یہ 2015ء کی بات ہے جب شہداد پور کے چھوٹے سے گاؤں تاجن ڈاھری میںایک پروفیسر کی زمین پر کھیتی باڑی کرنے والے ہندو خاندان نے ہجرت کا فیصلہ کیا،بھیل برادری سے تعلق رکھنے والے بڈھا بھیل کے اس ہاری خاندان کا خیال تھا کہ دیوی دیوتاؤں کی زمین ان کے سارے دکھ درد دور کردے گی آخر کو ہندوستان ان کا اپنا ’’ہندواستھان‘‘ جو ہے وہ وہاں گنگا جل میںاشنان کیا کریں گے ،مندر کے گھنٹے بجائیں گے ،بھجن گائیں گے ،پرشاد کھائیں گے ،محنت مزدوری کریں گے اور اچھے اچھے کرم کریں گے تاکہ بھگوان آنے والے جنم میںانہیں کوئی اچھا روپ دے۔ ہندوستان میں کٹر ہندو نریندر مودی کی حکومت سے انہیں آس بھی بندھ گئی تھی کہ وہاں کی ہندو سرکار انہیں مکمل سپورٹ کرے گی انہیں ہاتھوں ہاتھ لے گی کہ یہ مسلمانوں کے دیس میں جیون کی سختیاں جھیلتے رہے ہیں ۔۔۔بڈھا بھیل آنکھوں میں کاشت ہونے والے یہ خواب لے کرگیارہ افراد کے کنبے کے ساتھ پہلے شہدادپور گیا اور وہاں سے حیدرآباد میں ریل گاڑی کے ذریعے اپنے خوابوں کی سرزمین ہندوستان پہنچ گیا،ان کا خیال تھا کہ وہاں لکشمی دیوی ان کے لئے کڑک کرنسی نوٹوں کی مالا لئے منتظر ہوگی لیکن انہیں وہاںخفیہ ایجنسی کے اہلکار گھورتے ملے، بڈھا بھیل سیاسی طور پر خاصا متحرک اور عوامی تحریک کا سرگرم کارکن تھا،اس لئے اسکا خاصا ’’سواگت ‘‘ہوا، انہیں علیحدہ کیمپ میں رکھا گیا ،جہاں خفیہ ایجنسی کے اہلکار صبح شام ان سے تفتیش کرتے کہ یہ کہیں پاکستان کے کسی خفیہ ادارے کی چال تو نہیں ،تسلی کے بعد انہیں رجسٹر ڈ کر لیا گیااور رہائش کے لئے کیمپ میں جگہ دے دی گئی، یہ کیمپ کیا تھا، شہر سے دور ایک ایسا مقام تھا، جہاںبجلی گیس اور سہولت نام کی کوئی شے نہ تھی، اس پر مقامی ہندوؤں کا رویہ اور توہین آمیز تھا، انہوں نے دھرم کی خاطر وطن چھوڑا تھا لیکن یہ قربانی انہیں معتبر ماننے کی دلیل نہ تھی، وہ شک کے دائرے ہی میں رہے ۔ گیارہ ستمبر کو میرے کراچی کے صحافی دوست امداد سومرو کی ایک انگریزی روزنامے میں رپورٹ شائع ہوئی، جس میں مکھی نے بتایا کہ اسکے والد اور گھر والوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے گھیر رکھا تھا’’ را‘‘چاہتی تھی کہ وہ واپس پاکستان جائیں اور ان کے لئے کام کریں ،بڈھا بھیل اس پر انکاری تھا، امداد سومرو کے مطابق مکھی نے بتایا کہ بڈھا بھیل بھارت میں رکھے جانے والے سلوک سے دل برداشتہ ہوچکا تھا اور اس نے وطن واپسی کا طے کر لیا تھا’’را‘‘ کوپتہ چلا تو اس نے پورے خاندان کو زہر دے کر مار دیا تاکہ پاکستان واپسی پر ان کے کرتوت سامنے نہ آئیں، مکھی نے عالمی عدالت انصاف سے اپنے پورے خاندان کے قتل کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے اسکا کہنا ہے کہ اسکے والداور خاندان کو را نے قتل کیا ہے۔ شریمتی مکھی انصاف کی طالب ہے اور یہی مطالبہ لے کر پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے صدر ڈاکٹر رمیش کمار سندھ کے ہندوؤں کے ساتھ چوبیس ستمبر کی رات اسلام آباد پہنچے،ان کے ساتھ سینکڑوں پاکستانی ہندو ابڈھا بھیل اور اسکے خاندان کی موت کی ٹیڑھی میڑھی تفتیش پر احتجاج کررہے تھے،ان کا مطالبہ تھا کہ ہندوستان پاکستان کو اس حوالے سے ہونے والی تحقیقات سے آگاہ کرے، وہ بہرحال پاکستانی تھے،رمیش کمار پاکستانی ہندو کمیونٹی کے ساتھ دو راتیںاور دو دن اسلام آباد میں احتجاج کرتے رہے ،ان کا یہ احتجاج میڈیا نے بھی دکھایا اخبارات نے بھی سرخیاں جمائیں۔ انٹرنیشنل میڈیا نے بھی اسے کوریج دی ،یعنی یہ ممکن نہیں رہا کہ اسلام آباد یا قرب وجوار میں رہنے والے کسی باشعور سیاسی کارکن اور انسانی حقوق کا درد رکھنے والے کو خبر نہ ہوئی ہو اور یہ بھی بعید از قیاس ہے کہ قومی میڈیا پر نظر رکھنے والوں کو اس بڑے مظاہرے کی اطلاع نہ ملی ہو۔ اس کے باوجود میں اس مظاہرے میں سیاسی جماعتوں کی شرکت اور اظہار یکجہتی کا منتظر رہا، مگر انتظا ر انتظار ہی رہا، حد یہ ہے کہ آنجہانی بڈھا بھیل کے لئے سول سوسائٹی نامی ٹولہ بھی متحرک نہ ہوا ،میں ٹوئٹر پر عورت مارچ والی ’’بیبیوں‘‘ کے ٹوئٹ کھوجتا رہا کہ جب ان بیبیوں کو نوکوٹ ،اور تھر کے کسی گاؤں میں کسی ہندو لڑکی کو ’’جبرا‘‘ مسلمان کرکے شادی اور ولیمے کادعوت نامہ مل جاتا ہے، تو پھر شہر اقتدار تو ان کی ناک کے نیچے ہے ۔۔۔ میں منتظر رہا کہ کب کوئی عروج اورنگزیب والہانہ انداز میں ان اقلیتوں کے مظاہرے میں ’’جب لال لال لہرائے گا ،تب ہوش ٹھکانے آئے گا‘‘ گاکر غریب ہاریوں کا جوش جذبہ بڑھا رہی ہوگی ۔۔۔میں ماروی سرمد صاحبہ کی راہ تکتا رہا۔۔۔میں اسلام آبادکے ہوٹل میں بھارت کے یوم جمہوریہ پرمنعقد ہ تقریب میں والہانہ انداز میں شرکت کرنے والے بلوچی گاندھی عبدالصمد خان اچکزئی کے ’’صاف گو اور اصول پسند ‘‘ صاحبزادے محمود خان اچکزئی کے بھی اس دھرنے میں دھواں دھا ر خطاب کا منتظر رہا کہ ان کا دل بھی ان غریب ہاریوں کی المناک موت پر افسردہ تو ہوا ہوگا۔پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے لئے راگ ملہار گانے والے اور چیخ چیخ کر حلق چھیل لینے والوں میں سے کسی ایک نے بھی اسلام آباد پہنچنے والے ان مظلوم ہندوؤں کے لئے ایک لفظ تک نہ کہا سب کی زبانیں کنڈلی مارے بیٹھی رہیں آخر کیوں ؟ کیا ان پاکستانی ہندوؤں کا خون ہولی کے پچکاری سے بھی ہلکا تھا، جو بس زمین لال کر گیا ؟کیا ’’وہاں ‘‘ پہنچتے ہی یہاں کی اقلیتوںکے لہو کا رنگ بدل جاتا ہے یہاں انکی بکری بھی مرجائے تو یہ اصول پرست ’’کھبے ‘‘ چیخ چیخ کرپوسٹ مارٹم کرواتے ہیں لیکن نئی دہلی سے شکائت پر ان کی دائمی چپ کیوں نہیں ٹوٹتی ،آخر اس چپ راز کیا ہے !