ہم ایک ایسے عالمی اخلاقی منظرنامے میں سانس لے رہے ہیں جہاں عالمی ادارۂ صحت کے ماہرین سے لے کر انسانی و نسوانی حقوق کے علمبرداروں تک اور دو سو کے قریب قومی ریاستوں سے لے کر سماجیات، معاشرت اور اخلاقیات کے بڑے اداروں تک اس بات پر متفق ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ ایک لڑکی جو ’’ٹینز‘‘ (Teens) یعنی اپنی عمر کے تیرہ سال سے لے کر انیس سال تک کے عرصے میںہے، اسے ہر طرح کے ناجائز جنسی تعلقات رکھنے، ان کے نتیجے میں بچہ پیدا کرنے، اس بچے کو عمومی طور پر محنت مزدوری کر کے تنہا پالنے کی تو اجازت ہے، لیکن کسی ملک میں والدین کو اس لڑکی کی کم عمری میں شادی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ایک لڑکی اگر کسی ’’ترقی یافتہ‘‘ ملک میں اپنے طور پر بغیر نکاح کے رہنا شروع کر دے، اس دوران وہ ایک ناجائز اولاد کا بوجھ بھی اٹھا لے تو دنیا کا کوئی مغربی ملک یا مغرب زدہ دانشور اسے کسی قسم کی سزا کا حقدار قرار نہیں دیتا، بلکہ حکومتوں نے اس کے اس ’’ناجائز‘‘ تعلق کو آسان اور سہل ’’(ٖFacilitate)‘‘کرنے کے لیئے لاتعداد خدمات ’’(Services)‘‘ کی سہولت مہیا کر رکھی ہے۔ ’’ٹین ایج‘‘ کے دوران محبت میں گرفتار ہو کر جسمانی تعلق استوار کرنے والی لڑکیوں کو اس تعلق کی نفسیاتی اور جسمانی پیچیدگیوں سے آگاہ کرنے یعنی ’’Awareness‘‘ بہم پہنچانے کے لیئے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے سرگرمِ عمل ہیں، جو سب سے پہلے ان نوجوان جوڑوں کو محفوظ جنسی تعلقات (Safe Sex) کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں، پھر انہیں شدتِ جذبات سے مغلوب لمحوں کے دوران اچانک ہونے والی اولاد کی نعمت سے بچنے کے لیئے مانع حمل ادویات وغیرہ کے بارے میں تفصیلاًبتایا جاتا ہے۔ ایسے تعلقات استوار کرنے والی بچیوں کی نفسیاتی صحت کے تحفظ کے لیئے مشاورت و رہنمائی (Guidance and Counselling) کی سروسز کا ایک جال بچھایا گیا ہے۔ ان ’’ناجائز‘‘ تعلقات کی قلیل مدتی کی وجہ سے ٹین ایج بچیاں جس طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتی ہیں، ان میں خود اذیتی، ڈپریشن اور اضطراب سے لے کر خود کشی تک شامل ہیں۔ شادی کے بغیر قائم ان تعلقات کی ناپائیداری کی بنیادی وجہ بھی اکثر اوقات وہ اولادہی موردِ الزام ٹھہرائی جاتی ہے، جو ان تعلقات کے نازک جذباتی مرحلے میں وجود میں آتی ہے۔ اگر یہ جوڑا اسے ہنسی خوشی اپنی محبت کی نشانی کے طور پر قبول کر لے تو زندگی مزید کچھ ماہ یا سال خوشگوار رہتی ہے ،ورنہ اس اطلاع کے پہلے دن سے ہی اس بچے سے نجات کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس ’’نازک قتل‘‘ کو بھی آسانی سے انجام دینے کے لیئے ’’اسقاطِ حمل‘‘ (Abortion) کی خدمات کا جال بچھایا گیا ہے۔ شفقتِ مادری کے فطری جذبات سے مغلوب ہو کر اگر کوئی لڑکی اپنے اس ’’ناجائز‘‘ بچے کو اکیلے پالنے کا ارادہ کرلیتی ہے تو کھلنڈرے محبوب کی بے وفائی کا سارا غصہ اسی معصوم پر نکلتا ہے۔ دنیا کے تمام مہذب مغربی ممالک میں بچوں پر تشدد (Child Abuse) کی بلندترین شرح غیر شادی شدہ ٹین ایج ماؤں میں پائی جاتی ہے۔ ایسے ’’ناجائز تعلقات‘‘ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کامستقبل اس بات کا ’’مرہونِ منت‘‘ ہوتا ہے کہ کب ان کا والد، والدہ یا دونوں اسے چھوڑ کر اپنے اگلے ہمسفر کی بانہوں میں باہیں ڈال دیں۔ ان حالات میں یہ معصوم کس کے رحم و کرم پر ہو گا۔ چونکہ ریاست نے اس’’ناجائز بچے‘‘ کے دنیا میں آنے کے سارے عمل کو تحفظ دیا ہوتا ہے، اس لیئے اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کی پرورش کے لیئے بھی لاتعداد اداروں کا جال بچھایا گیا ہے، جنہیں کہیں پناہ گاہیں (Shelters) تو کہیں پرورش گاہ (Foster Homes) اور کہیں تو براہ راست متروک بچوں کا گھر (Abandoned baby homes) کہا جاتا ہے۔ پوری ریاست، سول سوسائٹی ، حقوق انسانی و نسوانی کے پہرے دار، سب کے سب مستعدی کے ساتھ ان تمام ’’خدمات‘‘ کی فراہمی کا بندوبست کرتے ہیں، جوان نوجوان ’’لڑکے لڑکی کے باہم ناجائز ‘‘تعلقات سے پیدا ہونے والی خرابیوں اور الجھنوں کو دور کر سکیں۔ لیکن کوئی شخص یا ادارہ ان تعلقات کی اخلاقیات، معاشرت، ماحول اور خاندانی اقدار کے بارے میں بحث کرتا نظر نہیں آتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب میں تعلقات کی پوری عمارت اس ایک اصول پر کھڑی ہے کہ ’’ہر وہ جسمانی تعلق محترم، معزز اور قانونی ہے جو دونوں کی مرضی اور منشا سے وجود میں آتا ہے۔ یہ تعلق دس سال کی لڑکی اور لڑکا قائم کریں یا ستر سال کے بوڑھا اور بوڑھی۔ یہ تعلق کسی سیکولر، جمہوری اور لبرل معاشرے میں جرم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے اس ’’جرم ‘‘کے نتیجے میں جو بھی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں انہیں اندیشے یا خطرات (Hazards) کہا جاتا ہے اور ان کی روک تھام یا ان کے اثرات سے نمٹنا بھی قانونی تصور ہوتا ہے۔ کم سن بچیوں کے ہاں بغیر شادی کے اولاد پیدا کرنے کے اعدادوشمار اتنے زیادہ اور خوفناک ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ ان ماؤں کی تعداد ایک چھوٹے سے براعظم کی آبادی کے برابر ہے۔ گیلپ ورلڈ پول (Gallup World Poll) کے مطابق اس وقت پوری دنیا، جس میں تمام براعظم شامل ہیں، ہر سو میں سے 13کمسن بچیوں کے گھر میں ایسے بچے موجود ہیں جو ان ناجائز تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوئے اور ان کے ’’والد محترم‘‘ انہیں چھوڑ کر چلے گئے اور بیچاری مائیں انہیں پال رہی ہیں۔ یہ اعدادوشمار ایک سو چالیس ممالک سے حاصل کیئے گئے ہیں۔ ان تمام براعظموں میں صرف امریکہ اور کینیڈا ریجن میں ایسی اکیلی غیر شادی شدہ ماؤں کی تعداد 19فیصد ہے۔ یعنی ہر پانچویں بچی ایک ایسے ’’ناجائز‘‘ بچے کو پال رہی ہے جس کا باپ اسے چھوڑ کر کسی دوسری محبوبہ کے قدموں میں اپنا دل نچھاور کرنے جا چکا ہے۔ جنوبی امریکہ کے ممالک میں یہ تعداد مزید خوفناک ہے، یعنی 30فیصد، یعنی ہر تیسری کمسن بچی ایسی اولاد پالتی ہے جس کے خانۂ ولدیت میں نام لکھنا بھی کئی ملکوں میں قانونی نہیں ہے۔ یہ خوفناک رجحان دنیا بھر میں بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ امریکہ کے تمام تحقیقی ادارے غیر شادی شدہ ماؤں کے بارے میں جو اعداد وشمار جمع کرتے ہیں ، انہیں ایک ادارے ’’Child Trend data Bank‘‘نے جمع کیا ہے۔ اس کے مطابق 1960ء میںغیر شادی شدہ ماؤں کی تعداد 5فیصد تھی جبکہ 1995ء میں یہ تعداد 33فیصد ہوگئی اور 2008ء میں41فیصد ہوگئی۔ اس کے بعد کے بارہ سالوں کے اعدادو شمارا بھی تک میسر نہیںہیں، لیکن اندازہ ہے کہ امریکہ کی ہر دوسری عورت ایک ’’ناجائز‘‘ بچے کو پال رہی ہے۔ اپنی مرضی سے ناجائز تعلقات استوار کرنے کے لیئے ان مہذب ممالک میں عمر کی بھی کوئی پابندی نہیں ۔ ایک ساٹھ سالہ بڈھا کھوسٹ ایک چودہ سالہ بچی کے ساتھ اس کی مرضی کے مطابق رہ سکتا ہے اور بغیر شادی کے بچے بھی پیدا کرسکتا ہے۔ اگر کوئی شوبز یا فیشن انڈسٹری والا ستر سالہ بوڑھا ایسا کر لے تو دنیا کے ہر اخبار اور چینل میں ایک لذت بھری سنسنی خیز خبربن جاتی ہے۔ اس سارے ’’کاروبارِ جذبات‘‘کو جائز رکھنے کے لیئے تیرہ سال سے انیس سال تک کی ٹین ایج بچی کی صرف ایک گواہی کافی ہے کہ ’’میں اپنی مرضی سے یہ سب کچھ کر رہی ہوں‘‘لیکن دنیا بھر کے تمام ممالک، بلکہ عالمی ادارۂ صحت کے ڈاکٹر اس بات پر متحد اور متفق ہیں کہ کسی کمسن بچی کی شادی اسکے والدین نہیں کر سکتے، خواہ وہ اس کی مرضی کے مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ ایک لڑکی کسی بڈھے سے عشق لڑا کر ناجائز اولاد لے سکتی ہے لیکن اگر وہ شادی کرنے کے لیئے کسی عدالت یا چرچ چلی جائے گی تو گرفتار کر لی جائے گی۔ یہ ہے وہ دنیاجو گندگی اور غلاظت سے لتھڑے ہوئے پھل کھانا پسند کرتی ہے اور صاف ستھرے پاکیزہ پھل سے نفرت کرتی ہے۔