شام کا وقت تھا دروازے کی گھنٹی بجی اور بار بار بجی۔گیٹ کھولا تو سامنے ایک خاتون کھڑی تھیں۔ سراپا‘تصنع اور تکلف سے عاری تیاری کے کسی اہتمام کے بغیر چادر لی ہوئی اور چہرے کو ماسک کے پیچھے چھپایا ہوا۔ میں ابھی پہچان کے مراحل طے کر رہی تھی کہ خاتون نے ایک کتاب میرے سامنے بڑھائی۔سلیم کوثر کی تازہ ترین کتاب’ خواب آتے ہوئے سنائی دیے‘سعدیہ یہ سلیم کوثر صاحب نے تمہارے لئے بھجوائی ہے۔ ارے تو یہ ہماری دوست باکمال شاعرہ خالدہ انور تھیں۔ مگر ہمیں جو انہیں پہچاننے میں دقت ہوئی وہ اس لئے کہ نہ انہوں نے اپنی آمد کا کوئی بگل بجایا نہ ان کی گاڑی گیٹ کے کہیں آس پاس دکھائی دی۔ بس اچانک کہیں سے نمودار ہوئیں اور کیا خوب نمودار ہوئیں۔ سلیم کوثر کی تازہ کتاب دی اور کہا میں یونہی کچھ کام سے نکلی تھی ،گاڑی میں سب بیٹھے ہوئے ہیں۔ بس یہ اپنی کتاب پکڑو اور خدا حافظ خالدہ انور نے یہ سب کچھ پس ماسک ہی بیان کیا اور یہ جا وہ جا ہو گئیں۔ یعنی ہم ان کا شکریہ بھی ڈھنگ سے ادا نہیں کر پائے۔ سرمئی شام کے رنگ درو دیوار پر اترتے ہوئے اچانک سے کاسنی ہونے لگے تھے۔سلیم کوثر کی شاعری کا خواب زار کھلنے لگا تھا اور سچ بات یہ ہے کہ نئی کتاب تو میں نے بعد میںکھولی۔ پہلے اسے دیر تک دیکھا کیے والا معاملہ ہوا ۔آس پاس ایک بازگشت سنائی دینے لگی۔ میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اورہے سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اورہے اور طلم یہ ہوا کہ بازگشت اسی شاعر بے مثال کی آواز میں مجھ تک پہنچ رہی تھی۔ گو کہ اس مشہور زمانہ غزل کو برصغیر کے کتنے ہی بڑے بڑے گائیکوں نے اپنی آواز کی کوملتاکا روپ بخشا ہے۔ مگر کلام شاعر کی جو بات بزبان شاعر ہوتی ہے اس کی کیا ہی بات ہے۔ سلیم کوثر کا نام آتے ہی اس غزل کی بازگشت سنائی دیتی ہے جو میں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں سنی۔ 90ء کی دہائی۔ صرف مہ و سال نہیں۔ یادوں کے طلسمات کی ایک جادو نگری ہیجب زندگی خوابوں کی ہم سفر ہوتی ہے۔ طبیعت میں ذوق تھا جو شعر اچھے لگتے۔ انہی دنوں سلیم کوثر کے غزلیں اور نظمیں‘شعاع اور خواتین ڈائجسٹ میں چھپا کرتیں اور میں انہیں اپنی ڈائری پر نوٹ کر لیتی: محبت ڈائری ہرگز نہیں آب جو ہے جو دلوں کے درمیان بہتی ہے خوشبو ہے! غزلوں کے سحر طاری کرنے والے مصرعے ہمیں اک اجنبی کی جب رفاقت یاد آتی ہے تو بے ترتیب رستوں کی مسافت یاد آتی ہے وہ کہتا تھا کہ ہم دائم ہیں اور سب لوگ فانی ہیں سو اب سب لوگ ہیں اس کی کہاوت یاد آتی ہے ٭٭٭ وہ کہتا ہے آخری باب عشق مکمل کر لیں۔! اور میں سوچ رہا ہوں پہلا باب کہاں رکھیں گے؟ استاد محترم احمد جاوید کا کہنا ہے کہ اچھے شعر سے حظ اٹھانے کے اس کا سمجھنا ضروری نہیں شعر کا سمجھنا‘ بعد کی بات ہے اگر طبیعت میں ذوق کی گھٹی لگی ہے تو انسان کے اندر کی شعوری حس جمالیات شعر کے حسن کو محسوس کرلے گی۔ 90ء کی دہائی کی ڈائری سلیم کوثر کے کئی اشعار سے بھری ہوئی ہے۔ عمر ایسی تھی کہ زندگی کو ابھی برتانہیں تھا مگر زندگی سے وابستہ ہزار ہا رنگوں کی یہ شعری کائنات مجھے بھاتی تھی اور آج جب زندگی کتنے ہی سنگ میل سے گزر آئی، حسن و عشق ‘ ہجر وصال کے یہ سارے باب ہم پر کھل چکے تو سلیم کوثر کے شعر اور بھی اچھے لگتے ہیں۔ اور ایسا کم ہوتا ہے۔ ایک خاص شعوری سفر کرنے کے بعد ،آپ کو پہلے کی پڑھی ہوئی چیزیں اس طرح سے اپیل نہیں کرتیں مگر سلیم کوثر کا معاملہ مختلف ہے۔ وہی منصفوں کی روایتیں، وہی فیصلوں کی عبارتیں مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ میری سزا کوئی اور ہے کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں‘ دیکھنا انہیں غور سے جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اورہے ہماری پوری قومی تاریخ ان اشعار میں سمٹ گئی تو اس شام کا سلیم کوثر کی شاعری کی نذر ہو جانا تو ضروری تھا۔ یادوں کے اس طلسمات سے نکلی تو شاعر کی تازہ کتاب کھولی’ خواب آتے ہوئے سنائی دیے‘سلیم کوثر صاحب کے بارے میں پچھلے دنوں یہ خبر تھی کہ گلے کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ ان دنوں بات چیت کرنے سے بھی محروم تھے ۔اچھی خبر یہ ہے کہ آپریشن ہو چکا ہے اور اب پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ بات کرتے ہیں اور شعر کہتے ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ شعری سفر اسی انفرادیت کے ساتھ جاری ہے۔ نئی کتاب میں بھی ہمیں سلیم کوثر کا منفرد لب و لہج سنائی دیتا ہے جو شعر پڑھنے والوں پر سحر طاری کرتا تھا۔ کتاب سے انتخاب کے کچھ اشعار شامل کرتی ہوں۔ دیر تک ان سے ترا ذکر کیا کرتا تھا تجھ سے مل کر میں پرندوں سے ملا کرتا تھا میں سوچتا تھا نظام جہاں بدل ڈالوں وہ آ گیا تو ارادہ بدل گیا مرا ٭٭٭ اب تو اس نام کی شے یاد نہیں ہے ‘ورنہ عزت نفس بڑی چیز ہوا کرتی تھی ٭٭٭ کوئی بھی شے مجھے حیران اب نہیں کرتی سو اب مجھے نئی حیرت بنانی پڑتی ہے ٭٭٭ کیسا بازار سیاست ہے خود آ کر بک جائیں جو کبھی بک نہیں سکتے تھے وہ اکثر بک جائیں خواہش و درہم و دینار کے مارے ہوئے لوگ ان کو اک بار خریدو یہ مکرر بک جائیں ٭٭٭ ماں کے چہرے کی تلاوت کرا کرتی اور پھر میں نئی صبح کا آغاز کیا کرتا تھا اور آخر میں ایک غزل کے دو اشعار میں ایک ایسا جہاں بنانے کی فکر میں ہوں کہ جس کا ہر انتظام سوچا ہوا ہے میں نے اگر میں سورج کے ساتھ ڈھلنے سے بچ گیا تو کہاں گزاروں گا شام سوچا ہوا ہے میں نے شام گہری ہو رہی تھی اور میں سلیم کوثر کی سحر انگیز شعری کائنات میں گم تھی جہاں خواب آتے ہوئے سنائی دے رہے تھے۔