پہلا منظر یہ ایک ریسٹورنٹ ہے اسلام آباد کا۔ سہ پہر کا وقت ہے۔ دو جرنلسٹ ایک میز پر کافی پی رہے ہیں۔ ہال یخ بستہ ہے مگر اکا دکا میزوں پر لوگ موجود ہیں۔ یہ جرنلسٹ ریگولر آنے والوں میں سے ہیں۔ سیاسی گفتگو کا محور و مرکز ان ہی کی میز ہوتی ہے۔ اس دن بھی معمول کے مطابق وہ عمران خان کے اس ٹی وی پروگرام کی بات کررہے ہیں جس میں ان کا اور ان کی معاشی ٹیم کا بزنس کمیونٹی سے مکالمہ ہوا۔ ان پیشہ ور صحافیوں میں سے ایک صاحب الیکٹرونک میڈیا پر اکانومی پر پروگرام کرتے ہیں۔ پولیٹیکل اکانومی پر۔ گفتگو جاری ہے کہ اچانک ریسٹورنٹ کا مالک جو ان صحافیوں کو جانتا ہے ان کی میز پر آجاتا ہے۔ صحافیوں کا اور مالک کا مکالمہ کچھ یوں ہوتا ہے۔ صحافی: جی احمد صاحب کیسے ہیں آپ؟ ریسٹورنٹ ٹھیک چل رہا ہے۔ مالک: جی وہی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ’’کیا‘‘؟ جی بڑے برے حال ہیں … کیسے؟ جی سیل گر گئی ہے۔ کتنی گری ہے؟ جی پہلے 700,000 تھی اور اب 300,000 تک آگئی ہے۔ کچھ دیر بات کرکے چلا گیا۔ جب ایک صحافی کافی کا بل ادا کر رہا تھا تو اچانک اس نے ویٹر کو بل دیتے ہوئے سوال کر ڈالا۔ تمہاری آمدنی پر تو کوئی اثر نہیں پڑا ناں؟ ویٹر نے ڈپریس چہرے کے ساتھ خاصا مایوس کن جواب دیا۔ جی پہلے ایک دن میں ہزار سے سے 1100 روپے تک ٹپ رات گئے تک اکٹھی ہوجاتی تھی۔ اور اب؟ جی اب بمشکل 500 ہی بن پاتی ہے۔ دوسرا منظر ایک نیوز چینل کا نوجوان پروڈیوسر ہے جس کا نام امجد طے کرلیتے ہیں۔ وہ ایک تعلیم یافتہ پروفیشنل پروڈیوسر ہے۔ اس کے بچے مختلف پرائیویٹ سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ ایک مڈل کلاس پوش بستی میں کرائے پر رہتا ہے۔ دیگر اداروں کی طرح اس کے میڈیا ہائوس پر بھی معاشی دبائو پڑا اور جو چھانٹی ہوئی اس میں وہ بھی آگیا۔ اس کے سابقہ پروگرام کے اینکر نے اسے فون کیا۔ اینکر: امجد صاحب آپ کہاں غائب ہیں؟ ہائو آر یو؟ امجد: بس سر گزر رہی ہے۔ کیا کررہے ہو؟ سر نہ پوچھیں … بھئی بتائو تو سہی … کیا ہورہا ہے؟ سر ٹیکسی چلا رہا ہوں۔ جاب تو چلی گئی مگر اب جو کماتا ہوں اس میں سمجھ نہیں آتی کہ گھر کے بل ادا کروں، کچن چلائوں، کرایہ دوں یا بچوں کی فیسیں؟ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز رندھ گئی۔ تیسرا منظر شیخ صاحب 1998ء سے ایک تکہ شاپ چلاتے ہیں۔ ان سے رات گئے ہماری ملاقات ہوگئی۔ شیخ صاحب کیا چل رہا ہے؟ شیخ صاحب کی سفید داڑھی اور ٹوپی سمیت ان کے تاثرات تک آسانی سے پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس دن ذرا قریب سے دیکھا تو ان کے چہرے پر مایوسی اور آنکھوں میں نااُمیدی تھی۔ الیکشن 2013ء اور 2018ء میں رات گئے ان کا ڈھابہ تحریک انصاف کے ’’ٹائیگرز‘‘ سے بھرا ہوتا تھا۔ دھرنا 2014ء میں شیخ صاحب کے ڈھابے پر بڑی ایل ای ڈی پر سیاسی، غیر سیاسی ہر قسم کے گاہک پاکستان کے ’’مائوزے تنگ‘‘ کو دیکھا کرتے تھے۔ تیسری دنیا کے ہر دوسرے ملک میں عوام خواب دیکھتے ہیں کہ حقیقت بدصورت ہوتی ہے اور لیڈر خواب بیچتے ہیں کہ خوابوں پر کچھ خرچ نہیں آتا۔ شیخ صاحب بھی ان خوابوں کے اسیر تھے۔ انہیں بھی ایک نیا پاکستان درکار تھا۔ شیخ صاحب بتارہے تھے کہ میں ہر نماز کے بعد عمران خان کی کامیابی کی دعا مانگا کرتا تھا۔ خواہش تھی کہ آنکھ بند ہونے سے پہلے اپنی آنکھوں سے پاکستان کو بدلتا دیکھ سکوں۔ مگر… مگر؟ مگر بائو جی… لوکی بڑے دکھی نیں… کیسے؟ میری اپنی سیل 75000 سے 25000 تک آگئی ہے۔ دوسروں کی کیا بتائوں؟ سارا دن گاہگ آتے رہتے ہیں اور دکھڑے سناتے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم لوگوں کو ٹیکس دینے کی نصیحت کر رہے ہیں۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر بزنس کمیونٹی کا ایک لیٹر خاصا وائرل چل رہا ہے۔ اس میں بزنس مینوں نے غالباً سترہ وجوہات بیان کی ہیں کہ وہ ٹیکس کیوں ادا نہیں کرتے۔ ریاست پاکستان انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوئی ہے، اس لیے وہ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ انرجی سپلائی کا فقدان ہے اس لیے انہیں اپنی جیب سے جنریٹر، سولر انرجی اور یوپی ایس کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے، وہ ٹیکس کیوں ادا کریں؟ ہمیں سرکاری دفاتر سے اپنا ہر جائز کام کروانے کے لیے بھی ٹاپ سے باٹم تک رشوت دینا پڑتی ہے، پھر ٹیکس کس لیے؟ ہمیں ایف بی آر کا عملہ تنگ کرتا ہے، ہراساں کرتا ہے، ہم ٹیکس نہیں دیں گے۔ ہم جب ملک سے باہر جاتے ہیں یا اس ملک میں واپس آتے ہیں، کسٹم کے عملے سے لے کر ایف آئی اے کے عملے تک کوئی بھی ہم سے رعایت برتنے کی بجائے ہمیں قربانی کے بکرے تصور کرتا ہے‘‘۔ تو محترم وزیر اعظم! آپ کی پوری مشینری کرپٹ ہے۔ اس مشینری کے ساتھ آپ راتوں رات نیا پاکستان کیسے بنا سکتے ہیں۔ آپ کرپٹ پیپلز پارٹی اور کرپٹ نون کے دور میں کسی دفتر میں جاتے تھے تو ایک خاص ریٹ پر رشوت ادا کرتے تھے۔ چھوٹا پرزہ… آپ سے وعدہ کرتا تھا کہ صاحب کام کروانا میرا کام ہے آپ فلاں دن لیٹر لے جائیں۔ اب رشوت کا ریٹ بڑھ گیا ہے کہ تنخواہیں سکڑ گئی ہیں۔ گریڈ 1 سے 16 کی کیا کہیں۔ گریڈ 17 سے 22 تک بھی پریشان ہیں۔ ان سے پوچھو تو کہتے ہیں… سر ڈھانپو تو پائوں ننگے … پائوں ڈھانپو تو سر ننگا۔ تنخواہ دار طبقے کو جکڑ کر سرکار کو کیا ملے گا؟ مان لیجئے کہ پاکستان کی ستر فیصد اکانومی بلیک منی سے چلتی ہے۔ کالا دھن سیلف ہائوسز میں پناہ لے چکا ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف، حفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک آپ کو کبھی بھی نیا پاکستان نہیں بنانے دیں گے۔ شبر زیدی کا خلوص کیا کرلے گا؟ اگر یقین نہیں آتا تو کسی غیرجانبدار اکانومسٹ سے پوچھ لیں۔ ورنہ ان ملکوں کے حالات دیکھ لیں جن سے آئی ایم ایف فلرٹ اور محبت کرتا رہا ہے۔ یہ سب ڈونر ادارے… امریکہ کی جنبش ابرو کے غلام ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور بھارت جنم جنم کے دوست ہیں۔ وہی ادارے، وہی بیوروکریسی، وہی بزنس کلاس، وہی بے سمت عوام۔ ڈیئر پرائم منسٹر! ذرا سوچئے، بغیر نفسیاتی… ذہنی اور معاشرتی تبدیلی کے کوئی کیوں ٹیکس دے گا؟ ریاست پر، اس کی گورننس پر، اس کی مشینری پر ایمان لائے بغیر کوئی کیوں ٹیکس دے گا؟ یہ نہ ہو کہ آپ تو انقلاب نہ لاسکیں… مگر آپ کی وجہ سے انقلاب آجائے! ایک تو دھوپ تھی موم کے مکانوں پر اس پر تم لے آئے سائبان شیشے کا