زندگی اور موت کے فیصلے زمینوں پرنہیں آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ اس اللہ کا شکر ہے جس نے احسن اقبال کو پہلی زندگی دی تھی اور اسی نے اپنے بندے کو دوسری زندگی بھی عطا کی ہے۔ برادر عزیز احسن اقبال سے پرانی یاداللہ ہے۔ ایک نہی کئی حوالوں سے ان کے ساتھ گہرا تعلق خاطر ہے۔ ان پر قاتلانہ حملہ میرے لیے ایک ذاتی صدمہ بھی ہے۔ سبب کچھ بھی ہو ایسا حملہ قابل مذمت ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے وطن عزیز میں سیاست دشنام طرازی اور الزام تراشی کا کھیل بن چکی ہے۔ گالی سے شروع ہونے والی سیاست نے اب گولی کی زبان بولنا شروع کردی ہے جو انتہائی افسوسناک بھی ہے اور بے حد تشویشناک بھی۔ یہ کوئی فلسفیانہ نہیں روزمرہ مشاہدے کی بات ہے کہ جب دلیل ہو تو پھر دشنام کا سہارا لیا جاتا ہے اور جب کہنے کو کچھ نہ ہو تو پھر گالی دے کر اپنی ناپسندی کی تسکین کی جاتی ہے۔ اسی طرح ہمارے ’’مذہبی رہنما‘‘ درس تو اخلاق مصطفیﷺکا دیتے ہیں، حب رسولﷺ سے دلوں کو گرماتے اور عشق مصطفیﷺ کی تلقین کرتے ہیں مگر وہ جو زباں استعمال کرتے ہیں، جس طرح سے وہ شان مصطفی میں ’’کمی بیشی‘‘ کرنے والوں کو مغلظات سے نوازتے ہیں اور جس قسم کے انتہا پسندانہ جذبات کا اظہار کرتے ہیں ان کا عام سامعین پر اثر ہونا اوران کے منفی خیالات میں اشتعال انگیزی پیدا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اسی طرح سیاست میں جس طرح کی زبان اپنے مخالفین کے لیے عمران خان استعمال کرتے رہے ہیں اس سے آپ اپنے سامعین کے دلوں میں اپنے مخالف سیاست دانوں کے ساتھ صحت مندانہ اختلاف اور دلیل سے ان کے موقف کو کمزور ثابت کرنے کی بجائے ان کے اندر مخالف قیادت کے لیے منفی اور نفرت انگیز جذبات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ لاہور کے جلسے میں عمران خان نے کوئی منفی بات نہیں کی۔ گزشتہ گیارہ بارہ ماہ سے نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نہ صرف سیاسی مخالفین کو برا بھلا کہہ رہے ہیں بلکہ انہیں رانا ثناء اللہ اور طلال چودھری جیسے بے لگام ن لیگی سیاس دانوں سے بھی گالی دلوا رہے ہیں۔ میاں صاحب کی آتش انتقام ابھی سرد نہیں ہوئی۔ وہ مسلسل ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے خلاف جذبات کو بھڑکا رہے ہیںا ور اسی طرح ملک کے دیگر اہم ترین اداروں کے خلاف کبھی خلائی مخلوق، کبھی نادیدہ قوتوں اور کبھی کسی اور نام کی آڑ میں الزام تراشی کر رہے ہیں۔ میاں صاحب تو انجانے میں نہیں جانتے بوجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتے ہوئے عوام سے پوچھتے ہیں کہ تم نوازشریف کے بارے میں اپنا فیصلہ منوائو گے یا عدالتوں کا جاری کردہ فیصلہ تسلیم کرو گے۔ میاں صاحب تو انصاف شکنی اورقانون شکنی کی آخری حدود کو چھوتے ہوئے یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ عدالت نے جس قانون کی رو سے مجھے نااہل کیا ہے اس قانون کو برسراقتدار آ کر دو تہائی اکثریت سے اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ جب کسی قسم کے سیاسی قائدین اور دینی رہنما اتنے عاقبت نااندیش ہو جائیں اورانا پرستی انہیں اپنے رویوں پر تنقیدی نگاہ ڈالنے دے تو اس سے افراد ہی نہیں اقدام بھی تباہ ہو جاتی ہیں۔ اپنے رویوں پر نظرثانی کے بجائے صداقت و امانت کے قوانین کو ملیا میٹ کرنے پر تل جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے تو ہمارے حکمران اور سیاست دان خود کو جوابدہ محسوس نہیں کرتے اور جس پارلیمنٹ کا شب و روز نام جپتے رہتے ہیں اسے پرکاہ جتنی اہمیت بھی نہیں دیتے۔ چیف جسٹس آف پاکستان سیاسی قائدین کو بھی طلب کریں اور دینی رہنمائوں کو بھی بلائیں اور ان سے پوچھیں کہ گزشتہ تین دہائیوں سے آپ نے قوم کو تعلیم و تربیت کا کیا اہتمام کیا۔ ان کی کردار سازی کے لیے کیا کارنامہ انجام دیا۔ انہیں ہر طرح کے تعصبات سے بچنے کی کیسے تلقین کی۔ ان سے پوچھا جائے کہ جب آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خود منظور کردہ قانون و آئینی شقوں کی پامالی کا قوم کو درس دیں گے تو پھر آپ قوم سے قانون پسندی، اعتدال پسندی، میانہ روی اور تحمل و برداشت کی کیسے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ چیف جسٹس بطور خاص عمران خان اور میاں نوازشریف سے پوچھیں کہ انہوں نے فوج پر سیاست میں ملوث ہونے کے جو الزامات لگائے ہیں ان کا ثبوت لائیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ تیس پینتیس برس سے کوچہ سیاست و قیادت میں کسی نہ کسی حیثیت سے نمایاں ترین رہنے کے بعد میاں صاحب نے جس منفی سیاست کو فروغ دیا ہے وہ باعث صد افسوس ہے۔ میاں صاحب سیاست میں جس خلائی مخلوق کا روز ذکر کرتے ہیں اس کے بارے میں اس حقیقت سے پہلو تہی کرلیتے ہیں کہ میاں صاحب اسی خلائی مخلوق کی دریافت ہیں اور بار بار سیاست میں ان کے مقدر کا ستارہ اسی مخلوق کی اشیر باد سے جگمگاتا رہا ہے تاہم صاحب یہ بتائیں کہ انہوں نے تین دہائیوں پر پھیلے ہوئے طویل عرصے میں ’’خلائی مخلوق‘‘ سے نجات کے لیے کیا کیا۔ نادیدہ قوتوں کے عمل دخل کو کم کرنے کے لیے جمہوری معاشروں میں صرف اور صرف ایک طریقہ رائج ہے یعنی عوام کی زیادہ سے زیادہ خدمت۔ قوم سازی، کردار سازی، اخلاق و شائستگی پروان چڑھانے کے لیے شب و روز کی محنتمیاں صاحب کا فرمان ہے کہ وہ بھی نظریاتی ہو گئے ہیں اور ان کے پیروکار بھی نظریاتی ہو گئے۔ میاں صاحب نہ خود نظریاتی ہیں نہ کبھی ہوسکتے ہیں کیونکہ نظریاتی ہونے کے لیے نفس کشی، منفعت انگیزی اور مال و زر سے مکمل جدائی اس کی شرط اولین ہے۔ میاں صاحب اس شرط کے کسی ایک حصے کو بھی اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ میاں صاحب تین دہائیوں میں قوم کے صرف پچاس فیصد حصے کو ٹوٹی پھوٹی تعلیم دے سکے ہیں۔ باقی پچاس فیصد قوم جہالت میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے اور اسی مخلوق کے بارے میں میاں صاحب کا ایمان ہے کہ رب نے دتیاں گاجراں تے وچے رمبا رکھ۔ جس طرح سے نظریہ اور میاں نوازشریف کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں اسی طرح سے ان کا اور جمہوریت کا بھی آپس میں کوئی ناتا نہیں۔ جہاں جمہوریت ہوتی ہے وہاں ایک پاکستانی ڈرائیور کا بیٹا مسٹر صادق میئر لندن بن جاتا ہے اور دوسرے پاکستانی ڈرائیور کا بیٹا ساجد جاوید انگلستان کا وزیر داخلہ بن جاتا ہے اور یہاں نوازشریف اپنے تخت و تاج کے وارث کے طور پر شہزادی مریم نواز کی تاج پوشی کا بھرپور انتظام اور اہتمام کر رہے ہیں۔ آج کے ہی اخبارات میں خبر ہے کہ جہلم میں مریم نواز کو 100 تولے سونے کا تاج پہنایا جائے گا۔ جہلم میں مسلم لیگ ن کے ایک ذمہ دار مقامی قائد نے بتایا کہ جلسہ گاہ میں صبح 11 بجے حلوہ پوری کا ناشتہ کروایا جائے گا جبکہ جلسہ کو کامیاب بنانے کے لیے سامعین کے لیے 100 دیگ بریانی جبکہ 250 بکرے اور 30 بیل ذبح کئے جائیں گے اور 10 ٹرک منرل واٹر آ چکا ہے۔ کیا ایسی ہوتی ہے نظریاتی پارٹی اور ایسے ہوتے ہیں نظریاتی قائدین۔ میاں نوازشریف اور دوسرے سیاسی رہنمائوں کو کچھ اندازہ نہیں کہ ملک کے اندر کیا کیا نعرے لگ رہے ہیں۔ کراچی میں جاگ مہاجر جاگ کے نعرے، ملتان میں سرائیکی صوبے کے نعرے، فاٹا میں جاگ پشتون کے نعرے اور حتیٰ کہ خواجہ سعد رفیق نے پنجابیوں کو جاگنے کی کال بھی دے دی ہے۔ دنیا و مافیھا سے بے نیاز ہو کر میاں صاحب کو یقینا یہ اندازہ بھی نہیں کہ ہمارے خطے میں کس طرح کی صورت حال وجود میں آ رہی ہے۔ میاں صاحب محض اپنی آتش انتقام بھڑکانے میں مگن ہیں۔ اگر ہمارے سیاست دانوں نے دشنام طرازی کا کلچر نہ بدلا اور ہمارے علمائے کرام نے اخلاق حسنہ ﷺ کا حقیقی نمونہ بن کر نہ دکھایا تو پھر دین و سیاست دونوں انتہا پسندی کا شکار ہو جائیں گے۔ یاد رکھئے پنجابی مثل کے مطابق ’’اکاں نال امب نئیں لگدے‘‘ یعنی اَک کے شدید کڑوے پودے پر میٹھے آم نہیں لگتے۔ جیسا بوئیں گے ویسا کاٹیں گے۔ گالی کی سیاست گولی کو جنم دیتی ہے۔ گالی سے اجتناب کیجئے تاکہ وطن عزیز گولی کی سیاست سے محفوظ رہے۔