وزیر اعظم نے نیا اور چشم کشا انکشاف یہ فرمایا ہے کہ پاکستان کا مقصد اسے ایشیئن ٹائیگر بنانا نہیں تھا بلکہ ریاست مدینہ کا قیام تھا۔ لازم ہے کہ وزیر اعظم کے فرمائے ہوئے ہر فرمودے کو مستند مانا جائے۔ اس کے برعکس ماننے، اختلاف کرنے یا تنقید کا اشارہ دینے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اس لیے انہیں یہ بھی یاد نہیں دلایا جا سکتا کہ وہ مسلسل کئی برسوں تک جنوبی کوریا، سنگاپور اور ملائیشیا کی ترقی اور پاکستان کی پسماندگی کے حوالے دیتے رہے ہیں اور مرحوم ایوب خان اور پرویز مشرف کی ان مساعی جمیلہ کو خراج تحسین پیش کرتے رہے ہیں جو انہوں نے بقول خاں صاحب کے ملک کو ایشیئن ٹائیگر بنانے کے لیے کیں۔ یہ تقریریں تازہ چشم کشا انکشاف کے بعد از خود یوٹرن ہیں۔ اختلاف کی گنجائش ہوتی تو تاریخ کا حوالہ دیا جا سکتا تھا کہ ریاست مدینہ اپنی ذات میں خود ٹائیگر تھی۔ اب اسے چاہیں تو اس زمانے کا ایشیئن ٹائیگر کہہ لیں یا مڈل ایسٹرن ٹائیگر جو بعد ازاں گلوبل ٹائیگر بن گئی۔ اقبال کا شعر یاد ہو گا ؎ نکل کے صحرا سے جس نے روماکی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ ’’شیر‘‘ پھر ہوشیار ہو گا ٭٭٭٭٭ اب لوگوں کو یہ بات زیادہ تیزی سے سمجھ میں آنے میں مدد ملے گی کہ پاکستان کو ایشیئن ٹائیگر بنانے کی تین چار کوششیں جو ماضی قریب میں کی گئی وہ کیوں ناکام بنا دی گئیں۔ اس لیے کہ یہ نظریہ پاکستان کے منافی اقدام تھا جیسا کہ خان صاحب نے تازہ چشم کشا انکشاف میں بیان کیا ہے۔ ان کوششوں کا مجرم اب جیل میں ہے،بیٹی سمیت۔ سچ کہا گیا ہے اس محاورے میں کہ ایشیئن ٹائیگر بنانے والے سے بچانے والا طاقتور ہوتا ہے۔ مقام شکر ہے کہ ٹائیگر بننے بنانے کا باب بند ہوا۔ ٭٭٭٭٭ اعتراض کرنے والوں کی زبان بہر حال کہاں بند ہوتی ہے۔ اخباروں میں چاہے نہ چھپے، ٹی وی پر بھی بھلے نہ آئے لیکن کوٹھوں پر چڑھنے سے کہاں رکتی ہے؛ چنانچہ کوٹھوں چڑھی بات یہ ہے کہ ایک سالہ دفتر عمل پر اپوزیشن پردہ داری کو پردہ دری میں بدلنے پر تلی ہوئی ہے۔ خاں صاحب کے دور زرین کا پہلا سال مکمل ہونے پر اس نے مہنگائی کی شرح میں ساڑھے تین گنا اضافے، آمدنی میں تسلی بخش کمی، بے روزگاری اور مفلسوں کی گنتی بڑھانی ہے اور ساتھ ہی یہ پوچھا ہے کہ ایک سال کے عرصے میں دو ہزار ارب کا قرضہ واپس کیا گیا ۔ اپوزیشن نے یہ بات سرعام کیوں پوچھی۔ تخلیے میں خاں صاحب سے پوچھ لیتی تو وہ بتا دیتے کہ نواز شریف نے بیک ڈیٹ میں ٹائم مشین کے ذریعے چوری کر لیے۔ ٭٭٭٭٭ اپوزیشن نے ایک سوال اور پوچھا ہے کہ ہم نے تو سنا تھا کہ حکومت بچت پہ بچت کر رہی ہے حتیٰ کہ بھینسیں تک بیچ ڈالیں پھر حکومتی اخراجات میں گیارہ سو ارب کا اضافہ کیوں ہو گیا۔ جی گیارہ ارب نہیں، گیارہ سو ارب روپے بہت بڑی رقم ہے لیکن جواب بہت سادہ اور آسان۔ حکومت نے بچت کی، بھینسیں فروخت کیں، اسی لیے اخراجات میں صرف گیارہ سو ارب کا اضافہ ہوا، بچت نہ کرتی تو پندرہ سو ارب کا ہوتا، پھر کوئی کیا کر لیتا۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے اپنی ریاست کے رحم دل ہونے کی یاد دہانی بھی کر دی۔ چنداں ضرورت نہیں تھی۔ رحم دل حکومت کے ایک سال کا ہر دن اس رحم دلی کا گواہ ہے، رحم دلی کا ایک پورا باب ہے۔ رحم دلی کی تازہ مظاہرہ وزیر اعظم کے خطاب کے روز ہی سامنے آیا جب ہسپتالوں سے مفت ٹیسٹ ختم کر دیئے گئے۔ جن کے نرخ واجبی تھے، وہ دو سے تین گنا مہنگے کر دیئے گئے۔ یہ رحم دلی ہی تو ہے۔ لوگ ذرا ذرا سی بات پر ٹیسٹ کرانے نکل پڑتے تھے یوں اپنا وقت اور پیسہ برباد کرتے تھے۔ اب نکلنے سے پہلے سو بار سوچیں گے، یوں وقت اور پیسے کی بچت ہو گی۔ یہ تازہ رحم دلی چند ماہ پہلے والی اس طبی رحم دلی کا حصہ دوئم ہے جس کے تحت دوائوں کی قیمتوں میں یک لخت چار سو فیصد اضافہ کر دیا گیا تھا۔ لوگ دوائیں کھا کھا کر مزید بیمار ہو رہے تھے۔ قیمت چار سو گنا بڑھی تو دوائوں کی بسیار خوری بھی کم ہوئی، صحت اور بچت یوں ساتھ ساتھ ہو گئی۔ ٭٭٭٭٭ اس سال سرکاری خرچ پر جانے والے حاجیوں سے جو ہوا، وہ بتانے کے لیے پورا دفتر چاہئے۔ کھانا ملتا نہیں تھا۔ ملتا تھا تو کئی دن کا باسی۔ پانی تک غائب تھا، سونے کے لیے کیا بیٹھنے کے لیے بھی جگہ نہیں تھی اور یہ سب اس کے باوجود ہوا کہ سرکار نے حج کے دو گنے دام لیے تھے۔ ویڈیوز میں حاجی حضرات عمران خان کو ’’خراج تحسین‘‘ پیش کرتے دکھائے گئے جو سخت زیادتی ہے۔ حج کی اس بارات کا اصل دولہا تو کوئی اور تھا، کچھ دعائیں اس کے لیے بھی رکھ چھوڑتے؟