بے ربط کر کے رکھ دیے اس نے حواس بھی جتنا وہ دور لگتا ہے اتنا ہے پاس بھی میں سوچتا ہوں اس کی رسائی کے بعد کا کچھ کچھ میں خوش ہوا ہوں تو کچھ کچھ اداس بھی اس بات میں عجیب ایمائیت ہے کہ ایک گندے انڈے نے سارے انڈے خراب کردیئے یا پھر گندے انڈوں میں اچھا انڈا بھی خراب ہوگیا۔ مسئلہ تو یہ ہے ہی نہیں۔ مسئلہ یا تشویش یہ ہے کہ چوزوں تک نوبت ہی نہیں آئی۔ ہمارے حواس پر مخدوش فردا سوار ہے کہ اب بنے گا کیا۔ یہ ایک انار سو بیمار والے محاورے سے بھی آگے والی بات ہے۔ اچھا ہوا کہ ٹک ٹاک پر پابندی لگ گئی۔ یہ پابندی ٹی وی ٹاک پر بھی لگنی چاہیے کہ پارلیمانی زبان پر بھی۔ مسئلہ تو بداخلاقی اور بے ہودگی کا۔ ایسے لوگ ہر ادارے میں موجود ہیں۔ بعض تو شرم و حیا سے یکسر عاری ہے۔ مزے کی بات یہ کہ ابھی ایک شعر شمیم حنفی کا نظر نواز ہوا: جنہیں قریب کا جگنو نظر نہیں آتا وہ منہمک ہیں ستارے شمار کرنے میں مجھے فوراً پروین شاکر یاد آگئیں کہ انہوں نے کمال کی بات کی تھی جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں۔ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔ بات یوں ہے کہ بھٹو سے لے کر اب تک لوگوں کا شعور کافی ترقی کر چکا ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ان کو حالات نے بے بس کر رکھا ہے وگرنہ وہ نفرت اور غصے سے بھر بیٹھے ہیں۔ انہیں لالی پاپ یا باتوں سے اب بہلایا نہیں جا سکتا۔ عوام بے چارے مہنگائی اور ناگفتہ بہ صورحال میں کراہ رہے ہیں تو خان صاحب۔ پرانا ریکارڈ چلا دیتے ہیں‘ نہیں چھوڑوں گا۔ این آر او نہیں دوں گا وغیرہ وغیرہ۔ بار بار ایک ہی بات سن سن کر ہمارے کان پک چکے ہیں۔ پھر سب بڑا تضاد جناب کی بات میں یہ کہ جو این ٹی ایم تھی وہ پیسہ ہضم اور کھیل ختم کر کے باہر جا بیٹھی ۔ جناب ایسے کب تک ہوگا: کیسے سنبھال پائے گا اپنے تو ماہ وسال کو میں نے اگر جھٹک دیا سر سے ترے خیال کو اک تماشہ اور شعبدہ بازی‘ مہنگائی پر کنٹرول کے لیے ٹائیگر فورس‘ خربوزوں کی نگرنی‘ حضور! پولیس کے ساتھ ساتھ ایک اور فورس ان پر اٹھنے والے اخراجات کہاں سے آئیں گے۔ بھٹو نے بھی اپنے نوجوان جیالوں کے ہاتھ میں کارخانے دے دیئے جو شہتیر تک بھی بیچ گئے۔ جناب مہنگائی ایک مسئلہ ہے جس کی وجوہات کسی سے مخفی نہیں۔ اس کا حل ڈنڈے کے زور پر نہیں ہوگا۔ ایک اور گڑ بڑ شروع ہونے والی ہے۔ مجھے ایک نفیس تاجر عبدالستار نے بتایا کہ کریانے کا کام کرنے والے ایک خوف میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ہر وقت ان پر چیکنگ کی تلوار لٹکنے لگی ہے۔ اشیاء مہنگی ملیں گی تو وہ سستی کیسے بیچی جا سکتی ہیں۔ دکانداروں کی پکڑ دھکڑ میں رشوت کا چل چلائو بھی ہے۔ اب ہوگا کیا آٹا چینی بالکل غائب ہو جائے گی۔ بلیک میں لوگ خریدیں گے: الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ حکومت کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں اور وہ سبھی پرانے حربے آزمانے کے موڈ میں ہے۔ اپوزیشن کے پاس احتجاج کے لیے سب سے بڑا نعرہ مہنگائی ہی ہے جس پر وزیراعظم 12 نوٹس لے چکے ہیں۔ عوام ذخیرہ اندوزوں‘ منافع خوروں اور مافیا کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں۔ اتنی بے سکونی اور غیر یقینی صورتحال کبھی نہ تھی‘ ایسے لگتا ہے جیسے پی ٹی آئی کی جڑیں زمین سے باہر نکل آئی ہیں۔ لطف کی بات کہ یہی بات ن لیگ اس وقت کہہ رہی تھی جب خان صاحب کنٹینر پر چڑھے ہوئے تھے اور چین کے صدر نے دورہ ملتوی کردیا تھا۔ کومل جوئیہ کا ایک خوبصورت شعر لکھ دیتا ہوں: آنکھیں بھری ہوئی تھیں بچھڑتے سمے کوئی کومل کسی کا قہقہہ ماتم لگا مجھے جناب اب رونے دھونے اور دھمکیاں دینے کا وقت نہیں۔ آپ نے جو بویا وہ آپ کو کاٹنا ہوگا۔ حالات بہت بگڑ رہے ہیں۔ مولانا عادل کا کراچی میں قتل اور اس میں استعمال ہونے والا جدید اسلحہ بہت کچھ بتا رہا ہے۔ ایک عالم کی موت پورے عالم کی موت ہے۔ ابتری پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شاہ محمود قریشی رائج جملہ دہرا رہے ہیں کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ دوسری طرف آزادکشمیر کے صدر کو بھی غداروں کی فہرست میں ڈالا جاتا ہے۔ آپ سے کوئی ملزم مجرم ثابت نہیں ہوتا اور مجرم آپ سے پکڑا نہیں جاتا۔ آپ کے سامنے تو کیمرے اور آئینے بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ چلیے آپ کوشش کر دیکھیں کہ لوگ آپ کی باتوں پر یقین کر کے کچھ دن اور نکال لیں: بڑے وسوخ سے دنیا فریب دیتی ہے بڑے خلوص سے ہم بھی فریب کھاتے ہیں ایک اچھے شعر کا تذکرہ ہو جائے کہ دوست اس رویے کی پذیرائی کچھ زیادہ ہی کرتے ہیں۔ یہ شعر پوسٹ پر لگایا تھا نخشبت زہرا نے۔ یہ شاعر رنج و الم یعنی میر کا شعر ہے: شمع خیمہ کوئی زنجیر نہیں ہم سفراں جس کو جانا ہے چلا جائے اجازت کیسی لطف آتا ہے کہ جب شعر اپنے پورے تلازمہ کے ساتھ آتا ہے تو سارا منظر خودہی عیاں ہو جاتا ہے۔ تلمیح بھی یہ بتنی ہے کہ کربلا میں شمع بجھا دی گئی تھی کہ کوئی جاتے وقت کوئی شرمندہ نہ ہو۔ مگر پروانے تو شمع پر مرمٹتے ہیں: نقش قدم پہ اس کے کٹائے گئے ہیں سر اہل وفا نے صدقہ اتارا حسینؓ کا میر کا کہنا تو استاد کا کہنا ہے۔ ایک ہی شعر پہلو وار بھی ہوتا ہے اورشعریت سے مالا مال۔ اس نے یونہی تو نہیں کہہ دیا تھا: سارے عالم پہ ہوں میں چھایا ہوا مستند ہے میرا فرمایا ہوا چلیے اس بات پر کالم ختم کرتے ہیں کہ حکومت مہنگائی کے خلاف جنگ کر رہی ہے مگر اس کے راہ میں مشکل یہ ہے کہ لوگوں کی جیبوں سے آئی ایم ایف کے لیے پیسے بھی نکلوانے ہیں ۔ دیکھتے ہیں کہ وہ نہر سے نہا کر سوکھے کیسے نکلتے ہیں اور بغیر ہلے جلے آٹا گوندھ کر دکھانا ہے بلکہ بغیر پیڑے کے روٹی بنانی ہے۔