ایک زمانے تک ’’شبِ رفتہ‘‘ کا نام آتے ہی مجید امجدکے باکمال شعری مجموعے کی طرف ہی دھیان جاتا تھا لیکن دو ایک سال قبل محترمہ پروین عاطف کی ناول کے انداز میں لکھی آپ بیتی بھی اسی عنوان سے منظر عام پر آ چکی ہے۔ شاید انھیں بھی اپنی گزری ہوئی زندگی اور بیان کردہ ملکی و سیاسی حالات کے لیے اس سے بہتر عنوان نہیں سوجھ سکا۔ معروف افسانہ نگارجناب مظہر الاسلام نے ہمیں اپنی افسانوی دنیا گڑیا کی آنکھ سے دکھانے کی کوشش کی تھی، ہم اپنی حقیقی سیاسی و ملکی زندگی آپ کو ایک تجربہ کار خاتون کی آنکھ سے دکھانے کی سعی کرتے ہیں۔ محترمہ پروین عاطف کا تعلق ایک معروف علمی ادبی گھرانے سے تھا، وہ احمد بشیر کی بہن، نیلم احمد بشیر اور بشریٰ انصاری کی پھوپھی، بقولِ خود ممتاز مفتی کی چیلی اور بریگیڈیئر عاطف کی بیوی تھیں۔ بڑے بڑے لوگوں کی محافل میں جانے اور انھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے پاکستان کے مختلف سیاست دانوں کو کس آنکھ سے دیکھا ہے، اس کتاب میں اپنی ذاتی زندگی بیان کرتے کرتے پاکستان اور یہاں کے سیاست دانوں پر ان کے تبصروں سے ایک ملکی تاریخ مرتب ہوتی چلی گئی ہے۔ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا لیکن تمام لیڈران کو انھوں نے ایک محبِ وطن پاکستانی کی آنکھ سے دیکھا ہے، ملاحظہ کیجیے… آنکھیں میری باقی اُن کا۔ ’’قائدِ اعظم کا پاکستان بننے کے فوراً بعد بستر سے اُٹھنا بھی محال تھا۔پھر بھی فولادی ارادوں کے مالک اس شخص نے نوزائیدہ پاکستان کے لیے شب و روز کام کیا۔ قائدِ اعظم ایک مخلص، محنتی، سچے کھرے وکیل تھے۔ سیاسی شطرنج کے مہرے کس مخصوص عیاری سے کھیلے جاتے ہیں ، اس کے بارے میں ان کا تجربہ بالکل خام تھا۔ جو وڈیرے اور سردار جناح کے ہم سفر تھے، وہ ان کے ساتھ صرف اور صرف اس لیے چل رہے تھے کہ وہ اپنی جاگیریں محفوظ کر سکیں اور اقتدار پر قبضہ جما لیں۔ ہجرت کر کے ہندوستان سے پاکستان آنے والے کئی لوگ قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم کے نام سے پکارتے تھے… آخری انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن، نہرو کا قریبی دوست تھا اور تاریخی شواہد موجود ہیں کہ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی ایڈوینا اور کانگرس کے طاقتور لیڈر پنڈت نہرو کے درمیان عشق و محبت کی مضبوط گرہ بندھ چکی تھی۔ ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں کی چھینا جھپٹی کے ساتھ ساتھ باقی مواقع سے فائدہ اٹھانے کی چوہا دوڑ بھی تیزی سے شروع تھی۔ کاروباری لائسنسوں، ایجنسیوں کے حصول کی خاطر لوگ بیویاں تک داؤ پر لگانے کو تیار تھے… وزیرِ اعظم لیاقت علی خاں کو راولپنڈی جلسے میں کسی کرائے کے قاتل نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ شاہی ایوانوں میں کرسیوں کی چھینا جھپٹی کی سازشیں زوروں پر تھیں … مفلوج عمر رسیدہ گورنر جنرل غلام محمد نے اپنی گوری محبوبہ نوجوان روتھ کو ملکۂ معظمہ کا درجہ دے رکھا تھا اور پاکستان کی اہم پالیسیاں وہ اکثر روتھ اور اس کی ماں کے مشورے سے بناتا تھا …کہانیوں میں کہانی خود بیگم سکندر مرزا کی بھی تھی جو پاکستان کے جانے مانے سمگلروں کے لیے خاصا نرم گوشہ رکھتی تھی۔ جنرل ایوب نے ملک میں صنعتوں کی بنیاد ڈالی لیکن اس میں ان کے بیٹے کی گندھارا انڈسٹریز نے کرپشن کی داستانیں رقم کیں … پاکستان کے ایک جانے مانے سیاست دان ، پاکستان بننے کے بعد روز مرہ کا کاروبار شروع کیا اور بلیک مارکیٹنگ کے ذریعے اتنا روپیہ کمایا کہ جس کے بل بوتے پر ان کی آنے والی نسلیں پاکستان پر راج کرنے لگیں… بنگالیوں کا احساسِ محرومی بنیادی طور پر مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی خود غرضانہ پالیسیوں کی دین تھا۔ ہندوستان نے جلتی پر تیل ڈالنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستانیوں کی آزادی کی آواز بن کر ابھرا۔ پرائم منسٹر کی کرسی مجیب الرحمن کی منتظر تھی لیکن ذوالفقار علی بھٹو جو حالات کے مطابق اپوزیشن لیڈر بن سکتا تھا، اسمبلی بننے نہیں دیتا تھا … صدر یحییٰ خان ایک اوباش اور سیاست سے ناواقف جرنیل تھا۔ ضیا الحق کا باپ پاکستان بننے سے پہلے جالندھر کی کسی مسجد کا کم خواندہ مولوی تھا۔ ضیا کی سوچ اور سائیکی بھی ایک معمولی مولوی سے ملتی جلتی تھی۔ وہ پرانے زمانے کے مطلق العنان بادشاہوں کی طرح حکومت کرتا تھا … جاپان میں ایشیائی خواتین کا ہاکی ٹورنامنٹ منعقد کیا جا رہا تھا۔سپورٹس منسٹری سے نو ابجیکشن سرٹیفکیٹ بھی حاصل کر لیا۔ لڑکیوں نے پانچ ماہ تک تربیتی کیمپ میں بے حد محنت کی۔روانگی والے دن جب تمام لڑکیاں میرے گھر جمع تھیں کہ مذہبی امور کی منسٹری سے ڈپٹی ڈائریکٹر تشریف لائے اور کہا کہ جماعت اسلامی کے میاں طفیل نے صدر ضیا کو فون کیا کہ اگر ٹیم جائے گی تو جماعت اسلامی مزاحمتی ریلیاں نکالے گی۔ اس لیے ہاکی ٹیم کا این او سی کینسل کر دیا گیا ہے۔ قوم کے لیے بے نظیر ۱۹۸۸ء میں بھٹو کا پیغام بن کر آئی تھی لیکن اپنے ساتھ جو شریکِ حیات لے کر آئی تھی۔ اسے ملک و قوم کی بہبود سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بی بی نے وزیرِ اعظم بننے کے بعد اپنے شوہر کو انوسٹ منٹ کا وزیر لگا دیا تھا، یعنی صرف دولت کھرچنے کی کان ۔ جب بی بی اور زرداری میاں بیوی کی کرپشن کی دھومیں مچ گئیں تو صدر غلام اسحاق خاں نے اسے وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کر دیا … غلام اسحاق ایک نک چڑھا بیوروکریٹ تھا … صدر لغاری پیپلز پارٹی کا پرانا وفادار تھا، اس نے زرداری کی کرپشن پر بی بی کو کئی بار خبردار کیا۔ اس نے لندن میں سرے محل کے نام سے ایک محل خریدا، جس کے لیے وہ پاکستان سے نوادرات کا ایک بحری جہاز بھر کر لے گئی تھی ۔ نواز شریف دو بار وزیرِ اعظم بنا ، اس نے بھی گھسے پٹے نظام میں کوئی انقلابی تبدیلی لانے کی کوشش نہ کی … شریف برادران بہت بڑے تاجر تھے ، وہ ان گنت دولت ملک سے باہر بھیجتے رہے ، لندن میں کافی قیمتی جائیداد بھی خریدی۔ جنرل پرویز مشرف نے شریف برادران کو اقتدار سے بے دخل کر دیا… مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی دو کمزور اور کوتاہ اندیش جرنیل تھے … زرداری نے حسبِ سابق اپنے دورِ حکومت میں قومی ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کیا اور جی بھر کے لُوٹ مچائی …سی این این ٹی وی پر پاکستانی وزیرِ اعظم اور اس کے شوہر کے شاہی مشاغل پہ بنی فلم ’’پرنسز اینڈ دی پلے بوائے‘‘ میں دکھایا گیا کہ اس کے شوہر کا لاڈلا گھوڑا شاہی دستر خوان پہ ان کے قریبی دوستوں کے ساتھ سلاد اور مربعے کھا رہا ہے اور ان کے مشیر ٹشو پیپر کی جگہ ہزار ہزار کے نوٹ استعمال کر رہے ہیں… راحیل شریف ایک اعلیٰ ظرف ، شریف النفس ، بہادر اور محبِ وطن جرنیل ہے۔ بیرونِ ملک مقیم میری ایک سہیلی نے بتایا کہ میرے جوائنٹ سیکرٹری والد کے کولیگ کا بیٹا مین ہٹن میں پیزا ڈلیور کرنے کی ملازمت پر متعین تھا اور بیرونی ممالک میں پاکستانی حاکموں کے ڈالر اکاؤنٹوں کے پیٹ حاملہ عورتوں کی طرح بڑھ رہے تھے۔‘‘