پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ٹویٹر پر ایک پاکستانی صحافی پر تشدد کے متعلق مذمتی بیان نے چونکا دیا۔ ٹوئٹ میں کہا گیا کہ’’صحافیوں پر حملے کبھی بھی برداشت نہیں کیے جاسکتے۔ ہم صحافیوں کی حفاظت اور ان پر حملوں کے احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ‘‘ امریکہ کا انسانی حقوق کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرنا معمول کی بات ہے لیکن ابھی کچھ ہفتوں پہلے ہی فلسطین کے شہر غزا میں اسرائیلی طاقت کی ہولناکی نے نہ صرف انسانی حقوق بلکہ صحافت کی بھی دھجیاں اڑادیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی میڈیا اس سفاکیت پر خاموش رہا۔ اسرائیل نے غزہمیں بی بی سی، اے پی، الجزیرہ اور متعدد دوسرے میڈیا دفاتر کو میزائل حملے سے تباہ کر دیا۔ یہ تمام دفاتر ایک ہی عمارت میں تھے۔ اس واقعے پر نہ انسانی حقوق سے جڑے جذبات برانگیختہ ہوئے اور نہ ہی صحافیوں کی جان و مال کے تحفظ کی فکر نے سر اٹھایا۔ ایسے میں ایک شخص پر معمولی نوعیت کے حملے پر امریکی سفارتخانے کے اتنے شدید رد عمل کو دوہرے معیار کی بد ترین مثال ہی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق و اقلیتی امور کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے جوابا امریکہ کو فلسطین میں صحافتی تنظیموں پر کیے جانے والے اسرائیلی مظالم نہ صرف یاد دلائے بلکہ تقاضا کیا کہ ان جرائم کا احتساب بھی کیا جائے۔ اسی طرح امریکہ کومقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کی حالت زار کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ امریکہ کو اپنے مطالبات پوری دنیا کے لیے یکساں قابل عمل بنانے ہونگے۔ دوسرے ممالک کو صحافتی اقدار پر عمل کرنے کی ہدایت دینے سے پہلے امریکہ کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ امریکی ادارے یو ایس پریس فریڈم ٹریکر کے مطابق سیاہ فام جارج فلائڈ کی موت کا سال امریکہ میں صحافت کے لیے بد ترین سال مانا جاتا ہے۔ ٹریکر کے اعداو شمار بتاتے ہیں کہ 2020 میں امریکہ میں صحافیوں پر 480 حملے کئے گئے، جبکہ 123 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح 200 واقعات میں صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کو بلا واسطہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جن میں کیمرے توڑنا، فنی آلات چوری کرنا اور نیوز روم تباہ کرنا شامل ہیں۔ یاد رہے کہ ان تمام واقعات میں ملوث افراد کی بڑی تعداد کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تھا۔ وائس آف امریکہ کی تحقیق کی رو سے امریکہ میں صحافت خطرناک شعبہ بنتا جارہا ہے۔ اسی طرح پر تشدد ماحول اور ایمرجنسی کی صورت حال میں فسٹ ایڈ کی تربیت دینے والے امریکی سکیورٹی کے ادارے GJS کے مطابق 2020 میں صحافیوں کی سکیورٹی کے حوالے سے تر بیتی پروگرامز میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ادارے کے ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر فرینگ سمتھ کے مطابق اس قسم کے تربیتی پروگرام پہلے صرف ان صحافیوں کو کروائے جاتے جنہوں نے عراق یا افغانستان جیسے ممالک میں رپورٹنگ کرنی ہوتی۔ انٹرنیشنل ویمن میڈیا فاونڈیشن کے مطابق امریکہ میں حالات کی خرابی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2019 میں ان کے ادارے نے 122 صحافیوں کو پر تشدد ماحول میں رپورٹنگ کرنے کی تربیت دی جبکہ 2020 میں یہ تعداد 1996تک جا پہنچی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صحافیوں کو پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں ساز گار ماحول فراہم کرنا حکومت کی اہم ذمہ داری ہے۔ جہاں آزادی رائے کی اجازت کیساتھ صحافیوں اور صحافتی اداروں کے جان و مال کی حفاظت کا خا طر خواہ انتظام ہو۔ صحافت عوام اور انکے نمائندوں کے درمان پل کا کام کرتی ہے۔ اگر یہ پل کمزور ہو جائے تو حقیقت جاننے کے لیے دوسرے راستے اختیار کئے جاتے ہیں جو زیادہ تر جھوٹے اور غیر معیاری ہوتے ہیں۔ اس کی مثال ہمیں ماضی قریب کے ایک واقعے میں ملتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک کالعدم تنظیم کی طرف سے ہونے والے مظاہروں کی میڈیا کوریج پر پابندی لگائی گئی۔ ایسے میں ہم نے دیکھا کہ کیسے جھوٹی اور من گھرٹ خبروں نے حکومت کو ولن اور کالعدم تنظیم کے کارکنوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا۔ یقینا پاکستان میں بھی صحافت کو بہت سی مشکلات درپیش ہیں۔ پہلے ادوار میں چونکہ انتظامیہ کا تعلق شعبہ صحافت سے ہوتا تھا اس لیے سنسر شپ کے لیے حکومت کو سخت اقدامات اٹھانا پڑتے۔ بہر حال یہ دشواری آج کے کاروباری دور میں تقریبا ختم ہوگئی ہے۔ ادارے خود ہی بہت سی خبروں کے تعاقب میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ ایک خاموش سنسر شپ پر سب عمل پیرا ہیں۔ ایسے میں سوشل میڈیا نے ایک دروازہ کھلا رکھا ہے جہاں سے صاف ستھری صحافت کی جاسکتی ہے۔ جس شخص کی بات آغاز میں کی وہ بھی ایک یو ٹیوب چینل چلاتے ہیں اور بظاہر ان پر یہ حملہ بھی اس چینل پر چلنے والے پروگرامز کی وجہ سے کیا گیا ہو گا۔ بہرحال صحافی ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ کے جو دل میں آئے کرتے پھریں۔ نہ ہی سوشل میڈیا کا مقصد دوسرے کی عزت اچھالنا ہونا چاہیے۔ ان سے کئی معاملات میں غیر پیشہ وارانہ حرکات سر زد ہوئیں جیسے کہ ایک نجی ٹی وی کی خاتون اینکر کی کردار کشی کرنا اور کچھ افسران پر اس اینکرکی پشت پناہی کا الزام لگانا۔ اسی طرح اور بھی اینکرز اور میڈیا پرسنز کی ذاتی زندگیوں پر حملہ کیا گیا، جیساکہ چوہدری غلام حسین۔ کسی بھی تعلق میں ذمہ داری کا عمل یک طرفہ نہیں ہوتا۔ اگر صحافی آزادی رائے چاہتے ہیں تو حکومتی اور نجی ادارے بھی قومی اورذاتی سکیورٹی کو قائم رکھنے کے پابند ہیں۔ گو پاکستان میں قومی سلامتی کے مفروضے کا بہت غلط استعمال کیا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اسے بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ آجکل بہت تواتر سے صحافیوں پر حملے کی وارداتیں سامنے آ رہی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بھی ایک صحافی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ کیا سچ ہییہ تو تحقیقاتی رپورٹ ہی سے سامنے آئے گا۔ ماضی میں ایسی تمام تحقیقی رپورٹس کو دبا دیا گیا۔ عدالتوں، صحافتی تنظیموں اور میڈیا ریگولیٹری باڈیز کو چاہیے کہ ان تحقیقی رپورٹس کو سامنے لانے کا انتظام کریں تاکہ کہیں غلط بیانی سے کام لیا جارہا ہے تو اس کا سد باب کیا جائے۔ خبروں اورمعاملات کی شفافیت ہی کے ذریعے پاکستان میں صحافتی اقدار کو مزید گرد آلود ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔