اقتدار کے پہلے سو دنوں میں عمران خان نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو مگر انہوں نے ایک بات ثابت کر دی ہے کہ وہ آل پاور فل ہیں۔ جو اُن کا دل چاہتا ہے وہ کر گزرتے ہیں۔ اگر زیادہ واویلا ہو جائے تو موصوف اپنا فیصلہ واپس لے لیتے ہیں، جسے کوتاہ فہم ناقدین و مخالفین یوٹرن کہتے ہیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ خادمِ پنجاب میاں شہباز شریف نے بیک جنبش قلم لاہور کے سرکاری و تاریخی اداروں کے گرد دیواریں گرا کر ان کی بجائے جنگلے لگانے کا حکم صادر فرما دیا تھا۔ اس حکم پر بھی اسی طرح راتوں رات عمل درآمد شروع ہو گیا تھا جیسے عمران خان کے حکم پر گورنر ہائوس کی دیوار گرا نے کا عمل۔ جن اداروں کے گرد جنگلے بنا دیئے گئے ان میں گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی بھی شامل تھی۔ اس حکم کے پیچھے میاں شہباز شریف کا فلسفہ یہ تھا کہ اس سے ایک وسعت اور فراخی کا احساس ہو گا۔ یوں کروڑوں روپے غیر ترقیاتی منصوبے پر برباد ہوئے اور پھر پانچ چھ برس قبل جب دہشت گردی کی لہر چلی تو ہر سرکاری عمارت کے گرد جنگلے گرا کر مضبوط قسم کی قد آدم دیواریں اٹھا دی گئیں اور ان کے اوپر خاردار تاریں بھی لگائی گئیں۔ ایسا سارے پنجاب میں ہوا۔ یہ اربوں روپے کا خرچہ تھا۔ ایک گورنر ہائوس کی دیوار گرانے اور اس پر عسرت و تنگ دستی کے ایام میں زرِ کثیر صرف کر کے جنگلہ لگانے کی حکمت کیا ہے۔ گورنر ہائوس کو آپ نے عوام کے لیے کھول دیا ہے۔ لوگ جوق در جوق آ رہے ہیں اور گورنر ہائوس کا بچشم خود نظارہ کر رہے ہیں اور اس تاریخی عمارت سے وابستہ تلخ و شیریں تاریخ کو ReLiveکر رہے ہیں ۔ اول تو میں اس مبہم فلسفے کو ہی نہیں سمجھ پایا کہ گورنر ہائوس جیسی تاریخی عمارات کو کیوں گرایا جائے۔ کیا اس سے مقصود انگریز کے ہر نقش کہن کو مٹانا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیا انگریزوں کے زمانے کے ریلوے اسٹیشنوں، ان کی بنائی ہوئی نہروں، ان کے تعمیر کردہ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو بھی گرایا جائے گا؟۔ یہ سب تاریخ ہے۔ تاریخ میں جی پی او بھی ہے اور پھر بہت سی عمارتیں تو انگریزوں سے بھی پہلے کی ہیں۔ ہاں البتہ انگریزوں کے چھوڑے ہوئے بعض نقوش کہن ایسے ہیں جنہیں آزادی کے فوراً بعد مٹانے کی ضرورت تھی۔ ان نقوش میں سب سے نمایاں ہماری غلامانہ ذہنیت ہے، جسے ہم نے آج تک اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔ بانیٔ پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہماری سرکاری زبان اردو ہو گی مگر ہم ابھی تک غلامانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے سابقہ آقائوں کی زبان انگریزی میں کاروبار ریاست و حکومت چلا رہے ہیں۔ مٹانا ہے تو انگریزوں کا دیا ہوا فرسودہ بیورو کریسی کا ڈھانچہ مٹانے کی ضرورت ہے۔ جو غلاموں کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ اس کی جگہ ستر برس میں ہم خدمت عوام کے لیے نیا انتظامی سسٹم نہیں لا سکے۔ اسی طرح انگریزوں کے دیئے ہوئے نظام تعلیم کو بدلنے کی ضرورت ہے جو محکوم و مجبور قوم سے اپنی جابرانہ و قاہرانہ حکومت کے لیے کل پرزے فراہم کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اس کے بدلے ایک آزادی اسلامی فلاحی ریاست کے حسب حال جدید ترین تعلیمی نظام کو رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ مختصر بات یہ کہ ہمیں مائنڈ سیٹ بدلنے کی ضرورت ہے۔ پھر دیواروں کی طرف آتے ہیں۔ ان دیواروں کو گرائیں جن دیواروں نے معاشرے کو کئی طبقات میں بانٹ کر رکھا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ وہ دعوت بدترین ہے جس میں صرف افراد کو بلایا جائے اور غریبوں کو قریب نہ پھٹکنے دیا جائے۔ اگر گرانی ہیں تو پھر غیر منصفانہ دولت کی تقسیم کی دیواریں گرائی جائیں۔ خان صاحب ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں۔ ریاست مدینہ اور بعد میں آنے والی حکومتوں اور مسلمانوں کے لیے قرآن پاک میں واضح حکم ہے کہ ان کے اموال میں سوالی اور بے وسیلہ لوگوں کا حق ہے۔ آپ غریبوں کے لیے ٹیکس دیں گے تو ان پر احسان نہیں کریں گے بلکہ فرمان ربی کی پیروی کریں گے اور اپنے اوپر عائد غریب کا حق اسے ادا کریں گے۔ آج کی سکینڈے نیویا جیسی جمہوری فلاحی ریاستیں یہی کچھ تو کر رہی ہیں۔ وہ امیر اور غریب کے درمیان حائل اونچی اونچی دیواروں کو ڈھا چکی ہیں۔ جناب وزیر اعظم اگر آپ نے گرانی ہیںتو طبقاتی تعلیم کی دیواریں گرائیں۔ وطن عزیز میں رنگا رنگ کے تعلیمی نظام ہیں۔ کوئی چالیس پچاس ہزار ماہانہ والا سکول ہے، کوئی دس پندرہ ہزار والا اور کوئی دو چار ہزار والا۔ ہر طبقاتی سکول کے بچوں کا مائنڈ سیٹ الگ ہے۔ ان کا نصاف تعلیم الگ ہے، ان کی پسند نا پسند الگ ہے، حتیٰ کہ ان کے ہیرو بھی الگ ہیں۔ جہاں تک ایک سرکاری سکول کے بچے کا تعلق ہے اس کا ان طبقاتی سکولوں کے کسی اعلیٰ و ادنیٰ درجے کے طلباء کے ساتھ کچھ بھی کامن نہیں۔ یہ ہیں وہ دیواریں جنہیں گرانے کی ضرورت ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ پہاڑ جیسے بڑے بڑے مسائل کو بالائے طاق رکھ کر خان صاحب نے پنجاب کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سب سے پہلا جو حکم صادر کیا۔ اس پر کوئی نہیں بولا اور نہ کسی کو اذن گویائی تھا۔ گزشتہ دور میں بھی ایسے ہی تھا۔ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے جسے وزیر خزانہ اسد عمر اور عمران خان کوئی خاص اہمیت نہیں دے رہے، مگر اگلے چند ہفتوں میں یہ مسئلہ انتہائی سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اسی طرح ڈالر کی اڑانیں انتہائی تشویشناک ہیں۔ 142روپے کا ڈالر ہو جائے تو ہر شے کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ مارکیٹوں سے خریدار اور ریستورانوں سے گاہک غائب ہو جاتے ہیں۔ ہم نے کرتار پور کا بارڈر کھول کر بھارت کی سکھ کمیونٹی کے لیے سہولتیں پیدا کر کے ایک مثبت قدم اٹھایا ہے مگر کشمیر میں جس طرح بے چارے مظلوم کشمیریوں کو گولیوں سے روزانہ بھونا جا رہا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کو جس طرح پیلٹ گنوں سے اندھا کیا جا رہا ہے اور انسانی حقوق کی بھارتی حکومت جتنی بدترین پامالی کر رہی ہے۔ اس پر ہمیں ساری دنیا میں بھرپور احتجاج کرنا چاہیے تھا مگر ہماری حکومت نے چپ اختیار کر رکھی ہے۔ اتنی اہم ترجیحات کو چھوڑ کر دیوار گرا کر جنگلا لگانا تو ناقابل فہم ہے ترجیح ہے۔ اس لحاظ سے جانے والی حکومت اور آنے والی حکومت میں کوئی خاص فرق نہیں وہ حکمران بھی من مانی کرتے تھے خان صاحب بھی من مانی کرتے ہیں، امید ہے عمران خان اس شعر پر غور ضرور فرمائیں گے ؎ بدلے میں دفینے کے قطرے ہیں پسینے کے کیوں دل کی گواہی پر دیوار گرا ڈالی