محمود خان اچکزئی کا شمار ملک کے ان چند سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو جنون کی حد تک جمہوری اقدار اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ کا فلور ہو، عوامی جلسہ ہو، پریس کانفرنس ہو یا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے انٹرویو ہو، غرض ہر فورم پر اچکزئی صاحب کا مطمحِ نظر ملک میں جمہوریت کی بحالی ، آئینی بالادستی اور برادر اقوام کے بیچ حقوق کا مساوی تقسیم رہا ہے۔ جمہوریت کے تحفظ اور پارلیمنٹ کی وقعت کی خاطر انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو نہ صرف گلے لگائے بلکہ جمہوریت پنپنے کی خاطر ایک ورکر کی حیثیت سے ان کی قیادت میں چلنے کا عزم کیا۔ مثلاً ایک زمانے میں وہ میاں محمد نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو صف اول کے سیاسی حریف تصور کرتے تھے، لیکن جب سے مذکورہ سیاستدانوں نے ملک میں ڈی ریل جمہوری نظام کو واپس ٹریک پر لانے کا عزم کیا ہے ، تب سے اچکزئی صاحب نے ان کا ساتھ دیاہے۔ ابھی خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر خیبرپختونخوا کے تاریخی شہر بنوں میں پشتونوں کے ’’سہ روزہ گرینڈ جرگے ‘‘کا اہتمام کرکے انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔ یہ جرگہ بظاہر اچکزئی صاحب کی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے زیر اہتمام ہو رہا ہے لیکن اس میں پشتون قوم سے تعلق رکھنے والے مختلف مکتب فکرکے افراد کو دعوت دی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں اچکزئی صاحب نے واضح کیا کہ یہ جرگہ دراصل ان کی پارٹی کا نہیں بلکہ پوری پشتون قوم کا نمائندہ جرگہ ہے۔اسی لئے اس جرگے میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی کی قیادت کے علاوہ ہرمکتب فکر سے تعلق رکھنے والے پشتون دانشور، ادیب اور قبائلی عمائدین اور صاحب رائے لوگ شرکت کر رہے ہیں۔ اس جرگے کا بنیادی ہدف ملک میں پشتونوں کو درپیش بے شمار مسائل باالخصوص پیہم بدامنی سے نمٹنا اور ان کااپنے ساحل اور وسائل پر اختیار اور حق خود ارادیت کو یقینی بنانا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ نائن الیون کے بعد وار آن ٹیرر کے نام سے شروع ہونیوالی جنگ میں سرحد کے دونوں اطراف میں رہنے والے پشتون خطے کی کسی بھی دوسرے قوم سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ بدقسمتی دیکھ لیجیے کہ یہ بد نصیب قوم ہنوز دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے ہاتھوں اپنے پیاروں کے جنازے اٹھا رہی ہے۔ گزشتہ جمعہ کو پشاور کے قصہ خوانی بازار کی ایک مسجد میں ہونے والا رواں سال کا سب سے بھیانک خودکش حملہ تھا، جس کے نتیجے میں ساٹھ سے زائد افراد شہید اور سو کے قریب زخمی ہوئے۔ قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ گرینڈ جرگہ (لویہ جرگہ) پشتونوں کے ہاں اس جمہوری بیٹھک کانام ہے، جس میں وسیع پیمانے پرقوم کے علماء ، سیاستدان، قبائلی عمائدین اور دانشور اپنی آراء کی روشنی میں باہمی مشاورت سے خود کو درپیس مسائل کا پائیدار حل ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ تاریخی دستاویزات کے مطابق افغانستان میں پہلا رسمی گرینڈ جرگہ میرویس خان ہوتک نے 1709 کو اس وقت صفویوں کی دراندازی کے خلاف بلایا تھا۔ اگلی مرتبہ اس نوعیت کاجرگہ1747 کو قندہار میں منعقد ہواا۔ بیسویں صدی میں سب سے اہم جرگہ افغانستان کے انقلابی حکمران غازی امان اللہ خان نے1919 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ملکی نظام اور اصلاحات کے حوالے سے جلال آباد میں لویہ جرگہ کال کیا تھا، جس میں آٹھ سوبہتر افرادنے شرکت کی تھی۔ بعد میں افغان امیرمحمد نادر شاہ اور بعد میں ان کے جانشین صاحبزادے محمد ظاہر شاہ دونوں نے اپنے دورحکومت میں عوامی گرینڈ جرگوں میں مسائل کا حل ڈھونڈنے کا سعی فرمائی تھی۔ اسی طرح سردار محمد داود خان، صدر ببرک کارمل اور بعد میں ڈاکٹر محمد نجیب اللہ نے بھی اس فورم کا سہارا لیا۔ نائن الیون کے بعد افغان صدر حامد کرزئی کے دور حکومت میں یکے بعد دیگرے پانچ مرتبہ گرینڈ جرگہ بلایا گیا جس میں ملکی آئین کی تشکیل ، امریکہ سے اسٹریٹیجک معاہدے کے بارے میں عوامی رائے کی جانکاری اور ڈیورنڈ لائن جیسے مسائل ڈسکس ہوئے تھے۔ افغانستان اپنی نوعیت کا آخری گرینڈ جرگہ پچھلے سال 7 اگست کو سابق افغا ن صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے بلایا تھا جس میں لگ بھگ تین ہزار چار سو مندوبین نے شرکت کی۔ جرگے کے اعلامیے میں شرکاء نے افغان حکومت اور افغان طالبان سے پچیس شقوں پر عمل درآمدکروانے کی سفارش کی تھی۔ مثلاً اس جرگے میں شامل شرکاء نے خیر سگالی کے طور پر چار سو کے لگ بھگ طالبان قیدیوں کی رہائی کی تائید کی تھی۔دونوں فریقوں (افغان حکومت اور طالبان)سے فوری طور پر سیز فائر یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا اور فریقین سے باہمی مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کا حل نکالنے، ملک میں خواتین کو انسانی اورسیاسی حقوق فراہم کرنے کے علاوہ امریکہ اور بین الاقوامی برادری سے امن کے عمل میں سہولت کار کا کردار اداکرنے اور ہمسایہ ممالک سے افغانستان میں مداخلت نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بنوں میں حالیہ جرگہ بھی ہر حوالے سے ایک منفرد جرگہ ہے۔ پاکستان بننے کے اگلے سال بھی اسی شہر میں پشتونوں کا ایک نمائندہ گرینڈ جرگہ ہوا تھا اور آج بھی اسی شہر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ایک مرتبہ پھر اپنے روشن مستقبل کی خاطر غور و خوض کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ خدا کرے کہ مشر محمود اچکزئی کی انتھک کوششوں سے منعقدہ یہ جرگہ پشتون وطن اور پورے خطے میں امن اور خوشحالی کا پیش خیمہ ثابت ہو۔