معزز قارئین!۔ 10 جولائی کو کراچی میں وزیراعظم عمران خان سے تاجروں کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوگئی تھی ، کیونکہ وزیراعظم نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردِیا تھا کہ ’’ 50 ہزار روپے سے زیادہ کی خریدو فروخت پر’’ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ‘‘ کی شرط ختم کردِی جائے!‘‘۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’’ تاجروں کو بھی ٹیکس کی ادائیگی قوم کے دوسرے طبقے کو ساز دینا ہوگا ، کیونکہ قومی معیشت پرانے طریقے سے نہیں چلائی جائے گی‘‘۔ وزیراعظم کے اِس فیصلہ پر شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے کے لئے ہڑتال / ہڑتالوں کے منصوبے ہیں لیکن، وفاقی حکومت بھی تو ہاتھ پر ہاتھ باندھ کر نہیں بیٹھی؟۔ 12 جولائی کو کراچی میں میڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے چیئرمین ’’ ایف۔ بی۔ آر‘‘ (Federal Board of Revenue) جناب شبر زیدی نے کہا کہ ’’ ہم (حکمران طبقہ مسائل حل کرنا چاہتا ہے ورنہ اللہ مالک ہے؟‘‘۔ اللہ تو سب کا مالک ہے شبر زیدی جی ! لیکن، جس طبقے کو اللہ تعالیٰ نے حکومت (کی طاقت) دِی ہے وہ مملکت خدا دادِ پاکستان کو درست کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی بے آواز لاٹھی کو کب حرکت میں لائیں گے؟۔ شناختی کارڈ / پاسپورٹ؟ 11 جولائی کے قومی اخبارات میں شائع ہونے والی یہ خبر بھی بہت اہم ہے کہ ’’ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے کنوینر نور عالم خان نے ہدایت کی ہے کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے اجراء میں "I.S.I" (Inter-Services Intelligence) اور "M.I" (Military intelligence) سے کلیئرنس لازمی لی جائے، کیونکہ افغان مہاجرین یا پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر دنیا بھر میں دہشت گردی و دیگر سنگین جرائم کر کے پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں ‘‘۔ اِس وقت نہ صِرف پاکستان کے ہر شہری کا قومی شاختی کارڈ اور پاسپورٹ مشکوک ہے بلکہ یہ خطرہ بھی ہے کہ ’’ اگر آئندہ "I.S.I" اور "M.I" سے "Clearance" کے بغیر جتنے بھی قومی شناختی کارڈز اور پاسپورٹس جاری کئے جائیں گے ، وہ نہ صِرف مشکوک بلکہ قومی مفادکے منافی ہوں گے ؟‘‘۔ اُن کی "Bona Fides"کی کون تصدیق کرے گا؟۔ دراصل قومی شناختی کارڈز اور پاسپورٹس کسی ملک کی ’’مردم شماری‘‘ (Census) کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں ۔اُن دِنوں میاں نواز شریف وزیراعظم تھے ، جب یکم دسمبر 2016ء کو ملک میں مردم شماری میں تاخیر سے متعلق سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ کے سربراہ کی حیثیت سے ( اُن دِنوں) چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’’ جمہوری نظام کا دارومدار مردم شماری پر ہے ۔ مردم شماری نہ کرا کے پورے ملک سے مذاق کِیا جا رہا ہے ۔ حکومت کی نیت ہی نہیں ہے ۔ ساری سیاسی جماعتوں کے لئے "Status Quo"( جوں کے توں حالات ) ۔ اطمینان بخش ہیں‘‘۔ معزز قارئین!۔ چیف جسٹس صاحب نے اپنے ریمارکس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب اُشتر اوصاف سے کہا کہ ’’ 7 دسمبر تک مردم شماری سے متعلق وزیراعظم ( میاں نواز شریف ) کا دستخط شدہ شیڈول عدالت میں پیش کریں ورنہ وزیراعظم صاحب کو عدالت ( سپریم کورٹ ) میں "Summon"کِیا جائے گا ‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے حکومت کو 15 مارچ سے 15 مئی 2017ء تک (صِرف 2 ماہ میں مردم شماری کرانے کا حکم دِیا تھا ) ۔ اِس پر 13 دسمبر 2016ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرا کالم ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کے اِن شعروں سے سجا تھا کہ … جائیں گے گھر گھر، بہت ہی ہو گی‘خواری،ہائے، ہائے! عین ممکن ہے ،بنے دُرگت ہماری،ہائے،ہائے! اور اگر، لگ جائے کوئی،زخم کاری ،ہائے، ہائے! کِس طرح؟کیسے کریں؟مَردم شماری‘ہائے‘ہائے! کالعدم ہونے سے پہلے مجھے 1986ء اور 1988ء میں دو بار سوویت یونین کی سرکاری ایجنسی "Novosty Press Agency" ( A.P.N) کی طرف سے سوویت یونین کی چار ریاستوں میں مدعو کِیا گیا تھا ۔ مجھے کئی نشستوں میں "A.P.N" کے اعلیٰ افسروں نے انگریزی لفظ "Demography" کا مطلب بتایا۔ یعنی۔ ’’پیدائش ، اموات ، امراض وغیرہ کے اعداد و شمار کا مطالعہ ، جس سے معاشرتی حل کو، طبقوں وغیرہ میں بودو باش کی کیفیت معلوم کی جاسکے۔ مطالعۂ جمہور یا جمہور نگاری‘‘۔ یہ میرے لئے ایک دلچسپ مضمون تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ ۔ ’’ سوویت یونین ہرریاست کے شہری (لڑکا / لڑکی) کا 16 سال کی عُمر میں "Passport" بنا دِیا جاتا ہے ۔ پاسپورٹ پر اُس شخص کا نام ، ولدیت ، خاندانی نام ، تاریخ پیدائش ، مقامِ پیدائش اور پتہ درج ہوتا ہے اور تصدیق شدہ تصویر بھی ۔ 25 سال کی عُمر میں ہر شخص کے پاسپورٹ کے اگلے صفحات پر نئی تصویر چسپاں کردی جاتی ہے۔ اگر اُس کا پتہ تبدیل ہوگیا ہو تو نیا پتہ، اگر اُس نے شادی کرلی ہو تو بیوی / خاوند کا نام ۔ اُس کے والد کا نام ، خاندانی نام، تاریخِ پیدائش، مقامِ پیدائش ، اُس شخص کے پاسپورٹ پر اُس کی بیوی / خاوند کے پاسپورٹ کی تفصیلات بھی درج ہوتی ہیں ‘‘۔معزز قارئین !۔ مارچ 1988ء کو مَیں نے اپنے دورۂ سوویت یونین ، مختلف اصحاب سے مذاکرات ، مکالمات اور اپنے تجربات کی روشنی میں ’’دوستی کا سفر ‘‘ کے عنوان سے اردو میں 192 صفحات کی کتاب لکھی جس کا ایک باب تھا ’’شناخت نامہ ‘‘ ۔ اِس باب میں مَیں نے سوویت یونین کے اکابرین کی طرف سے اُس کی تمام ریاستوں میں مروجہ "Demography" کے کمالات کی روشنی سے اپنے پیارے پاکستان کے اکابرین کی خدمت میں درخوات پیش کی تھی کہ ’’ جب حدیث رسول ؐ مقبول کے مطابق ’’ حکمت مومن کی میراث ہے ‘‘ ۔ تو پاکستان میں جب بھی نئی مردم شماری ہو تو اُس میں "Demography" کے حساب سے مردم شماری کیوں نہ کی جائے؟۔ یہ میری خوش قسمتی تھی / ہے کہ ’’ تحریک پاکستان کے ، (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن چاچا غلام نبی بختاوری کے فرزند ، میرے دوست ’’ چیئرمین پاکستان کلچرل فورم‘‘ اسلام آباد برادرِ عزیز ظفر بختاوری نے اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ کے زیر اہتمام ’’ دوستی کا سفر ‘‘ کی رسم رونمائی کی ۔ سوویت سفارت خانے میں میڈیا چیف "Mr. Alexander Khachikyan" کے تعاون سے ظفر بختاوری نے میری کتاب کا "Brochure" اردو ، انگریزی اور روسی زبان میں شائع کِیا۔ تقریب کے صدر جناب محمد حنیف رامے کے علاوہ مولانا کوثر نیازی، مشاہد حسین سیّد اور میرے شاگردِ رشید سیّد سلیم بخاری (موجودہ ایڈیٹر "The Nation" )نے خطاب کِیا۔ مہمانِ خصوصی پاکستان میں سوویت یونین کے سفیر "Excellency Abdurrahman Khalil oglu Vazirov" نے مجھے ’’ دوستی کا قلم ‘‘ (Pen of the Friendship) پیش کِیا۔ برادرِ عزیز ظفر بختاوری نے میری دو دوسری کتابوںکی رسم رونمائی کا بھی اہتمام کِیا اور خُود ہی اخراجات برداشت کئے ۔ مَیں نے بھی "Brotherly Barter System" کے مطابق اُن سے بھی کوئی "Royalty" وصول نہیںکی۔مجھے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ۔ ’’ جب کوئی سوویت شہری 45 سال کا ہو جاتا/ جاتی ہے تو اُس کے اگلے صفحات پر اُس کی تصویر لگا دی جاتی ہے ۔ 25 سے 45 سال تک کی عُمر کے دوران اُس کے پاسپورٹ کے اگلے صفحات پر طلاق، نئی شادی ، بچوں کی پیدائش یا پتے کی تبدیلی ہو چکی ہو تو اُس کی تفصیلات بھی درج کر دی جاتی ہیں۔ 45 سال کی عُمر کے شخص کی اُس کے پاسپورٹ پر اُس کی نئی تصویر نہیں لگائی جاتی ‘‘۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ۔ ’’ اگر کسی شخص کا پاسپورٹ گُم ہو جائے اُس کی سخت سر زنش کی جاتی ہے اور جرمانہ کر کے نیا پاسپورٹ بنا دِیا جاتا ہے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ یہ درست ہے کہ ’’ پاکستان ایٹمی قوت ہے لیکن، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’’ پاکستان کے 60 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ’’اگر تاجروں ؔ، سوداگروںؔ یا اپنی مرضی کے مالک ، سرمایہ داروں کو اتنا آزاد کردِیا جائے کہ وہ 50 ہزار سے زیادہ خریدو فروخت کے لئے اپنے شناختی کارڈز پیش نہ کرنے پر اصرار کریں تو، کیوں نہ اُن کے نکاح ناموں کی پڑتال کی جائے؟ لیکن اِس طرح کی جانچ پڑتال تووہی لوگ کریں گے جو اپنا شناختی کارڈ اور نکاح نامہ دکھانے میں نہ ہچکچائیں اور نہ شرمائیں؟۔