یہ مارتھا کی کہانی ہے جو میں نے کسی انسپریشنل کتاب میں پڑھی تھی۔ مارتھا لکھتی ہے کہ وہ ایک پرائیویٹ دفتر میں ملازمت کرتی تھی۔ دفتر کے مالی حالات کچھ اچھے نہیں جا رہے تھے۔ کئی سالوں سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا تھا۔ سال میں ملنے والے دو بونس بھی مالی خسارے کی وجہ سے بند ہو چکے تھے۔ ان حالات میں کام کرنے والے کمپنی کے ملازم ہر وقت کڑھتے رہتے اور جونہی لنچ بریک میں کیفے ٹیریا آباد ہوتا بس یہی باتیں شروع ہو جاتیں۔ ہر کوئی اپنے مالی مسائل اور کمپنی کی بے حسی کا رونا روتا۔ ہر کوئی ناخوش دکھائی دیتا۔ مارتھا کہتی ہیں کہ ہم چھ لوگوں کا ایک گروپ مل کر لنچ کرنے کا عادی تھا اور ہم چھ لوگ بھی باقی ملازمین کی طرح ہر وقت جملے کڑھے رہتے مسائل کا رونا روتے رہتے۔ شکوے شکایت تنخواہوں کی کمی سے ہوتے ہوئے گھریلو حالات کی طرف مڑ جاتے تو وہاں بھی ہر کوئی شکایتوں کے انبار لگا دیتا۔ کہیں شریک حیات کی بے اعتنائی کا شکوہ ہوتا تو کوئی دوستوں‘ رشتہ داروں کی بے وفائی کے تذکرے کرتا۔ غرض لنچ ٹائم کا آدھا پونا گھنٹہ اسی قسم کی باتیں ہوتی رہتیں۔ اور یوں جب تک ہم واپس اپنے کام کے لیے ڈیسک پر بیٹھتے یہ مسئلے مسائل کی باتیں کر کر کے اور سن سن کر سر درد شروع ہو چکا ہوتا۔ ایک عجیب مایوسی اور ناامیدی کے احساسات سے جسم کا انرجی لیول نیچے آ چکا ہوتا۔ مارتھا کہتی ہے کہ ایک روز اسی طرح ہم لنچ بریک میں جلنے کڑھنے کے بعد واپس ڈیسک پر آ کر بیٹھے تو میرے سر میں شدید درد ہونا شروع ہو گیا درد اتنا شدید تھا کہ مجھے آفس کے ڈاکٹر سے دوا لینا پڑی۔ معمول کے مطابق میرا بی پی چیک کیا گیا تو کافی ہائی نکلا۔ ڈاکٹر صاحب ایک خوش مزاج اور ہنس مکھ انسان تھے بولے آپ تو لگتا ہے کسی شدید منفی احساسات کے زیر اثر ہیں کیا ابھی آپ کی کسی سے لڑائی ہوئی یا کسی سے شدید قسم کا آرگیومنٹ ہوا ہے۔ مارتھا کہتی ہے کہ میں نے نفی میں سر ہلایا اور بتایا بس لنچڈ بریک میں گفتگو کا رخ مسائل کی طرف مڑ گیا تھا اور انہیں باتوں کو ڈسکس کرتے کرتے مجھے سر میں شدید درد ہونے لگا۔ ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا تو کیا مسائل پر جلنے کڑھنے سے وہ مسئلے حل ہو گئے۔ نہیں ناں۔! آپ ذرا سا غور کریں کہ ہم جب ناامیدی اور مایوسی کے جذبات کو اپنی سوچوں میں زیادہ جگہ دیں گے تو اس سے حالات پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا ہاں صحت ضرور متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اچھی باتیں سوچیں ہمارے اردگرد بہت کچھ مثبت بھی تو ہو رہا ہوتا ہے۔ اسے دیکھ کر ہم خوش کیوں نہیں ہو سکتے بس اپنی سوچوں کا رخ مثبت چیزوں کی طرف موڑ لیں۔‘‘ مارتھا کا کہنا ہے کہ اس روز کے بعد میں نے تہیہ کر لیا کہ لنچ بریک ہو یا دوستوں کا کوئی اور اکٹھ‘ اب میں ایسی گفتگو سے گریز کروں گی جس میں زندگی اور حالات کے منفی پہلو ہوں۔ جس میں صرف مسائل کا تذکرہ ہو۔ یہی سوچ کر مارتھا نے اگلے روز اپنے دفتر کے ساتھیوں کے سامنے ایک انوکھا خیال پیش کیا۔ وہ خیال یہ تھا کہ آج سے ہم میں سے ہر ایک لنچ بریک میں صرف اور صرف اپنی زندگی کے متعلق مثبت اور اچھی بات ہی کرے گا۔ اسی روز مارتھا نے اپنے چھ کولیگز کے ساتھ مل کر گڈ نیوز کلب کی بنیاد رکھی۔ اس کا آئیڈیا یہی تھا کہ اس گڈ نیوز کلب کا ہر ممبر لنچ بریک میں اپنی زندگی کے کسی بھی پہلو سے متعلق صرف اچھی اور خوبصورت بات اپنے دوستوں کو بتائے گا۔ گڈ نیوز کلب کے ممبر کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف گڈ نیوز ہی شیئر کرے گا۔ یہ اچھی خبر کچھ بھی ہو سکتی ہے آپ کے بچے نے امتحان میں اچھے گریڈ لیے ہیں آپ نے سیل سے کوئی سستی شاپنگ کی ہے اچھا کھایا ہے آپ کا کوئی رشتہ دار کوئی اچھا دوست آپ سے ملنے آیا یا آپ اسے ملنے گئے زندگی کی کسی بھی نعمت کا تذکرہ اس گڈ نیوز کلب میں کیا جا سکتا تھا یہاں تک کہ اگر موسم اچھا تو اس کو سلیبریٹ کیا جا سکتا تھا۔ مارتھا کے بقول اس گڈ نیوز کلب کا ایک اصول یہ رکھا گیا کہ جو بھی ممبر اسے جوائن کرنا چاہے وہ اسے مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ ایک اچھی خبر سنا کر جوائن کر سکتا ہے مارتھا لکھتی ہے کہ اس گڈ نیوز کلب نے سب کے مزاجوں اور صحت پر اتنا اچھا اثر ڈالا کہ حیران کن تھا۔ جب ہم نے اپنی زندگی کی چھوٹی چھوٹی مثبت باتوں کا تذکرہ کرنا شروع کیا تو ہمارے اردگرد ایک مثبت توانائی پھیل گئی چہروں سے تنائو اور ماتھے پر پڑی شکوے شکایتوں کی لائنیں غائب ہو گئیں پرسکون مسکراتے ہوئے چہرے آس پاس دیکھ کر ماحول خوشگوار ہو گیا۔ گڈ نیوز کلب کا یہ آئیڈیا خود مجھے بہت اچھا لگا ایسا لگتا ہے کہ ہمیں اور ہمارے معاشرے کو گڈ نیوز کلب کی اشد ضرورت ہے اس لیے کہ ہمارا مجموعی معاشرتی رجحان بُری خبروں اور منفی سوچوں کی طرف ہے ایک اخبار نویس اور کالم نگار کی تو چلئے یہ مجبوری ہی ہے کہ اس نے معاشرتی مسائل کو ہی فوکس کرنا ہوتا ہے لیکن آپ ایک عام شخص کو دیکھ لیں۔ یا پھر اپنی ذاتی زندگیوں میں اپنے رویے پر غور کریں آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ ہم منفی رجحان رکھنے والے لوگ ہیں اور معاشرے کی یہ تصویر آپ کو سوشل میڈیا کے آئینے میں صاف اور واضح دکھائی دے گی۔ آپ دوستوں رشتہ داروں اور احباب کی ذاتی محفلوں پر نگاہ دوڑائیں جونہی چار لوگ خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں ملتے ہیں زندگی کا کوئی منفی اور ناخوشگوار پہلو زیر بحث آ جاتا ہے۔ خواتین ملیں گے تو موضوعات زیادہ تر یہی ہوں گے۔ سسرال کی برائیاں گھر میں کام کرنے والی ماسیوں اور ملازمائوں کے شکایت بھرے قصے شوہر کی برائیاں بچوں کے سکول سے اور ٹیچرز کی برائیاں ورکنگ لیڈیز ہوں گی تو آفس اور گھر کی ذمہ داریوں کے بوجھ کی شکاتیں وقت نہ ملنے کا شکوہ وغیرہ وغیرہ۔ ایک تبدیلی تو ہمارے معاشرے میں آئی ہے وہ یہ کہ آج کل ہم زیادہ ہی سیاسی ہوتے جا رہے ہیں۔ سیاسی حالات پر منفی تبصرے ملکی حالات مہنگائی‘ لوڈشیڈنگ دہشت گردی پر گفتگو ۔ سیاستدانوں کی برائیاں ہمارے گفتگو کے عام موضوعات ہیں۔ ناخوشگوار باتیں اور ہمہ وقت شکوے شکایتیں ہمارے ماحول کو منفی انرجی سے بھر دیتے ہیں اور یہ منفی سوچیں مجموعی طور پر ایک مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔میں نے اکثر نوٹ کیا ہے کہ ہم کسی دوسرے کی تعریف کرتے ہیں تو تامل کرتے ہیں کہ تم اچھی لگ رہی ہو۔ یا تم نے اچھا ڈریس پہنا ہے مگر ایسی منفی باتیں فوراً اسے کہنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ تم کمزور لگ رہی ہو۔ تم بیمار بیمار لگ رہی ہو۔ یعنی ہم پر منفی سوچیں‘ مثبت خیالوں کی نسبت زیادہ غالب ہیں۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ صحافی ‘ شاعر ادیب جہاں اکٹھے ہوتے ہیں وہ اپنے اپنے شعبے کی برائیاں اور منفی باتیں کر کے وقت گزارنا زیادہ پسند کرتے ہیں اور دیانتداری کی بات ہے میں بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہوں۔ اب مگر سوچا ہے کہ مارتھا کی طرح ایک گڈ نیوز کلب میں بھی بنائوں۔ جس کا ممبر بننے کے لیے ضروری ہو کہ آپ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ صرف اچھی اور خوشگوار باتیں ہی زیر بحث لائیں۔ زندگی کے مثبت پہلوئوں کو دیکھیں تاکہ ہمارے اردگرد مثبت توانائی کا ہالہ رہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے قارئین بھی اپنی اپنی زندگیوں میں ایسے یہ گڈ نیوز کلب ضرور بنائیں گے۔ مثبت سوچیں گے مثبت بات کریں گے اور مثبت توانائی کو پھیلائیں گے جس معاشرے میں سوشل میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک‘ منفی خبروں کا کاروبار عروج پر ہو۔ وہاں ایسے گڈ نیوز کلب کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔