ان کے حصول کی خاطر انہیں اور ان کی جماعت کے تمام ارکان کو ذاتی مفاد اور سیاسی عناد سے بالاتر ہو کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یقینا مشکلات اور رکاوٹیں ان کی راہ میں حائل ہونگیں مگر اب پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے انتخابات میں پاکستان کے عوام نے عمران خان اور ان کی جماعت پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اب خود ان کو اس کا اہل بھی ثابت کرنا ہو گا یہ اسی صورت میں ہے کہ اب ایک مضبوط ٹیم لائی جائے اور بھر پور انداز میں سادگی اپنا کر حکومتی امور چلائے جائیں پروٹوکول اور وی وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہو یہ ہی نیا پاکستان ہو گا۔