تبدیلی اب اتنی بدنام ہوگئی ہے کہ ادھر آپ کے منہ سے ، یا قلم سے یہ لفظ نکلا لوگ شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں کہ کہیں یہ صاحب اس کے حامیوں سے متاثر تو نہیں ہوگئے اور ہم ٹھہرے وہ کہ نہ کعبہ ملا اور نہ ہی وصال صنم۔ ٹھیک ہے ، بات نہیں کرتے ، گردش دوراں پہ طبع آزمائی کرلیتے ہیں۔ کبھی انقلاب کے نعرے لگے تھے، آفاق کے سرخی مائل ہونے کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا۔ تخت و تاج گرانے والی شاعری پہ سر دھنا جاتا تھا۔ اب وہ قصہ پارینہ ہوا۔ صبح ِ روشن کے وعدوں پر سیاہ شب کا بوجھ اٹھانے والوں کو صبح کاذب ملی۔ اب نہ تو کوئی انقلاب کی بات کرتا ہے اور نہ ہی کوئی صبح کاذب کا شکوہ۔ سب مایا ہے! کرہ ارض کے سینے پر جب سے ریاست وجود میں آئی ہے ، اس کا نصب العین انسانی وقار میں اضافہ اور اس کے وجود کی بقا عدل مانا گیا ہے۔ بھلا ہو سرمایہ دارانہ نظام کا کہ کسی کے سر پر تاج تو کیا پگ بھی سلامت نہیں رہی۔ منتخب حکومتیں جب کاروبار دوست بجٹ بنانے پر اترا رہی ہوں تو جمہوریت کی اصلیت کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔ اگر ریاست تاجروں کی مٹھی میں آجائے تو منافع کا مطلب یکطرفہ مفاد رہ جاتا ہے نہ کہ کسی لین دین میں ملوث دونوں فریقوں کا بھلا۔ اس صورت حال کا اگلا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں سے ان کی حیثیت کی بنیا د پر ٹیکس نہیں لیا جاتا بلکہ خرچ پر اور اس میں خوراک اور صحت پر ہونے والے اخراجات پر بھی معافی نہیں ہوتی۔ یوں ایک کہ بعد ایک خرابی پیدا ہوتی جاتی ہے اور معاشرہ انتشار کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ ایسی صورتحال کے واضح اشارے سیاسی پارٹیوں میں اجارہ داریوں، پارلیمان میں آئین سازی کے رحجانات اور سالانہ بجٹ کے مندرجات سے خوب لگایا جاسکتا ہے۔ چلیں دور نہیں جاتے ، پچھلے تیرہ سال میں جمہوریت بھی ہے اور ٹیکسوں کا بوجھ عام آدمی پر ہے جو زندہ رہنے کے تقاضے بھی مشکل سے پورے کر پاتا ہے۔ ہم حکومت اور کاروبار کے گٹھ جوڑ کو بھول جاتے ہیں اور کوسنے دیتے ہیں جمہوریت کو! جمہوریت ہو یا بادشاہت، اگر عدل پر قائم ہے تو دونوں میں خیر ہے۔ اگر کچھ برا ہے تو آمریت۔ مسئلہ وہی ہے کہ حق حکمرانی کی بنیاد کہا ں ہے۔ بھوٹان ہمارے ہی خطے میں ہمالیہ کہ برف پوش چوٹیوں میں واقع ریاست ہے۔ نئی تہذیب کی روشنی وہاں تک نہیں ۔ یہاں کا آئین کہتا ہے کہ ریاست کا مقصد لوگوں میں خوشی کی سطح کو بلند کرنا ہے۔ اس سلسے میں پورا نظام موجود ہے لوگوں کی امنگوں کا ادراک رکھنے کیلیے۔ بھارت کا حکمران مودی کشمیر میں اپنے کرتوتوں پر منہ چھپاتا جب بھوٹان جا نکلا اور میزبان ملک کو سرمائے اور صنعتی ترقی میں تعاون کی پیش کش کی تو وہاں کی حکومت نے کہا کہ باقی سب رہنے دیں ہمارے بچوں کو خلائی سائنس سے روشناس کرا دیں۔ اس ملک میں بادشاہت ہے، معیشت کا انحصار جنگلات، لائیوسٹاک ، تازہ مچھلی اور سیاحت پر ہے ،ملکی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ پن بجلی کے منصوبے ہیں! حکومتوں کی کارکردگی کو پرکھتا میڈیا جمہوریت کا مطلب انتخابات اور پرامن انتقال اقتدار تک ہی لے اور اس کی نوعیت کے سوال کو یکسر ہی گول کر رہا ہو تو سمجھیں معاشرے کی دانش کو دیمک چاٹ گئی ہے۔ تقریر و تحریر پر پابندی نہ ہونے کی باوجود آواز حق سنائی نہ دے ، تو سمجھ لیں سچ کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ آپ عدلیہ کی آزادی سے کچھ امیدیں لگا بھی لیں تو کب تک۔ عدل کا بیشتر حصہ تو ویسے ہی انتظامی اقدامات سے آتا ہے، جج خدا کی گلی کو دیکھ بھی لیں تو بھی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ سامنے کی بات ہے۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وقت مقررہ پر مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے، ویسے ہی جیسے وہ پارلیمان کے۔ اگر اس معاملے میں کوئی رکاوٹ ہے تو حکومت سے کہے ، اگر بات نہیں بنتی تو وہ عدلیہ سے رجوع کرے۔ آئین کی صریحاً خلاف ورزی ہورہی ہے ، صوبائی حکومتیں مطلوبہ قوانین بنا رہی ہیں اور نہ مالیاتی وسائل کی مقامی سطح پر منصفانہ تقسیم کے لیے کمیشن۔ اب وہ انتخابات تو ہو رہے ہیں جس میں ملک کی اشرافیہ کا فائدہ ہو لیکن وہ نہیں جس سے لوگوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی ممکن ہو تو قصور کس کاہے؟ جمہوریت کا یاپھر اس کی علمبردار سیاسی پارٹیوں کا ؟ آئین پاکستان میں موجود واضح احکامات کے باوجود ، مہینے نہیں سالہا سال بیت چکے ہیں، مقامی حکومتوں کے انتخابات التوا کا شکار ہیں۔ اب کون فیصلہ کرے کہ لوگوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرنے کا ذمہ دار کون ہے ؟ صوبائی حکومتیں یا پھر الیکشن کمیشن؟ تبدیلی کی خواہش کو چلیں دبا لیتے ہیں ، گردشِ دوراں کا گلا تو ہوسکتا ہے نا!