وپرو گروپ اپنے کاروباری حجم میں کافی بڑا ہے۔یہ خالص کاروباری لوگ ہیں، سرمایہ کاری کرتے ہیں، منافع لیتے ہیں، اچھی زندگی گزارتے ہیں۔ اپنے اردگرد کو صاف، صحتمند اور آسودہ رکھنے کیلئے خاصا خرچ کرتے ہیں۔ اس گروپ کے چیئرمین عظیم پریم جی نے کرونا سے مقابلے کے لئے بھارتی حکومت کو 50ہزار کروڑ روپے عطیہ کیے ہیں۔ اس رقم کو اربوں روپے میں پڑھنے کی قابلیت مجھ میں نہیں ۔ اپنے کیلکولیٹر پر ضربیں دیں، رقم پڑھ سکیں تو پڑھ لیں۔ عظیم پریم جی کمپنی میں اپنے 34فیصد حصص پہلے ہی عطیہ کر چکے ہیں۔ یہ 34فیصد حصص 7.5ارب ڈالر کے ہیں۔ یوں انہوں نے جو رقم خیرات میں دی تھی اس کا مجموعی حجم 145000کروڑ بنتا ہے۔ یہ کل رقم 21ارب ڈالر بنتی ہے۔ بھارتی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انہیں معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں ٹاٹا‘برلا اور پریم جی جیسے مخیر صنعت کاروں نے اپنا منافع قوم کی تعمیر پر خرچ کیا اور جب بھی ملک کو سرمائے کی ضرورت پڑی تو ہندو بنیا نے دریا دلی دکھائی۔عظیم پریم جی فائونڈیشن بھارت کے پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے شاندار خدمات انجام دے چکی ہے۔ کرناٹک‘اتر اکھنڈ‘ راجستھان ‘ چھتیس گڑھ‘ پانڈے چری ‘ تلنگانہ اور مدھیہ پردیش کے سرکاری سکول اب نجی اداروں سے بڑھ کر دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے سرمایہ داروں کی طرح مہنگے تعلیمی اداروں کی چین بنانے کا خیال پریم جی فائونڈیشن کو نہیں آیا۔انہوں نے بلا منافع تعلیمی منصوبہ 2014ء میں شروع کیا۔ان کی فراہم کی گئی رقم سے 150تنظیمیں اور ادارے پورے بھارت میں تعلیم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ پریم جی بھارت کے دوسرے امیر ترین شخص ہیں۔ انہوں نے بل گیٹس اور وارن بوفے کی طرح عہد کیا ہے کہ اپنی آمدنی کا پچاس فیصد خیرات کریں گے۔ دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہونے والے بل گیٹس نے افریقہ اور جنوبی ایشیا میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کے علاج و دیکھ بھال کے لئے 100ملین ڈالر عطیہ کئے ہیں۔ ایمازون کے مالک جیف بیزو نے امریکی حکام سے رابطہ کر کے پیشکش کی ہے کہ پورے امریکہ کے ریستورانوں میں کرونا کی وجہ سے جو سٹاف بے روزگار ہوا ہے وہ ان بے روزگاروں کی خدمات حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جیف بیزو نے اپنے پرانے اور نئے سٹاف کے فی گھنٹہ معاوضہ میں اضافہ کا اعلان بھی کیا ہے۔ جیک ما علی بابا گروپ کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے کرونا وائرس ٹیسٹ کی پانچ لاکھ کٹس‘ دس لاکھ فیس ماسک اور دیگر سامان امریکہ کو عطیہ کیا ہے۔ جیک ما نے افریقہ کے 54ممالک میں سے ہر ایک کو امریکہ کے برابر ٹیسٹ کٹس‘ ماسک اور ضروری سامان بھیجا ہے۔ پاکستان کو بھی ان کی طرف سے بھیجی گئی امداد مل چکی ہے۔ امیر ترین افراد کے علاوہ عام دولت مند شخصیات بھی کرونا کے خلاف جنگ میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ دنیا میں خون چوستی سرمایہ داری کی ڈائن پہلی بار کارخیر انجام دیتی دکھائی دی ہے۔ مشہور فٹ بال کلب چیلسی کے مالک نے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو ہوٹل میں رکھنے کا خرچ برداشت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ میں کسینو کی ایک بڑی چین کے مالک شیلڈن ایڈلسن نے اپنی کئی کمپنیاں کرونا وبا کی وجہ سے غیر معینہ مدت تک بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایڈلسن نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ان کا کوئی ملازم بے روزگار نہیں کیا جائے گا۔ سب کو گھروں میں ان کی تنخواہ حسب معمول ملتی رہے گی۔ ہمارے یہاں صورتحال یہ ہے کہ کئی اداروں نے ملازمین کو کہہ رکھا ہے کہ کوئی بیمار ہواتو خود کو نوکری پر نہ سمجھے۔انیل اگروال دھاتوں اور معدنیات کے کاروبار کا بڑا نام ہے۔ انہوں نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے 13.1ملین ڈالر عطیہ کئے ہیں۔ میسی میلیانا اور ان کے تین بچوں کے نام اٹلی کی سب سے بڑی فارما سیوٹیکل کمپنی ہے۔ کمپنی نے اٹلی میں وبا کے پھیلنے پر اپنا پیداواری کام فلورنس منتقل کر دیا تاکہ لوگوں کو جراثیم سے پاک ماحول میں تیار ادویات فراہم کی جا سکیں۔ ان کا سینی ٹائزر بلا معاوضہ مہیا کیا جا رہا ہے۔ مشہور فیشن برانڈ ارمانی نے مختلف ہسپتالوں میں ضروری اشیا کی فراہمی کے لئے 2.2ملین ڈالر فراہم کئے ہیں۔ اٹلی کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے سلویو برسکونی نے 10.7ملین ڈالر ان ہسپتالوں کو عطیہ کئے ہیںجہاں کرونا کے مریضوں کا علاج ہو رہا ہے۔ پاکستان میں سیاست ایک کاروبار ہے۔ اکثر سیاست دانوں نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں یہی لکھا ہوتا ہے۔ وہ اس کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ محرومیاں پیدا کرتے ہیں‘ ناخواندگی اور جہالت کو فروغ دیتے ہیں۔ قانون شکن عناصر کی فوج تیار کرتے ہیں۔ غربت کو پھیلنے پھولنے دیتے ہیں‘ ہسپتالوں کو علاج معالجے کی سہولیات سے محروم رکھتے ہیں اور جب کوئی وبا پھوٹ پڑے تو لوگوں کو مرنے دیتے ہیں۔ یہ سب کاروبار ہے‘ ان ہی محرومیوں‘ افلاس زدگی، قانون شکنی اور جہالت کو ختم کرنے کا نعرہ لگا کر وہ ووٹ لیتے ہیں۔ یہ نعرے ہاتھوں ہاتھ بکتے ہیں۔ ووٹوں کی شکل میں ان دیکھی ریاستی و سیاسی مراعات اور اختیار ملتا ہے۔ بظاہر کوئی کام نہ کرنے والے ان صاحبان کرامت کے اندرون و بیرون ملک اکائونٹ لبا لب ہو جاتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے اتنے جان جوکھم سے کمایا ہوا دھن یہ لوگ کس طرح عطیہ کر دیں۔ ہمارا سماج کیچڑ بھرا تالاب بن گیا ہے‘ جو چند کنول کھلے ہوئے ہیں انہیں دلدل نے گھیر رکھا ہے۔ ہر اچھی بات نمائش کے لئے ہے۔ سندھ کے ایک رکن اسمبلی کی تصویر دیکھی‘ غریب اور عمر رسیدہ ووٹر کو لال صابن کی ٹکیہ خیرات کرتے ہوئے میڈیا کو بلا لیا۔ ایک تصویر میں آٹھ دس مخیر حضرات نے ایک غریب کے ہاتھ میں 5کلو آٹے کا تھیلا تھما کر تصویر بنوائی ہے۔ ان دنوں کروڑوں روپے کمانے والے بہت سے شوبز و کرکٹ سٹار ہاتھ دھونے کی ویڈیوز خیرات کر رہے ہیں‘پاکستان میں بہت خیرات کی جاتی ہے مگر یہ سب عام لوگ کرتے ہیں۔ صبح و شام خبروں اور ٹی وی پر جو مسلط رہتے ہیں وہ سیاست کو خدمت نہیں کاروبار سمجھتے ہیں‘ خیرات کو گھاٹے کا سودا سمجھتے ہیں۔ ان کے بچے بھی پیدا گیر ہیں۔ یہ کرونا کے دنوں میں خیرات کیوں کریں‘ گھاٹے کا سودا کیوں؟