*گھر جس قدر ہوادار ہوگا اور اس میں سورج کی روشنی کی آمدورفت کا جتنا اچھا انتظام ہوگا گھر اتنا ہی بڑا اور پْرکشش لگے گا۔ گھٹن زدہ ماحول انسانی سوچ اور آنکھوں پر منفی اثرات مرتّب کرتا ہے۔ ایسے ماحول میں انسان خود کو قید محسوس کرتا ہے۔ گھر روشن اور ہوادار ہوگا تو طبیعت بھی ہشا ش بشاش رہے گی۔

اگر آپ گھر بناتے وقت الماریوں کو دیوار کے اندر ہی بنالیں گے تو اس طرح آپ کے کمرے خو بہ خود کھلے ہوجائیں گے۔ گھر کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں چورخانے اور الماریاں بن سکتی ہیں اس طرح لکڑی اور لوہے کی الماریاں الگ سے خریدنے کی بھی نوبت نہیں آئے گی۔اس طرح آپ کتابوں اور رسالوں کے لیے شیلف بھی بنواسکتے ہیں۔

*گھر کی دیواروں پر اگر ٹھنڈے رنگ کرائے جائیں تو کمرے بڑے بڑے لگتے ہیں۔ لہٰذا رنگوں کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا بہت خیال رکھیں کہ رنگو ں کے اندر ٹھنڈک اور دھیما پن ہو۔

*گھر میں روشنی کا مناسب انتظام رکھیے، گھر میں بلب کے بجائے انرجی سیور لگائیں اس کے دوفائدے ہیں ایک تو اس کی روشنی آنکھوں میں نہیں چبھتی اور دوسرے آپ کی بجلی بھی کم استعمال ہوگی۔روشنی کی روشنی ،بچت کی بچت۔انرجی سیوراور ٹیوب لائٹ صرف گھرکوروشن کرنے کے لیے ہی نہیں ہیں انھیں اگر درست طریقے اور درست جگہ لگایا جائے تو اس سے گھر کی آرائش نہایت خوب صورت نظر آسکتی ہے۔

*اکثر خواتین سجاوٹ کے لیے ڈھیر سارا سامان لا کر گھر کے ہر کونے میں بھر دیتی ہیں، سامان بھردینے سے دیدہ زیب سجاوٹ کبھی نہیں ہوتی بلکہ اصل خوبصورتی اس وقت نظرآتی ہے جب سامان ترتیب سے رکھا جائے۔اکثر لوگ چھوٹے گھر میں رہنے کے باوجود بڑا فرنیچر خرید لیتے ہیں جس سے گھر مزید گْھتا گْھٹا لگتا ہے۔اس کے برعکس اگر آپ تعداد میں کم اور گنجائش میں زیادہ فرنیچ خریدیں گی تو آپ کا گھر بھی سج جائے گا اور اچھا بھی لگے گا۔

*گھر کی دیواروں اور فرش پر بچھے کارپٹ سے مطابقت رکھتا فرنیچر اگرچہ مہنگا شوق ہے، اور فرنیچر جلدی جلدی بدلنا ممکن بھی نہیں ہوتا، اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اگر آپ کے صوفے یا کرسیوں کا رنگ پردوں اور دیواروں سے ہم آہنگ نہیں ہے تو اس پر پردوں اور دیواروں کے رنگ کے کپڑے کے کوور چڑھا لیں اور صوفوں کی گدیوں پران رنگوں سے مطابقت رکھتا ہوا کپڑا چڑھوالیں۔اس کے لیے ضروری نہیں کہ مہنگا کپڑا خریدا جائے بلکہ میچنگ پر توجہ دی جائے۔