جس دن عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی۔عمران خان کی پارٹی نے قومی اسمبلی سے اپنے تمام ارکان کے استعفے پیش کر دیے۔ دلیل یہ تھی کہ وہ ایسی اسمبلی میں بیٹھنے کے لئے تیار نہیں جس میں چور ڈاکو بیٹھے ہوں۔شہباز شریف محض چند ووٹوں کی اکثریت سے ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔اگر تحریک انصاف اسمبلی سے باہرتو اس بات کا امکان موجود تھاکہ جس دن دوچار ارکان اسمبلی نے ادھر سے ادھر چھلانگ لگائی یا کسی پرانے اتحادی نے حکومت کو خیر باد کہہ کر دوبارہ عمران خان کا ہاتھ تھاما اقتدار ان کی جھولی میں آ گرے گا۔اب عمران مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ طے ہے کہ وہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ انہوں نے اس وقت شاید غلط فیصلہ کر دیا تھا۔عمران کو شاید یہ بھی یقین تھا کہ مقتدر حلقے بھی صورتحال پر خاموش نہیں رہیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ عمران خان نے محض چند ماہ میں 70فقید المثال جلسوں سے خطاب کر کے اپنے اس موقف پر عام لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔انہوں نے پہلے اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش کا شاخسانہ قرار دیا۔ایک سائفر کو بنیاد بنا کر پاکستانیوں کو بتایا کہ امریکہ کے کہنے پر جنرل باجوہ اور ان کے سیاسی مخالفین نے مل کر ایک پلان کے تحت ان کی حکومت کا خاتمہ کیا۔اپنے اس بیانیے کو عام لوگوں کے ذہنوں میں ٹھونسنے کے لئے ان کی آواز میں بتدریج تیزی اور تندہی آتی چلی گئی۔لیکن بہت سے لوگوں کو خصوصاً نوجوانوں کو اپنی بات پر قائم کرنے کے باوجود عمران انتخابات کے انعقاد کو ممکن نہ بنا سکے۔ پھر انہوں نے گذشتہ جولائی میں ضمنی انتخابات میں پنجاب میں بازی پلٹ کر سب کو حیران کر دیا۔اپنے اتحادی پرویز الٰہی کے ساتھ مل کر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی حکمرانی کا تاج اپنی پارٹی کے سر پر سجا لیا۔لیکن شاید وہ وزارت عظمیٰ سے کم کسی بھی بات پر آمادہ نہیں تھے پہلے انہوں نے لانگ مارچ کرنے اور اسلام آباد پہنچ کر شہباز حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کا اعلان کیا لیکن اس مارچ کے دوران وہ ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہو گئے۔مارچ راولپنڈی میں ایک جلسے کے انعقاد پر ختم ہوا اور انہوں نے وفاقی دارالحکومت پہنچنے سے پہلے ہی اسے موخر کر کے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ساتھ ساتھ وہ اپنے بیانات سے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر دبائو ڈالتے رہے کہ وہ جلداز جلد الیکشن کرائے۔اس مرحلے پر انہوں نے اپنے اس بیانیے کو بھی بدل دیا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکہ کا ہاتھ تھا اور اس سلسلے میں تمام تر ذمہ داری جنرل باجوہ پر ڈال دی پنجاب اور کے پی کے کی حکومتوں کو تحلیل کے بعد بھی وہ وفاقی حکومت کو اب تک اس بات پر قائل نہیں کر سکے کہ وہ ملک بھر میں عام انتخابات کا اعلان کرے۔پاکستان کی موجودہ سیاست میں اس وقت نہ عمران حکومت کو عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اپنی بات منوانے پر راضی کر سکے ہیں بلکہ یکے بعد دیگرے اپنے بیانیے کو تبدیل کرنے‘ اسمبلیوں کو تحلیل کرنے‘ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں حسب توقع کامیابی حاصل نہ کر سکنے اور اپنے ہاتھوں اپنے سیاسی مخالفین کو انتظامی اور سیاسی طور پر زیادہ مضبوط کرنے کی بھی غلطی کر بیٹھے ہیں۔اس کے باوجود کہ موجودہ حکومت معاشی طور پر ملک کو بحران سے نکالنے میں اب تک ناکام رہی ہے اور اسے اس وقت عوامی غم و غصے کا سامنا ہے لیکن ایسی صورتحال میں بھی عمران خان اپنی حکمت عملی سے حکومت کو بآسانی گھٹنوں پر لانے کے بجائے اپنے اقدامات سے اسے زیادہ توانا کر بیٹھے ہیں۔دوسری طرف یہ بات بھی یقینی ہے کہ محض چند ماہ پہلے عمران خان کی عوامی مقبولیت کے جو تیز ہوا چل رہی تھی اس میں اس جذباتی انداز کا رنگ ذرا پھیکا پڑ رہا ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ وہ اب بھی سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہیں لیکن انہوں نے اپنے فیصلوں اور اقدامات سے اپنے مخالفین کے لئے Spaceپیدا کر دی ہے۔ ساتھ ساتھ بہت آہستگی سے بتدریج عمران خان کے موقف پر دیوانہ وار ساتھ دینے والوں کا جذباتی انداز بھی دھیما پڑتا دکھائی دے رہا ہے یہ درست ہے کہ الیکشن ہوئے تو عمران کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے لیکن جوں جوں وقت گزر رہا ہے عمران کے سامنے مختلف النوع کے نہ صرف سوالات ابھر رہے ہیں بلکہ ان کی جماعت کے لئے کئی مشکلات اور مسائل بھی کھڑے ہوتے جا رہے ہیں۔سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں شاید ان کا مطمع نظر یہ ہے کہ کسی بھی طور پر حکومت کو انتخابات کے انعقاد پر مجبور کیا جائے۔لیکن اب تک وہ اس میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آ رہے یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مختلف آڈیوز اور عمران کے خلاف مختلف الزامات کے باوجود ان کا ووٹرز اور سپورٹرز بنک میں اس طرح کا ڈینٹ نہیں پڑ سکا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔اسی لئے قومی اسمبلی میں عمران کی پارٹی کے ارکان نے جس انداز میں استعفے منظور کئے گئے اس سے حکومت پہ خوف صاف عیاں ہے کہ وہ الیکشن کے انعقاد سے پیچھے ہٹ رہی ہے شاید حکومت سمجھ رہی ہے کہ اپریل میں عمران کی حکومت گرا کر انہوں نے اپنے بہت سے مفادات تو پورے کر لئے لیکن اپنا سیاسی اثاثہ بہت تیزی سے گنوا بیٹھے ہیں۔ساتھ ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور پٹرول اور بجلی گیس کے بڑھتے نرخ بھی عوام میں اضطراب اور حکومت مخالف جذبات پیدا کرنے کا سبب نے ہیں شاید مسلم لیگ (ن) کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ الیکشن اس وقت ہوں جب آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو چکا ہو اور مہنگائی کے اثرات اس میں جذب ہو چکے ہوں۔اس کے بعد وہ اپنا سیاسی اثاثہ کچھ نہ کچھ بحال کر سکیں۔ ملک میں اس وقت صورتحال کا سنجیدگی سے ادراک نہیں کیا جا رہا سیاست زیادہ ہو رہی ہے باہم مل بیٹھ کر کسی ایک لائحہ عمل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی عمران خان اپنی ضد پر اڑے رہیں حکومت کے ساتھ مذاکرات پر رضا مند نہ ہوں۔حکومت اپنے اقدامات سے غیر یقینی کی فضا کو ہوا دیتی رہے نقصان عوام کا ہو رہا ہے۔ملک ایسی صورتحال سے دوچار ہے جس میں سب کو مل بیٹھ کر گرینڈ ڈائیلاگ کرنے چا ہئیں، جو کچھ کرنا ہے کر گزریں۔ ایسا نہ ہو کہ مہلت ختم ہو جائے۔