سماج متشدد رویوں سے چھلک رہا ہے کوئی دن ایسی خبروں سے خالی نہیں جاتا جس میں تشدد سے بھرے رویوں کی وجہ سے حادثوں اور سانحوں کا ذکر نہ ہو۔ ہماری روز مرہ کی آف سکرین زندگی سے لے کر سوشل میڈیا پر دکھائی دیتی ہماری آن لائن زندگی کے عکس تک سب عدم برداشت ‘ کینے اور بغض سے لبریز ہے۔ہماری گفتگو میں الفاظ سے زیادہ طنز کے تیر ہیں اور ہمارے مباحثوں میں دلائل سے زیادہ عدم برداشت کے گھونسے ہیں ہمیں تب تک چین نہیں پڑتا جب تک ہم اپنے مخاطب کو اپنے دلائل کے گھونسوں اور زہر سے بھری گفتگو کی لاتوں سے ادھ موا نہ کر دیں۔ہماری گفتگو ہمارے معاملات تک، سب کھردرا، بے ڈھب، بد صورت، نوکیلا، کانٹے دار نفرت اور بغض سے بھرا ہے۔ کیا وردی پہنے ہوئے قوم کے محافظ ہوں‘ یا پھر استاد کی دستار سنبھالے علم بانٹنے والے کردار۔ سبھی اپنے متشدد رویوں سے معاشرے کو بدصورت بنا رہے ہیں۔ صلاح الدین پر تشدد کرنے والے پولیس اہلکار اور نویں جماعت کے حسنین کو تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دینے والے استاد میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کی ظاہری شناخت اس معاشرے میں معزز ناموں سے تھی۔ ایک قوم کا محافظ تھا تو دوسرا استاد لیکن اپنے بدصورت کردار اور تشدد سے بھرے ہوئے رویوں سے انہوں نے ثابت کیا کہ وہ اس کردار کے اہل نہ تھے جس پر انہیں اس معاشرے نے فائز کررکھا تھا۔ ان کے اندر انتہا درجے کا عدم برداشت اور بدترین نفرت کا بارود بھرا ہوا تھا جس کی آگ میں صلاح الدین اور حسنین جل کر راکھ ہوئے۔بات اگرچہ رسوائی اور افسوس کی ہے لیکن سچ ہے کہ تھانوں میں ظلم تشدد اور مسائل کی عزت نفس کو کچلنے کا کلچر یہ معاشرہ قبول کر چکا تھا ہر شریف انسان تھانے میں جانے سے ڈرتا ہے۔ جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں۔ چیخیں ہماری اس وقت نکلتی ہیں جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے صلاح الدین اگر تشدد سہتا ہوا جاں سے نہ جاتا۔ یا اگر اس کی ایسی ویڈیو زوائرل نہ ہوتیں جس میں وہ پولیس کے چھتر کھاتا ہوا پانی مانگتا تو آگے اسے کہا جاتا ہے کتے کی آواز نکالو۔ پھر تشدد سہتا ہوا صلاح الدین مر جاتا ہے۔ تو مردہ خانے سے اس کا باپ اس کی ادھڑی کچلی ہوئی نعش وصول کرتا ہے۔ ظلم کے یہ سارے بھیانک مناظر اگر کیمرے کی آنکھ سے یہ سماج نہ دیکھتا تو کیا پھر بھی ہم صلاح الدین پر ہونے والے پولیس تشدد پر آواز اٹھاتے۔! میرا جواب ہے نہیں! آج اس وقت بھی بلکہ ہر وقت ہی کتنے گمنام ملزم تھانوں کے ان عقوبت خانوں اورنجی ٹارچر سیلوں میں انسانیت سوز تشدد سہہ رہے ہیں۔ لیکن ہم تک ان کی کراہیں اور آہیں نہیں پہنچتیں۔ اس ملک کے پالیسی سازوں اور قانون بنانے والوں کے علم میں تھانہ کلچر کی ساری بدصورتیاں ہیں۔ لیکن ظلم کے اس کلچر کو بدلنے کی حقیقی کوششیں کبھی کسی اہل اقتدار نے نہیں کیں۔ کیونکہ ظلم تشدد جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون اس سماج کے وڈیروں کے مفادات کا پورا تحفظ کرتا ہے۔ اس سماج کے وڈیروں کو وہ نظام وارا ہی نہیں کھاتا جو غریب کے حق اور عزت نفس کا محافظ ہو۔ سو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تشدد تھانہ کلچر کا لازمی جزو ہے یہ تشددہلکا پھلکا بھی ہو سکتا ہے اور اتنا ظالمانہ اور شدید بھی کہ ملزم یا مجرم کی موت واقع ہو جائے۔ لیکن جب یہی صورت سکول کی چار دیواری کے اندر بھی دکھائی دے اور استاد جلاد کے روپ میں نظر آنے لگے تو سماجی سائنسدانوں ‘ ماہر عمرانیات اور نفسیات دانوں کو سر جوڑ کر بیٹھ جانا چاہیے اور اس بیمار معاشرے کی بیماری کی تشخیص کرنا چاہیے کہ آخر اس قدر عدم برداشت اور تشدد سے لبریز رویوں کی وجوہات کیا ہیں۔ کیوں ہمارا سماج پھول سے کیکٹس میں ڈھلتا جا رہا ہے۔ کیوں استاد سبق پڑھاتے پڑھاتے طالب علموں کو جان سے مارنے لگے ہیں خرابی کہاں پر ہے۔ آج ہی ایک اور خبر ہے کہ شاہدرہ میں سکول ٹیچر اور پرنسپل نے طالب علم کو سبق یاد نہ کرنے پر حبس بے جا میں رکھا۔ حسنین کی استاد کے ہاتھوں موت نے اسکے دوستوں کو آگ بگولا کیا کہ انہوں نے سکول کو آگ لگا دی۔ وہ رشتے جو محبت ‘ خیال اور احساس سے عبارت تھے۔ اب وہ ایک دوسرے کے لئے بغض اور نفرت سے بھرے ہوتے ہیں شوہر بیوی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ماں بچوں کو قتل کر رہی ہے۔ دھتکارا ہوا عاشق محبوبہ کو تیزاب سے جلا رہا ہے طالب علم استاد کو قتل کر رہاہے۔ بہاولپور میں یہ سانحہ ہی ہو گزرا ہے اگر یادداشت ساتھ دے۔ عجیب نفرت‘بغض تشدد اور عدم برداشت سے ابلتا ہوا معاشرہ ہے۔ ہرجا جنون اور وحشت کے کریہہ مناظر ہیں۔وحشت بوتا اور وحشت کاٹتا ہوا معاشرہ ایک لمحہ فکریہ ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کہاں ناکام ہوئے ہیں جو نصاب ہم برس ہا برس تعلیمی اداروں میں پڑھاتے رہے ہیں وہ بری طرح ناکام ہوا ہے تعلیم کا مقصد رویوں کی تہذیب ہے اور یہاں سب کچھ تیزابی اور کانٹے دار ہوتا جا رہا ہے۔ہم نصاب کے نام پر الم غلم پڑھا رہے ہیں جس کا عملی زندگی سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔ تہذیب اخلاقیات الجھے ہوئے رویوں میں سلیقہ لانے کا ہنر۔ اینگر کنٹرول (anger control)ناکامی کو قبول کرنے کا حوصلہ اور ہنر عدم برداشت کو برداشت اور حوصلے میں بدلنے کا قرینہ یہ سب ہم نے اپنے نصابوں اور کتابوں میں کبھی نہیں پڑھایا۔ اسی لئے معاشرے میں انسان نہیںوحشی جنم لے رہے ہیں۔ پولیس کی وردی میں بھی وحشی ہیں اور اب استادوں سے بھی ڈر لگنے لگا ہے۔ جانے استاد کے روپ میں کب کون وحشی پن پر اتر آئے! یہ سلسلہ کب اور کیسے رکے گا! وحشت کے اس سونامی پر بند باندھنا ہو گا۔ معاشرے کی ساخت کوئی ایک شے نہیں بناتی۔ نہ ہی صرف تعلیمی نصاب ذہن سازی کرتا ہے ان گنت فیکٹر مل کر ایک معاشرے کے ذہن کو کسی ایک پیرائے میں ڈھالتے ہیں۔ میڈیا کا کردار بھی بے حد اہم ہے۔ آن لائن میڈیا، ویڈیو گیمز جو بچے اور جوان کھیلتے ہیں جس میں سوائے تشدد کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے ٹی وی ڈرامے منفی سوچوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ٹاک شوز اور خبروں کا سنسنی خیز انداز بھی معاشرے میں ہیجان پیدا کرتا ہے۔یہ ایک دن یا ایک سال میں ہونے والا کام نہیں میراتھن جیسی لمبی دوڑ ہے لیکن اگر سمت درست ہو جائے تو بڑی کامیابی ہو گی۔ معاشرہ اس وقت جس ڈگر پر ہے اس کی سمت درست کرنا بے حد ضروری ہے۔ نصاب سے لے کر میڈیا تک خبروں سے لے کر ویڈیو گیمز سیاسی ٹاک شوز تک ہر وہ چیز جو ایک سماج کا ذہن اور رجحان بناتی ہے اسے درست کرنا ہو گا تاکہ پورا معاشرہ کیکٹس میں تبدیل ہونے سے بچ سکے۔