عالم کفر کو سانپ سونگھ گیا ہے بظاہر تو ایسا ہی نظر آتا ہے‘ لیکن حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایک بڑے جمود کے بعد فطرت اپنا متحرک پیغام دلوںمیں اتارتی ہے۔ جذبات بلند ترین سطح پر پہنچ کر آخری اور حتمی فیصلوں کا اعلان کرتے ہیں۔ مسلمان بہرحال مسلمان ہوتا ہے تاریخ آزماتی ہے۔ حالات اس کی زندہ حیثیت کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اور پھر اس مسلمان کا اندر والا مسلمان جاگتا ہے۔ تاریخ کی آزمائشی گھڑی میں وہ اپنے بندھنوں کو توڑ کر برسر پیکار ہوتا ہے تاریخ رقم ہوتی ہے اور عالم کفر اپنی جملہ نحوستوں سمیت ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے اس کا مسلمان کو نابود کرنے کا منصوبہ دم توڑ جاتا ہے۔ اب کشمیر کے ساتھ جو عالم کفر نے کیا، بتیس روز سے اپنے پرائے سب دیکھ رہے ہیں۔ وہ تاریخ کے مظلوم اپنی مظلومانہ حیثیت سے پوری دنیائے انسانیت کو ان کے سچے جھوٹے دعوے یاد کروا رہے ہیں۔ وہ حقیقت پر مبنی اپنی فریاد کو پوری دنیا کے سامنے رکھ رہے ہیں، دنیائے یورپ کو وہ شخصی و ملکی آزادی اور انسانی حریت کے نعروں کو جگانے میں کسی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں۔ کچھ عوام جاگتے ہیں حکمران چوکنا ہوتے ہیں لیکن ان لوگوں کی اسلام سے باطنی بغض کی بیماری پھر سے ان کے ضمیر کو تھپتھپا کر سلا دیتی ہے۔ کشمیر میں مظلومیت اور جبر و قہر کی غیر انسانی حرکات پر اکیلے پاکستان نے پوری شد و مد سے اپنے مسلمان برادر ممالک کو جگانے کی سرتوڑ کوشش کی، پھر حالات میں سرد مہری بڑھتی گئی، حالات روز بروز نئی کروٹ لیتے رہے۔ چین کی مدد سے سلامتی کونسل تک پہنچے۔ لیکن یہ ایک مجلس تھی اور پھر برخاست ہوئی۔ مظلوموں کے لئے عملی مدد اور کسی اقدام کے لئے کوئی تجویز‘ کوئی فیصلہ اور کوئی نئی حوصلہ افزا خبر برآمد نہیں ہوئی۔ ہمارے وزیر اعظم اور ہمارے کارکنان حکومت اپنی تمامتر صلاحیتوں سے کشمیر پر مشرکانہ قبضے اور نہتے مسلمانوں پر بدترین تشدد پر بین الاقوامی برادری کو جگانے کے لئے پوری طرح سے فعال رہتے ہیں اور وزیر اعظم پوری ہمت اور صلاحیت سے روزانہ کی بنیاد پر کشمیری مسئلہ پر اپنے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے بیانات بہت حوصلہ افزا ہوتے ہیں ان کی نیت تمام شکوک سے بالاتر ہے اور ان کی دلیرانہ قیادت نے پاکستانی عوام اور مظلوم کشمیریوں کو ولولہ تازہ بخشا ہے۔ یہ سب درست ہے‘ لیکن کچھ اور اہم ذمہ داریاں اپنی جگہ ایک حقیقت کا تقاضا رکھتی ہیں۔ سب سے اہم کام ملک کی تمام سیاسی قوتوںکو یکجا کرنے کے بعد عوام میں ایک یقینی اور غیر متزلزل عزم اور ارادے میں استحکام پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے موقر کالم نگاران نے اگرچہ کسی بھی سیاسی یا گروہی پس منظر میں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے کہ حکومت اپوزیشن کو پوری طرح سے اعتماد میں لے اور یہ بات بہت زیادہ اہم ہے کہ ہماری بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنما اپنی سیاسی گروہ بندی یا وہ اپنے قومی جماعتی اغراض کی بنا پر کچھ مختلف موقف اپنائے ہوتے ہیں۔ اس سے قومی اتحاد میں ایک رخنہ سا نظر آتا ہے۔ ایسے کمزور حالات میں داخلی محاذ کو ایک سد راہ بنانے کے لئے جناب وزیر اعظم کو ایک بڑے حوصلے کا دروازہ کھولنے کی ضرورت ہے۔ اور وہ قومی اتحاد کو وسیع کرنے کے لئے اپنے اردگرد کے واقفان احوال مدبرین کو یہ ذمہ داری سونپ دیں کہ وہ حزب اختلاف کے محب وطن‘ زندہ ضمیر اور غیر مشتعل مزاج افراد سے رابطہ کریں اور ملک کی گھمبیر صورتحال ان پر سے ہر پہلو واضح کرتے ہوئے کشمیر مسئلہ پر یکجہتی کے لیے آمادہ کریں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ملک کی نمائندہ مذہبی قیادتوں سے وزیر اعظم ایک بڑی سطح پر رابطہ کریں اور ان کے ساتھ ایک مشاورتی اجلاس کریں۔ جس اجلاس کا ایجنڈا پورے ملک میں مذہبی یکجہتی اور کشمیر پر عوام میں مذہبی جذبات کی بیداری ہو۔ ہمارے ملک میں بہت سی ایسی مذہبی شخصیات بھی ہیں جن کا براہ راست کثیر العدد مذہبی طبقے سے ہر وقت رہتا ہے۔ وہ خانقاہوں کے وہ سجادہ نشین حضرات ہیں۔جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان اور امت مسلمہ کے مسائل پر اپنے پیرو کاروں کو بیدار رکھتے ہیں۔ پاک فوج کی عملی معاونت کرتے ہیں اور پاکستان کی آزادی و بقا کے فروغ کے لئے ہمہ تن‘ ہمہ وقت متعدد رہتے ہیں۔ اعلیٰ حکومتی وفود خانقاہوں کا ہنگامی دورہ کر کے داخلی بیداری میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ عوام اپنے جان و مال سے اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کی مدد پر آمادہ رہتے ہیں۔ ان کی اس آمادگی کو نجی اور سرکاری سطح پر پر منظم کیا جائے۔1965ء کے جہادی حالات میں جگہ جگہ مالی امداد کے لئے بکس رکھے گئے تھے جس پر تحریر تھا کہ ایک پیسے میں دو ٹینک۔ وہ جذبہ جاریہ تھا اور عوام دفاع وطن کے لئے مغلوب الحال ہو چکے تھے اور ہر بچہ حقیقی طور پر کٹ مرنے کا جذبہ لئے اپنی جان مجاہدین کی امانت سمجھتا تھا۔ پاک فوج اپنے اقدامات کو احسن طریقے پر سمجھتی ہے اور اپنی عقابی نگاہوں سے دشمن کے ہر گدھ کو مارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن عوام کے مچلتے ایمانی جذبات تو اسی میں ہیں کہ روزانہ سرحدوں پر بھارتی گولہ باری کا کسی محاذ پر جارحانہ جواب ضرور دیا جائے۔پاکستان کے عوام نے بغیر کسی مذہبی و سیاسی تفریق کے فوج کے قدموں سے اپنے قدم جوڑے ہوئے ہیں۔بس پاکستانی سرکاری و سیاسی قیادت وسیع حوصلے سے اندرونی قومی اتحاد کی جانب عملی اقدام کرے۔