چیئرمین نیپرا توصیف فاروقی نے آگاہ کیا ہے کہ گردشی قرضہ 1900 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ گردشی قرضہ ایسی دلدل بن چکا ہے جس سے نکلنے کیلئے حکومت جتنے ہاتھ پائوں مارتی ہے اتنا ہی نیچے دھنستی چلی جا رہی ہے۔ گزشتہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد 500 ارب روپے بنکوں سے قرض لے کر گردشی قرضہ ادکرتے وقت قوم کو یقین دھانی کروائی تھی کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مستقبل میں گردشی قرضہ سے بچا جا سکے۔ بدقسمتی سے حکومت اب تک نہ صرف 500 ارب روپے پر بنکوں کو سود ادا کر رہی ہے بلکہ گزشتہ برس وفاقی وزیر بجلی و پانی عمر ایوب نے گردشی قرض میں 10 ارب ماہانہ کے اضافے کا انکشاف کرتے ہوئے وجوہات کے تعین کیلئے کمیٹی تشکیل دی تھی۔ جس نے چھ وجوہات کا تعین کیا تھا۔ تقسیم کار کمپنیاں جتنی نجی کارخانوں سے بجلی خریدتی ہیں اتنی رقوم وصول نہیں کر پاتیں۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں پی ایس او کو تیل کی ادائیگی نہیں کر پاتیں جس کی وجہ سے پی ایس او عالمی منڈی سے تیل نہیں خرید سکتا۔ ماہرین گردشی قرضے کی وجہ لائن لاسز ، بوسیدہ ٹرانسمشن لائنز اور سرکاری اداروں کی بجلی کے بل ادا نہ کرنا اور حکومت کی فوسل فیول سے بجلی پیدا کرنا ہے۔ اب ایک بار پھر گردشی قرضے 1900 ارب سے تجاوز کر چکے ہیں۔ بہتر ہو گا حکومت لائن لاسز میں کمی، ادائیگیوں میں توازن بہتر کرنے کے ساتھ ہائیڈل منصوبوں پر توجہ دے تاکہ سستی بجلی کے حصول کے ذریعے گردشی قرضوں کا مستقل خاتمہ ممکن ہو سکے۔