گلگت بلتستان میں اتنخابی بہار اتری ہوئی ہے لیکن طعنے‘ گالی گلوچ‘ الزامات اور ذاتی عناد پر مشتمل بیانات نے اس بہار کے رنگ میلے کردیئے ہیں۔ گلگت بلتستان کے لوگ قومی جماعتیں کہلانے والی پارٹیوں کے بغیر مقامی سطح پر رواداری اور سیاسی برداشت کے ساتھ مقابلہ بازی کرتے رہے ہیں۔ وہ بجا طور پر حیران ہیں کہ اس علاقے میں سیاست کی صحت مند بنیادیں رکھنے کی بجائے مرکزی جماعتیں گلگت بلتستان کے انتخابات کو میدان جنگ بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ایک دوسرے کے رہنماوں کی کردار کشی ہو رہی ہے، ریاست مخالف بیانئے کو پیش کیا جا رہا ہے اور اداروں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔انتخابی منشور کی بات کوئی نہیں کر رہا ۔قومی سیاست میں نووارد مستقبل کے نمائندوںمیں شخصیت پرستی بھری جا رہی ہے ۔ گلگت بلتستان کی حالیہ تاریخ 19 ویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔ سن 1846ء میں کئی خونریز جنگوں کے بعد ڈوگرا حکمران اس علاقے کو ریاست جموں و کشمیر میں شامل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ یہ انتظام 1947 تک جاری رہا جب وہاں کے لوگوں نے ڈوگرا فوج کو شکست دینے کے بعد پاکستان سے غیر مشروط الحاق کی پیشکش کی۔ تاہم مقامی آبادی کے مطالبے پر ایک عرصے سے پاکستان اس کے سیاسی الحاق کے لیے اقدامات کرتا رہا ہے۔اس وقت خطے کا انتظام گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ اس قانون نے گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009 کی جگہ لی ہے۔ یہ ایک آئینی پیکیج تھا جس کے تحت خطے میں پہلی مرتبہ گورنر اور وزیر اعلی کے دفاتر قائم کیے گئے تھے۔ تاہم دونوں ہی قوانین علاقے کے عوام کو پاکستانی پارلیمان میں نمائندگی دلوانے میں ناکام رہے ہیں۔گذشتہ اسمبلی جون 2015 میں وجود میں آئی تھی جس نے اس برس اپنی مدت مکمل کر لی تھی تاہم عالمگیر وبا کے سبب عام انتخابات 15 نومبر تک ملتوی کر دیے گئے تھے۔گلگت بلتستان میں پچھلے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی ۔سابق وزیر اعلیٰ حفیظ الر حمان اور مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کو سی پیک پر تعریف سننے کو ملی تاہم کئی ترقیاتی منصوبوں کی شفافیت پر سوال اٹھائے گئے۔ انتخابات سے تقریباً ایک ماہ قبل ایک درجن سے زیادہ مختلف سیاسی جماعتیں، جن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ نون (پی ایم ایل این) شامل ہیں، گلگت بلتستان میں انتخابات جیتنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔علاقائی اسمبلی کی 24 نشستوں کے لیے سات لاکھ سے زیادہ رائے دہندگان اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔پی ایم ایل این کی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد اس سال جون میں عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا۔اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد 33 ہے جن میں سے 24 کا انتخاب براہ راست عمل میں آتا ہے جبکہ 6 نشستیں خواتین اور 3 ٹیکنوکریٹس کے لیے رکھی گئی ہیں۔ گلگت بلتستان کی آئندہ سیاست کو مقامی معیار پر جانچنے کی بجائے اس کے بین الاقوامی حوالے اور معاشی پہلوز یر غور لانے ہوں گے۔ اس طرح کا سوچ بچار پوری سنجیدگی چاہتا ہے۔ اس خطے کی اہمیت کسی زمانے میں پھلوں کی تجارت‘ مشکل سیاحت اور مسلکی معاملات کے حوالے سے رہی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد پاکستان سے شدید محبت کرتی ہے اور یہ اسی محبت کا ثبوت ہے کہ 1999ء میں جب کارگل جنگ ہوئی تو یہاں کے سپاہیوں نے وطن کے دفاع کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔ شہید لالک جان کو نشان حیدر عطا کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں سڑکوں اور پختہ راستے کم ہونے کی وجہ سے سیاسی رہنما دور دراز علاقوں میں نہیں جا سکے۔ پاکستان کے سیاسی ماحول سے ان کا تعارف اخبارات اور ٹی وی کے ذریعے سے رہا ہے۔ اپنے مسائل کے لیے مقامی آبادی کا رابطہ فوجی انتظامیہ اور افسران سے رہا ہے اس لیے جی بی میں فوج سے تعلق اور محبت کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ اگر کوئی جماعت یا سیاستدان یہ سمجھتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو فوج کے خلاف بھڑکا کر وہ سیاسی کامیابی سمیٹ لے گا تو یہ خلاف واقعہ ہوگا۔ گلگت بلتستان میں شرح خواندگی حیران کن ہے۔ نوے فیصد سے زائد لوگ خواندہ ہیں۔ اس خواندہ آبادی کو مقامی سطح پر مناسب روزگار میسر نہ ہونے کی وجہ سے کراچی‘ لاہور اور پنڈی اسلام آباد جانا پڑتا ہے۔ شہروں کے بڑے ہوٹلوں میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد کام کرتی ہے۔ سی پیک تعمیر ہونے کے بعد اس علاقے کی تجارتی اہمیت نئے انداز سے اجاگر ہورہی ہے۔ رواں برس پاک چین سرحد سے لے کر راولپنڈی تک ڈیجیٹل کیبل بچھانے کا کام مکمل ہوا ہے۔ اس کیبل کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ گلگت بلتستان کو اس سے منسلک کر کے وہاں آن لائن روزگار کے وسائل بڑھائے جا سکیں گے۔ مقامی سیاحت میں حیرت انگیز ترقی ظاہر ہوگی اور آن لائن سوفٹ ویئر کا شعبہ زرمبادلہ کمانے کے لائق ہو سکے گا۔ موٹر وے کی تعمیر سے آنے جانے کی سہولت پیدا ہو چکی ہے۔ اس ماحول میں قومی جماعتوں سے امید کی جاتی ہے کہ وہ گلگت بلتستان کی آئندہ معاشی ضروریات اور جدید ترقیاتی انفراسٹرکچر کے لیے اپنا منشور لوگوں کے سامنے رکھیں‘ علاقے میں امن و امان کے لیے اپنی حکمت عملی واضح کریں اور اس امر پر روشنی ڈالیں کہ صوبہ بننے کے بعد گلگت بلتستان پاکستان کی تعمیروترقی کے لیے کتنا اہم ہوگا۔ مقامی آبادی کو اپنی ثقافتی شناخت اور ورثے سے محبت ہے اس محبت کو کس طرح تحفظ دیا جائے گا؟