انسانیت کی ابتدا سے انتہا تک کروڑوں، اربوں انسان کرّہ ارض پر نمودار ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ ان میں سینکڑوں ایسے ہونگے جنہوں نے اپنی خداداد سیاسی، سماجی، عسکری اور معاشی صلاحیتوں کی بنا پر نسل انسانی پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ مگر اس پوری کائنات میں صرف ایک ہستی ایسی آئی کہ جو بے مثل ہے جس نے انتہائی نا مساعد حالات میں کفر و شرک، بت پرستی اور الحاد کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں آنکھ کھولی۔ انسانیت کی تذلیل، اخلاق و کردار کی پستی، گمراہی اور تنزلّی کی آخری حدود کو چھوتے ہوئے معاشرہ میں سیدنا محمّد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق و کردار ، عفو و درگزر، سخاوت، بصیرت، لیڈرانہ صلاحیتوں، ایک کامیاب سپہ سالار، ایک اعلٰی سفارت کار اور اور حْسن اخلاق کے اعلٰی اْصولوں کے بل بوتے پر دْنیا کا نقشہ بدل دیا۔ تاریخِ انسانی کسی دیگر شخصیت کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے جو ہمارے آقا و مولٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف 23 سال کے قلیل عرصہ میں پیش کی۔ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی الہامی کتاب ہے۔ جو عرصہ 23 سال تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف اوقات میں نازل ہوتی رہی۔ قرآن پاک میں زندگی کے گنجلک مسائل کے حل نہایت احسن طریقہ سے بیان کیے گئے ہیں۔ یہ منبع ہدایت بھی ہے اور دنیاوی اور اْخروی کامیابی کی ضمانت بھی۔ اللہ تعالٰی نے اس کتاب میں جہاں عبادات، معاملات، توحید و رسالت، آخرت، معاشرت، معیشت اور دیگر بے شمار معاملات کو بیان کیا ہے وہیں اپنے محبوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام بیان کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ قرآن کے بغور مطالعہ سے یہ بات پوری طرح مترشح ہوتی ہے کہ قرآن دیگر معاملات کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بھی ہے اور صفات بھی بیان کرتا جاتا ہے۔ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزّمل اور مدّثر کے نام سے پکارا گیا، کہیں یٰس اور طٰہ سے، کہیں سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا کہ ’’پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو رات کے قلیل حصّہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک۔‘‘ مقامِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کی روشنی میں جائزہ لیتے ہوئے جب ہم قرآنی آیات پر غور و فکر کرتے ہیں تو عیاں ہوتا ہے کہ لوگوں کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنا بھی اللہ تعالٰی کو پسند نہ ہے۔ اور پھر حجروں کے باہر سے بلند آواز سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانا اللہ تعالٰی کو سخت ناگوار گزرتا ہے۔ حوالہ کے لیے سورۃ الحجرات۔ پھر سورۃ توبہ میں فرمایا کہ جو چیز تمارے لیے تکلیف دہ ہے۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی گراں گزرتی ہے اور وہ تمہاری فلاح کے حریص ہیں اور اہل ایمان کے لیے بڑے مہربان اور رحیم ہیں۔ سورۃ الااحزاب میں فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہ ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیّن صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ساری دْنیا کے خزانوں کی کْنجیاں اْنکے پاس ہیں۔ وہ وجہ تخلیقِ کائنات ہیں۔ وہ سردار الانبیا ہیں۔ ختم الرسل ہیں۔ خوش خبری سنانے والے اور شافع روزِ محشر ہیں۔ مگر اْنہوں نے دنیا اور دنیا کی متاع فانی کو اپنے دامنِ استغنا سے گرد کی طرح جھاڑ دیا ہے۔ توّکل اور قناعت ہی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ عوام کا جمّ غفیر ہو یا کنج عزلت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی صاف، شفاف آئینہ کی مانند چمک اور دھمک رہی ہے۔ چالیس سال تک مکّہ کی سرزمین میں جو کفر و الحاد کا گڑھ تھی وہاں ہر قسم کی آلائشوں سے بچتے ہوئے زندگی گزاری اور پھر جب نبوت کا اعلان کیا تو قرآن کے الفاظ میں کہ میں تم میں ایک عرصہ گزار چکا ہوں کیا تم نہیں جانتے کہ میرا کردار کیسا تھا۔ کسی ایک طرف سے بھی اس اعلٰی اور ارفع کردار پر اْنگلی نہیں اْٹھتی۔ بلکہ ہر شخص یہ اقرار کرنے پر مجبور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کے اعلان سے قبل بھی لوگ صادق اور امین کے القاب سے جانتے تھے. یہ تھی وہ اخلاق و کردار کی طاقت جو اصل فرق تھا اْس بت پرست اور کفر و الحاد پر مبنی معاشرہ میں جو اپنی پوری جولانیوں اور تابانیوں سے جلوہ افروز ہوا اور جس نے چند برسوں میں ہی پوری انسانیت کی کایہ پلٹ دی۔ یہ وہی سرزمین عرب تھی کہ جس کے لوگ شرک، جاہلانہ تقلید اور آبا پرستی میں اپنی الگ شناخت رکھتے تھے اور جو بغض و عناد، انا پرستی اور غفلت و بیہودگی کی ساری حدود سے گزر چکے تھے۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثل جدّوجہد کی بدولت عرب کی سر زمین ایک نئی کروٹ لیکر اْٹھی اور اْسی کعبہ کو جس میں سینکڑوں چھوٹے بڑے بت پرستش کے لیے موجود رہتے تھے اْسے توحید کا مرکز بنا کر قیامت تک کے آنیوالے مسلمانوں کیلئے عبادت، ریاضت اور عقیدت و محبت کا ابدی ٹھکانہ بنا دیا۔ بلاشبہ تاریخ انسانی نے وسائل کی کمیابی، مظلوم و محکوم لوگوں کی قلیل تعداد کے ساتھ حضرت محمّد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کو عزمِ صمیم اور اللہ تعالٰی کی مدد و نصرت پر کامل یقین کے ساتھ ایک جْہد مسلسل کرتے ہوئے یاس و قنوط کے اندھیروں میں توحید کی وہ ابدی شمع فروزاں کرتے دیکھا کہ دنیا شششدر رہ گئی۔ احترام مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات اور اجر قرآن پاک کی سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 3 میں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے ان لوگوں کے لیے جو احترام مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال رکھتے ہیں یہ خوش خبری سنائی کہ احترام کرنے والوں کے دلوں کو تقویٰ کا عادی بنا دیا جاتا ہے۔ دوسرا احسان یہ ہے کہ اْن سے اگر کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے تو ہم بخش دیتے ہیں۔ اور تیسرا یہ کہ اْنہیں ہم اجر عظیم سے بہرہ ور کر دیتے ہیں۔ مقام مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم اور احترام مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم میں اتنی لذّت، اتنی شرینی، اتنی لطافت و نزاکت ہے کہ اگر کوئی یہ پا گیا تو اْسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل گئی۔ اس میں کوئی بحث نہیں کہ قیامت قائم ہونے کے بعد میدان حشر میں تمام دْنیاوی رشتے ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔ جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہو گا۔ تو ایسے میں صرف نبی اکرم ﷺ کے لطف و عنایت، اْنکی شفقت اور شفاعت اور اْنکی آل اور اہل بیت سے محبت و عقیدت ہی سرخروئی کا باعث ہو گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت سے منکر ہو کر یا آپ کے صحیح مقام و مرتبہ سے انکاری ہو کر اور اہل بیت سے بغض و عناد رکھ کر محشر میں سرخروئی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ مقام مصطفٰےﷺ کو ٹھیک تناظر میں سمجھنے کے لیے مختصراً یہ کہنا کافی ہے کہ جنت کو جانے والے سارے راستے مدینہ شریف سے ہو کر گزرتے ہیں۔