گلگت بلتستان میں انتخابی نتائج حسب توقع پاکستان تحریک انصاف کی9 نشستوں پر کامیابی کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو 4‘ مسلم لیگ ن کو 2‘ مجلس وحدت المسلمین کو ایک جبکہ 7 نشستوں پر آزاد امیدوار کو کامیابی ملی ہے۔ پیپلزپارٹی کے سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ‘ مسلم لیگ ن کے سابق وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن اور سابق سپیکر فدا ناشاد اپنی نشستیں دوبارہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ برفباری اور سخت سردی کے باوجود گلگت بلتستان کے باشندوں نے اپنے جمہوری حق کو پورے جوش و خروش کے ساتھ استعمال کیا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انتخابی نتائج پر کچھ اعتراضات کئے ہیں لیکن مجموعی اعتبار سے پرامن انتخابی عمل نے مقامی آبادی کے سیاسی رجحانات واضح کردیئے ہیں۔ 1948ء میں مقامی لوگوں کی مدد سے یہ علاقہ پاکستان کے زیر کنٹرول آ یا۔ تقریباً 15 لاکھ آبادی کا یہ خطہ کسی جنت سے کم نہیں۔اس کی سرحدیں چین، بھارت، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں، جن میں سے تین ملک ایٹمی طاقت ہیں۔گلگت بلتستان، چین پاکستان اقتصادی راہداری کا دروازہ ہے۔ یہاں پاکستان کی جانب سے صوبائی نظام نافذ کیا گیا ہے ۔پہلے یہاں پر ’سٹیٹ سبجیکٹ رول‘ نام کا قانون نافد تھا جس کے تحت یہاں صرف مقامی لوگوں کو ہی سرکاری ملازمتیں کرنے، سیاسی عہدے رکھنے اور جائیدادیں خریدنے کا حق حاصل تھا۔ لیکن ستر کی دہائی میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اسے ختم کر دیا گیا۔اس کے بعد یہاں مختلف قوانین کے تحت نظام چلایا جاتا رہا لیکن مقامی لوگوں کا ہمیشہ سے ہی مطالبہ رہا کہ پاکستان باقاعدہ طور پر گلگت بلتستان کے ساتھ الحاق کر کے اسے مستقل طور پر پاکستان میں ضم کر لے۔ گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنے کا فیصلہ ملک کی سلامتی مفادات کے پیش نظر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ سی پیک کے راستے کو محفوظ کیا جائے۔ اور اس حوالے سے ضروری ہے کہ مقامی لوگوں کے تحفظات کا ازالہ ہو اوراس علاقے پر سے سیاسی غیر یقینی کی کیفیت کو دور کیا جائے۔ پاکستان کوشش کرے گا کہ مقامی آبادی کو اعتماد میں لے۔ اس معاملے پر حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش ہو گی۔ پارٹی کوئی بھی ہو منشور کیسا بھی ہو گلگت کے سیاست دان آئینی حقوق کے حصول پر متفق ہیں اور پاکستان میں سیاست دان ان حقوق کے مخالف نہیں۔تو پھرسوال یہ ہے کہ آخر گلگت کی عبوری حیثیت کو ختم کرکے اسے پاکستان کا مستقل حصہ بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے کیا؟گلگت بلتستان کے سیاستدان کہتے ہیںکہ انہیں اس چیز کا احساس ہے کہ آئینی حقوق کے حصول میں مسئلہ کشمیر سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ گلگت بلتستان کا علاقہ کشمیر کا حصہ رہا ہے اور اس حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادیں موجود ہیں۔ اس لیے وفاق کے لیے اسے پاکستان کا مستقل حصہ بنانے میں مسائل اور مجبوریاں ہیں۔پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی کو یکطرفہ طور پر اپنا حصہ بنانے کا فیصلہ پاکستان کو نئی صورتحال کے مطابق فیصلے کرنے کی راہ دکھا رہا ہے ۔گلگت کی جغرافیائی اہمیت کے باعث یہ علاقہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خاصا اہم ہے۔ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ خاص طور پر پاک چین اقتصادی رہداری منصوبے کی تکمیل کے لیے گلگت کا پرامن ہونا اور یہاں کے عوام کا سیاسی احساس محرومی دور ہونا انتہائی اہم ہے۔ جی بی میں چلائی گئی حالیہ انتخابی مہم میں کچھ رجحانات واضح ہو کر سامنے آئے۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں افواج پاکستان کے لیے خاص محبت پائی جاتی ہے۔ لوگوں کو کسی طرح کی مشکل یا قدرتی آفت کا سامنا ہو تو فوجی جوان ہی مدد کے لیے پہنچتے ہیں۔ حالیہ انتخابی مہم میں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے مقامی آبادی کے مسائل کی بجائے نوازشریف کے بیانئے پر گفتگو کی۔ یہ بیانیہ جی بی کے لوگوں کے لیے اجنبی اور غیر حقیقت پسندی پر مشتمل سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سابق دور میں اقتدار میں رہنے کے باوجود مسلم لیگ ن کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ پیپلزپارٹی نے تاریخی طور پر اس علاقے کے لیے اصلاحاتی عمل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مقامی آبادی ان خدمات کو اہمیت دیتی ہے لیکن پی ڈی ایم میں شمولیت اور سندھ میں بیڈ گورننس نے پی پی کو ہرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ گلگت بلتستان کے بہت سے لوگ کراچی میں کام کرتے ہیں۔ ان کی زبانی کرپشن‘ بدانتظامی اور اقربا پروری کی داستانیں سن کر گلگت بلتستان کے عوام پی پی کو اقتدار کا مینڈیٹ نہیں دے رہے۔ تحریک انصاف کی جیت میں کچھ چیزیں بہت اہم ثابت ہوئیں۔ پی ٹی آئی نے مقامی سطح پر متحرک اور فعال گروپوں سے اتحاد کیا۔ مقامی آبادی کو نئے پل‘ ہسپتال اور روزگار فراہم کرنے کے وعدے کئے۔ گلگت بلتستان کے باشندے دونوں پرانی جماعتوں کی کارکردگی دیکھ چکے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ پی ٹی آئی آئینی اصلاحات کا عمل آگے بڑھا کر جی بی کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا کام انجام تک پہنچائے گی۔ پی ٹی آئی کے جیتنے کی ایک روایتی وجہ یہ بھی ہے کہ گلگت میں عام طور پر اسی جماعت کی حکومت بنتی ہے جو مرکز میں برسر اقتدار ہو۔ انتخابی نتائج کو دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کی پیشگوئی کی جا سکتی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ سی پیک‘ جی بی میں نئے معاشی منصوبوں اور لوگوں کی زندگی آسان بنانے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف مقامی آبادی کے دیرینہ مطالبہ پر جی بی کو صوبے کا درجہ دینے کے لیے بروقت اقدامات کرے گی۔