اور قیامت سے پہلے دنیا کے ایک تہائی جنگل جل جائیں گے (مکاشفات) امریکی ریاست کیلی فورنیا کے جنگلوں میں اس بار جو آگ لگی ہے تاریخ کی شاید سب سے بڑی آگ ہے اور ماحولیات والوں کا کہنا ہے کہ آنے والے زمانے میں آگ لگنے کے واقعات بڑھتے جائیں گے۔ دنیا بھر میں بالعموم اور امریکہ میں بالخصوص یہ واقعات پہلے ہی غیر متناسب حد تک بڑھ چکے ہیں۔ حالیہ آگ مغربی امریکہ کی اس ساحلی ریاست جو شمالاً جنوباً نو سو میل لمبی ہے، کے 24سے زیادہ مقامات پر لگی ہے اور مسلسل پھیل رہی ہے اب تک یہ آگ تین لاکھ مربع میل رقبہ جلا کر راکھ کر چکی ہے۔ بے شمار جنگلی حیات ختم ہو گئی ہے۔ نو بڑے پارک اس کی زد میں آ چکے ہیں جبکہ یوسو مائیٹ کا عالمی شہرت یافتہ پارک بند کر دیا گیا ہے۔ آگ بجھانے کا مقامی عملہ کم پڑ گیا ہے اور آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ تک سے فائر فائٹر بلائے گئے ہیں۔ جنگل کی آگ بجھانے والے فائٹر عام فائر بریگیڈ سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آگ ایک مہینہ سے پہلے نہیں بجھ سکتی، گویا بے انداز تباہی ہو گی۔ صدر ٹرمپ نے اس آگ پر اپنی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ریاست کیلی فورنیا کے پاس آگ بجھانے کے لیے بہت پانی موجود ہے لیکن ماحولیاتی قوانین کی وجہ سے یہ پانی استعمال نہیں ہو سکا۔ صدر ٹرمپ ماحولیاتی حوالے سے منفی قانون سازی کے لیے پہلے ہی تنقید کی زد میں ہیں۔ آگ لگنے کا یہ عمل بالکل قدرتی ہے لیکن ماحولیات میں مسلسل خرابی نے اسے غیر قدرتی عمل بنا دیا ہے۔ اس قدرتی عمل کے ذریعے جنگلات کا ’’نیا پن‘‘ برقرار رہتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں درخت اور جانور جل جانے کے بعد جب آگ بجھتی ہے تو ان کی راکھ کوئلہ اور لاشوں کے نامیاتی مادے زمین کو نئی زرخیزی دیتے ہیں اور دنوں میں نیا جنگل کھڑا ہو جاتا ہے۔ آگ دو طریقے سے لگتی ہے۔ سخت گرمی میں کوئی سوکھا تنکا یا پتہ سلگ اٹھتا ہے اور اس سے آگ پھیل جاتی ہے۔‘ دوسرا یہ کہ بارش کے دوران بجلی گرتی ہے اور پلک جھپکنے میں الائو بھڑک اٹھتے ہیں۔ جنگل کی آگ میں لاکھوں کروڑوں زندگیاں بھسم ہو جاتی ہیں‘ اس لیے کہ زندگی کا چکر (سائیکل) چلتا رہے۔ یہاں قدرت کا اصول سمجھ آتا ہے۔ اسے کسی خاص جاندار (یا آدمی) کی زندگی بچانے سے کوئی سرکار نہیں ہے۔ اس کے سلسلہ واقعات کا مقصد زندگی کا ماحول سازگار بنائے رکھنا ہے۔ کروڑوں سال پہلے کروڑوں نہیں اربوں ڈائنا سار ایک عظیم کائناتی حادثے میں ہلاک ہو گئے اور دیو ہیکل درخت جڑوں سے اکھڑ گئے۔ یہ درخت اور لاشیں کروڑوں سال زمین میں دبی رہیں اور کوئلہ ‘ گیس اور تیل میں بدل گئیں۔ یہ خزانے تب تک چھپے رہے جب تک نوع انسانی کو ان کی ضرورت نہیں تھی جیسے ہی آبادی ایک خاص گنتی سے بڑھی اور معاشرے کی لازمی ضروریات نے صنعتی اور مواصلاتی انقلاب برپا کیا‘ یہ خزانے دریافت ہونے لگے۔ قدرت کا ’’سائیکل‘‘سائینٹیفک ہونے کے باوجود پراسرار بھی ہے۔ ٭٭٭٭٭ ماحولیات کی تباہی پھر اسی ترقی کا لازمی نتیجہ ہے جو پچھلی صدی میں بالعموم اور پانچ چار عشروں سے بالخصوص ہوئی۔ یہاں انسان یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ اگر وہ ماحول کو بچاتا ہے تو اسے اس ترقی سے دستبردار ہونا پڑے گا اور یہ ناممکن ہے۔ مثال کے طور پر ساری دنیا کارخانوں میں بننے والی مصنوعات پر پل اور چل رہی ہے۔ کپڑا ہی لیجیے‘ کیا وہ زمانہ پلٹ سکتا ہے جس میں آپ اپنے محلے ہی میں موجود جولاہے سے کہتے تھے وہ چھ گز کپڑا آپ کے لیے بن دے۔ ان گنت چیزیں ہیں جو اب مقامی طور پر بنتی ہیں نہ بن سکتی ہیں۔ ریل جہاز اور کار کے بغیر زندگی رک جائے گی۔ ان سب نے تیل استعمال کرنا ہے۔ اگر بجلی استعمال کرنا ہے تو اس بجلی کے بنانے سے بھی ماحولیات متاثر ہو گی، چاہے وہ ایٹمی بجلی ہو یا ڈیم بنانے سے۔ گویا کرہ ارض کو قدرت کے ایک ’’جبر‘‘ کا سامنا ہے۔ پھر بھی ماحولیاتی تباہی کم کی جا سکتی ہے۔ ماحولیات نے گرمی اور خشکی بڑھا دی ہے، جس سے جنگلوں کو آگ لگنے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ پنجابی کا ایک بدنام شعر یاد آ رہا ہے کہ ؎ کھڑکیوں کے کھڑکنے سے کھڑکتا ہے کھڑک سنگھ کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں یعنی ویش اَس سرکل منحوس دائرہ۔ جب جنگل کی آگ لگنے کے واقعات بڑھیں گے تو اس کے نتیجے میں ماحول کی گرمی اور خشکی اور بڑھے گی اور جب یہ بڑھے گی تو اگلی بار آگ اور زیادہ ہو گی اور جب اگلی بار آگ اور زیادہ ہو گی تو اس سے اگلی بار گرمی اور خشکی مزید بڑھے گی۔ مثال دیکھیے‘ لاکھوں ایکڑ پر آگ کے بعد وہاں کیا نظر آئے گا؟ راکھ اور کوئلہ اور ادھر جلی لکڑی کے ڈھیر۔ فضا میں خشکی بڑھے گی اورا گلی بار جب آگ لگے گی تو اسے پھیلنے کے لیے خشک ایندھن (کوئلہ ادھ جلی لکڑی) بڑی مقدار میں دستیاب ہو گا اور آگ اپنی قدرتی رفتار سے بڑھ کر پھیلے گی۔ ماحولیات کی خرابی زندگی میں خلل ڈال رہی ہے۔ ساحلوں پر ڈسپوزیبل اشیا ان گنت قسم کی بے پناہ تعداد اور مقدار میں پھینکی جاتی ہیں۔ بے شمار جانور مر جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے نامیاتی چکرٹوٹ جاتا ہے۔ سمندر آلودہ بھی ہو رہے ہیں اور آبی حیات کے بے پناہ شکار کی وجہ سے حیاتیاتی طور پر غیر متوازن بھی۔ زہریلے مادوں اور آئل سیل سے سمندری حیات مر جاتی ہے۔ اسے کھانے والے پرندے بھی اور یوں جَوّ السَماء میں بھی عدم توازن کا ظہور ہے۔ ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکی قوم دنیا میں سب سے زیادہ فی کس گوشت کھاتی ہے اور جتنا کھاتی ہے اس سے زیادہ ضائع کرتی ہے۔ یہ سب کچھ بھی ماحولیات کو متاثر کر رہا ہے۔ مسلسل پھیلی آبادیاں اور ان گنت قسم کے تصوراتی ڈھانچے جنگلات کا رقبہ دن بدن محدود کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ دو دھاری تلوار ہے ایک طرف پھیلی آبادیاں جنگلات کو صاف کرتی ہیں تو دوسری طرف دیگر ضروریات کے لیے درختوں کی کٹائی کا عمل ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو جنگلات کی کمی کا ناقابل یقین حد تک شکار ہے۔ یہاں پانی کی کمی کے آثار نظر آ رہے ہیں اور اگلے عشرے میں خدانخواستہ خشک سالی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ دنیا کے جس ملک میں دس فیصد رقبے پر جنگل ہوں اسے ’’غریب‘‘ سمجھا جاتا ہے کم سے کم 25فیصد رقبہ جنگل کا ہونا چاہیے لیکن دیکھیے کہ پاکستان میں صرف چار فیصد رقبے پر جنگل ہے۔ حد یہ ہے کہ وسطی پنجاب میں کھیتوں کا رقبہ بڑھانے کے لیے بھی درخت کاٹ دیے جاتے ہیں۔ کھیتوں کا کردار اپنی جگہ درختوں اور جھاڑیوں کا اپنی جگہ، آج تک کسی بھی حکومت نے ایسی شجر کاری نہیں کی جسے ماپ کر کہا جا سکے کہ اتنے مربع میل پر جنگل اگ آئے ہیں۔ خیر‘ بات امریکہ کی ہو رہی تھی۔ کیلی فورنیا کے جنوب میں میکسیکو ہے جس کی سرحد اس ریاست کے علاوہ اور بھی کئی امریکی ریاستوں سے لگتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے ہسپانوی نسل کی آمد روکنے کے لیے پوری سرحد پر دیوار کی تعمیر شروع کر دی ہے۔ اس سے جنگلی حیات اور اکالوجیکل سرکل کی زبردست تباہی یقینی ہے۔ہم جیسے لوگوں کو حیرت اس بات پر ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں کیا ایسے لوگ نہیں ہیں جو صدر ٹرمپ کو ماحولیات کی لازمیت سمجھا سکیں؟