آگرہ ، آسام (نیوزایجنسیاں ) آگرہ میں مسلم کش فسادات کے دوران درجنوں دکانیں جلا دی گئیں جبکہ 3 افراد زخمی ہوگئے ۔بھارتی میڈیا کے مطابق آگرہ کے گاؤں سیمرہ میں مسلم کش فسادات کے باعث شدید تناؤ اور کشیدگی ہے ۔مشتعل اور جنونی ہجوم نے مسلمانوں کی دکانوں اور املاک کو نذرآتش کردیا جبکہ ایک نوجوان کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا ہے ۔گاؤں کے مسلمان مکینوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ خود کو محفوظ تصور نہیں کر ر ہے ۔تاحال پولیس نے حملہ آوروں کیخلاف ایف آئی آر درج کی اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے ۔عینی شاہدین کے مطابق فسادات کا آغاز دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے نو عمر لڑکے اور لڑکی کے گھر سے فرار ہونے کے بعد ہوا۔ پولیس نے پسند کی شادی کے خواہاں جوڑے کو دہلی سے برآمد کر کے لڑکے کو لڑکی کے اغوا اور سمگلنگ کے الزام میں حراست میں لے لیا۔ ادھر آسام میں پولیس چوکی کے اندر حاملہ مسلمان خاتون اور اس کی دو بہنوں کو برہنہ کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق ضلع ڈارنگ میں ان خواتین کو ان کے بھائی سے متعلق تفتیش کیلئے چوکی لے جایا گیا۔تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کے بھائی پر ایک لڑکی کے اغوا کا الزام تھا، جو مبینہ طور پر اپنی مرضی سے لڑکے کے ساتھ گئی تھی ۔پولیس تشدد کا نشانہ بننے والی حاملہ خاتون نے صحافیوں کو بتایا کہ پولیس کے تشدد کے بعد اسے شدید اندرونی چوٹیں آئیں تاہم اپنی جان بچانے کیلئے اسے اسقاط حمل کرانا پڑا۔میڈیا پر خبر سامنے آنے پر سب انسپکٹر مہندرا سرما اور کانسٹیبل بنیتا بورو کو معطل کردیا گیا۔ متاثرہ خواتین میں سے ایک نے بتایا کہ ان کے بھائی کیخلاف اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا جو لڑکی کے اہلخانہ نے درج کرایا۔ ہم نے پولیس کو اپنے بھائی اور لڑکی کی موجودگی کا پتہ لگانے میں مدد کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن پھر بھی پولیس نے ہمیں گھروں سے اٹھالیا۔متاثرہ بہنوں میں سے ایک نے بتایا جب ہم نے پولیس کو بتایا کہ ہمیں بھائی کے بارے میں کوئی علم نہیں تو وہاں موجود ایک سب انسپکٹر اور لیڈی پولیس کانسٹیبل نے برہنہ کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ جب ہمیں گھر جانے کی اجازت دی گئی تو پولیس اہلکاروں نے سنگین تنائج کی دھمکیاں دیں جبکہ سب انسپکٹر نے ہم پر پستول تان کر کسی کو بھی نہ بتانے کا مطالبہ کیا۔