کمرہ امتحان کی نگرانی کرتے ہوئے میں ایک امیدوار کی کرسی کے پاس پہنچ کر ٹھٹھک گیا۔ امیدوار اجازت لے کر واش روم گیا ہوا تھا اور اس کی امتحانی کاپی پر جو کچھ درج تھا اس نے مجھے رکنے پر مجبور کردیا تھا۔ کاپی اٹھا کر میں پڑھنے لگا۔ امیدوار نے ممتحن کے نام نہایت عاجزی سے ایک مختصر سا خط لکھا تھا: ’’سر! پلیز مجھے پاس کردیجئے گا۔ میں بہت غریب ہوں۔ اگر میں فیل ہوگیا تو میرا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ مجھے کہیں نوکری نہیں ملے گی۔ پلیز سر پلیز پاس کردیجئے گا۔‘‘ کاپی کے ہر صفحے پر ملتے جلتے الفاظ میں یہی التجا کی گئی تھی۔ میں صفحات پلٹنے میں مگن تھا کہ مجھے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ پلٹ کر دیکھا تو وہی امیدوار کھڑا تھا جس نے یہ مضمون لکھا تھا۔ صحت مند‘ گورا رنگ‘ پیلے رنگ کی جرسی اور جینز میں ملبوس‘ وہ کہیں سے بھی غریب یا مجبور نظر نہیں آتا تھا جیساکہ خط میں اس نے اپنی حالت کا نقسہ کھینچا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: ’’یہ تم کیا لکھ رہا ہے؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ امتحانی کاپی پر اس قسم کی درخواست ممتحن کے نام لکھنا قانوناً جرم ہے۔ کیا میں تمہاری کاپی ضبط کرلوں؟ اور تمہیں اس جرم میں کمرہ امتحان سے نکال دوں؟‘‘ یہ سنتے ہی امیدوار کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ ’’پلیز سر! مجھے معاف کردیجئے۔ میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ میں نے سختی سے کہا: ’’ایک بات بتائو۔ سڑک پر جو بھکاری گڑ گڑا کر راہ گیروں سے بھیک مانگتا ہے اور کہتا ہے میں دو دن سے بھوکا ہوں۔ روٹی کھلادو۔ اس بھکاری میں اور تم میں کوئی فرق ہے؟ تم بھی تو ایک بھکاری کی طرح نمبروں کی بھیک ہی مانگ رہے ہو۔ کیا فرق ہے اس بھکاری میں اور تم میں۔‘‘ یہ سن کر اس کا سر جھک گیا۔ برسوں سے ایک استاد اور ممتحن کے طور پر امتحانی کاپیاں جانچنا میرا بھی معمول رہا ہے۔ اور گاہے بہ گاہے ایسی درخواستیں اور التجائیں امتحانی کاپیوں پر پڑھنے کا میرا تجربہ بھی خاصا پرانا ہے۔ یہ مشاہدہ بھی ہے کہ جو طالب علم یا طالبہ امتحانی کاپی پر ایسی درخواست نہیں لکھتے وہ استاد سے ملاقات میں ضرور یہ اصرار کرتے ہیں کہ سر! نمبر اچھے دیجئے گا۔ میری پوزیشن ماری جائے گی اگر آپ نے مجھے اے گریڈ نہ دیا تو۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی امیدوار فیل ہو جائے تو وہ استاد سے آ کر یہ نہیں کہتا کہ سر! میں نے کیا غلطیاں کی ہیں کہ میرے نمبر اتنے کم آئے۔ مجھے بتا دیجئے تاکہ آئندہ وہ غلطیاں نہ کروں۔ یہ کہنے کے بجائے وہ آ کر ذرا سی ناراضگی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’سر! آپ نے تو مجھے فیل کردیا۔ میرا امتحان تو بہت اچھا ہوا تھا۔‘‘ پوچھنے کا یہ انداز ایسا ہوتا ہے جیسے ممتحن نے کسی دشمنی کی وجہ سے انتقاماً فیل کردیا ہو۔ آج کے طالب علم کی نظر اس پر نہیں ہوتی کہ دو سال میں اس نے کیا کچھ پڑھا اور کتنا کچھ سیکھا۔ اس کے علم میں کس قدر اضافہ ہوا اور اس نے لکھنے لکھانے کی مہارت کس قدر حاصل کی۔ ان باتوں کی پروا طالب علم کو ہوتی ہے نہ والدین کو۔ ساری توجہ سارا زور نمبروں پر ڈویژن اور ڈگری پر ہوتا ہے جہاں تک معاملہ امتحانی کاپیوں پر ممتحن کے نام درخواست لکھنے کا ہے۔ میرا اپنا اندازہ کچھ ایسا ہے کہ امتحانی کاپیوں پر اس قسم کی بھیک نمبروں کی ایسے امیدوار مانگتے ہیں جو: 1۔ امتحان کی تیاری کیے بغیر امتحان میں شریک ہوتے ہیں۔ سوالنامہ پڑھتے ہی انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ وہ اسے حل کرنے میں ناکام رہیں گے اور فیل ہو جائیں گے۔ تب ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہوتا کہ ممتحن کی خوشامد کرکے اپنی حالت کو قابل رحم بنا کر اس طرح پیش کریں کہ ممتحن کا دل بھی سینچ جائے اور وہ اسے فیل کے بجائے پاس کردے۔ 2۔ وہ طالب علم جو والدین کو یہ یقین دلاتے رہے ہیں کہ وہ اپنی پڑھائی میں بہت سنجیدہ ہیں۔ پڑھنے پڑھانے اور کمبائنڈ اسٹڈی کے بہانے وہ اجازت لے کر گھر سے نکل جاتے ہیں اور پھر سارا وقت دوستوں کے ساتھ ہوٹلنگ کرنے‘ سیر و تفریح اور گپ شپ میں گزار کر وقت ضائع کردیتے ہیں۔ کمرہ امتحان میں انہیں یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ اگر فیل ہو گیا تو گھر والوں کو کیا منہ دکھائوں گا۔ یہ خوف انہیں مجبور کرتا ہے کہ ممتحن کو پاس کرنے پر کسی طرح آمادہ کرلیا جائے۔ 3۔ کچھ طالب علم یقینا ایسے بھی ہوں گے جو ملازمت اور تعلیم ساتھ ساتھ جاری رکھتے ہوں گے۔ ملازمت کی مصروفیت میں انہیں امتحان کی تیاری کا موقع مشکل ہی سے مل سکا ہوگا۔ چونکہ ملازمت میں ترقی کے لیے ڈگری کی بھی شرط ہوتی ہے۔ اس لیے امتحان میں فیل ہونے کے خیال ہی سے انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگتا ہے جس کی دہائی دے کروہ ممتحن سے رعایت چاہتے ہیں۔ کسی بھی امتحان میں امیدوار کی طرف سے نمبروں کی بھیک مانگنے کی وجہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اس رویے کو کم سے کم لفظوں میں شرمناک ہی کہا جائے گا۔ امیدوار نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ یہ سبق کبھی نہ بھولے گا۔ لیکن میں اب بھی اسی سوچ میں ہوں کہ ہم نے ڈگری کو تعلیم اور علم کا نعم البدل سمجھ لیا ہے۔ علم کے بغیر ڈگری۔ یہی تصور‘ یہی خیال ہے جس نے علم حاصل کرنے کو غیر ضروری اور کسی طرح بھی امتحان پاس ہونے کو ضروری بنا دیا ہے۔ قصور صرف امیدوار کا نہ تھا‘ ذمہ داری اس ’’امتحانی مرکز‘‘ نظام تعلیم پر بھی عائد ہوتی ہے۔ مگر اسے بدلے کون؟ اس پر سوچے کون؟