چوہدری خورشید مرحوم نے اپنی کتاب باغبانی میں کئی پھولوں کے دیسی اور مقامی نام لکھے ہیں۔ ہم جب فلوریکلچر پڑھ رہے تھے تو اپنے اساتذہ سے جوہی، چنبا، بیلا، رات کی رانی، ہار سنگھار، عشق پیچاں کے پھولوں کی بابت پوچھا کرتے۔ پھول پودے سراپا بلکہ جڑ سے سر تک عشق کی علامت ہیں۔ دنیا میں کسی وجود کی بقا اس وقت تک ہے جب تک اس سے محبت کرنے والے باقی ہیں۔ جب محبت کرنے والے عناصر یا مخلوق ختم ہو جائے تو وہ جانور ہو، پرندہ ہو یا درخت معدوم ہو جایا کرتا ہے۔ زمین اس لیے زندہ ہے کہ اس سے محبت کرنے والے لوگ ابھی باقی ہیں۔ اگر سارے پاکستانی سیاستدان بن جائیں تو کام کون کرے گا۔ زمین سے پیار کون کرے گا، درخت کون لگائے گا۔ قذافی سٹیڈیم کے گرد سینکڑوں بیڑی کے درخت تھے، ان کے پتوں میں تمباکو لپیٹ کر خشک کرلیا جاتا ہے۔ بیڑی غریب لوگوں کے سگریٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ یہ درخت پاکستان کی آب و ہوا کا نہیں، غالباً یہ مشرقی پاکستان کی یادگار ہے۔ جب دونوں ایک ملک تھے تو وہاں سے یہ پودے لاہور سٹیڈیم کے گرد لگا دیئے گئے۔ لاہور سٹیڈیم کو بعدازاں قذافی سٹیڈیم کا نام دیا گیا۔ سٹیڈیم کی سیڑھیوں کے نیچے ہال کمروں میں پولیس کے ریکروٹ رہتے تھے۔ یہاں پولیس سکول کی کلاسز ہوتی تھیں۔ ریکروٹ یا رنگروٹ ان درختوں کی دیکھ بھال کرتے، ان کے گھنے سائے تلے بیٹھ کر پڑھتے۔ اب یہاں کھانے پینے کے اڈے کھل گئے ہیں۔ آدھے درخت کٹ چکے ہیں۔ باقی آدھے آری کے منتظر۔ باغ جناح میں درختوں اور پودوں کے تنے، پتوں اور پھولوں کا مطالعہ کرتے کرتے ہم جونہی کافور کے اس پیڑ تک آتے، ہماری کیفیت بدل جاتی۔ بانو قدسیہ نے اس درخت کو ایک خاص حوالے سے اپنے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ میں پیش کیا ہے۔ مجھے اس کے نیچے کم گھاس والی زمین پر ناول کا کردار ’’سیمی‘‘ دکھائی دیتی ہے۔ سیمی اپنے محبوب کی جستجو میں اپنا بدن تحلیل کرکے کسی دوسرے کا حصہ بن جانے کے روحانی عمل سے اسی سفید لکڑی والے کافور کے پیڑ کے نیچے بارہا گزری۔ درخت محبت کرنے والوں کے سائبان ہوتے ہیں جس نے محبت کی اس کے دل میں کسی پیڑ کی یاد بھی ضرور ہوگی۔ کبھی کبھی محبت کرنے والوں کے ہاتھوں پیڑوں کو نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ نامور ہدایت کار سید نور اور اداکارہ صائمہ کی شادی کی خبر ابھی بھاپ کی طرح تھی۔ چند لوگوں کو پتہ تھا۔ شاہنواز رانا کے ساتھ شاہ نور سٹوڈیو میں سید نور سے ملنے گئے۔ ان کے کندھے سے لگ کر بیٹھی صائمہ سکرین والی صائمہ سے کہیں زیادہ خوبصورت اور ملنسار معلوم ہوئی۔ صائمہ نے بتایا کہ ایک زمیندار کے آموں کے باغ میں فلم والوں نے اتنے شوٹ کئے اور اداکارائیں آم کے پیڑوں کے تنوں سے اتنی لپٹیں کہ آخر سارا باغ سوکھ گیا۔ لاہور ہمیشہ غارت گروں کی نظر میں رہا۔ جانے یہ شہر کتنی بار اجڑا مگر تاریخ میں ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ اس کا دوبار اجڑنا ثابت ہے۔ محمود غزنوی نے آخری حملے میں لاہور میں قیام کیا۔ فتح کے بعد حکم دیا کہ اس شہر کی کوئی دیوار اور دروازہ سلامت نہ رہے۔ چھ دن تک شہر کو مسمار کیا جاتا رہا۔ چھٹے دن محمود باہر نکلا اور دیکھا کہ کوئی اینٹ اور پتھر بھی سر اٹھا کرنہیں کھڑا تھا۔ لاہور کے بچوں اور عورتوں کو غزنی کے بازاروں میں غلام بنا کر فروخت کردیا۔ ان دنوں غزنی میں اتنے افغان نہیں تھے جتنے لاہور کے غلام تھے۔ محمود نے جاتے جاتے ملک ایاز کو گورنر بنایا۔ ایاز نے درخواست کی کہ حضور ان مسمار دیواروں کا گورنر بنائے جا رہے ہیں؟ محمود نے اجازت دی کہ اردگرد کے دیہات سے لوگوں کو شہر میں لا کر بسائو انہیں غلام نہیں بنایا جائے گا۔ لاہور کے قریبی دیہات سے بڑی مشکل سے لوگ لاہور آئے۔ دوسری بار لاہور بابر کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ اس نے بھی محمود غزنوی کی طرح چھ دن تک شہر کو مسمار ہونے دیا۔ پھر اسے نئے سرے سے آباد کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سال پرانے لاہور شہر کی کوئی ایک عمارت بھی بابر کے دور سے قبل کی نہیں۔ ہاں چند قبریں تھیں جن کے نشان باقی رہے، ان میں بی بی پاک دامن، حضرت میراں حسین زنجانی اور داتا گنج بخش کی نشانیاں موجود رہیں۔ راوی دریا کے کنارے پر شہرلاہور آباد ہے اور دوسرے کنارے پر کھجوروں کے قدیم جھنڈ تھے۔ ان کھجوروں کی کچھ نشانیاں راوی کا پل عبور کرتے ہی بائیں ہاتھ پر اب تک موجود ہیں۔ لاہور کے اردگرد کیکر، بیری، ون اور جنڈ کے درخت کثرت سے ہوتے تھے۔ راستوں پر برگد اور پیپل کی ٹھنڈی چھائوں والے درخت ہوتے۔ مغل اپنے ساتھ سرو، مورپنکھ، گلاب کے پودے لے کر آئے۔ مغل دور کی پینٹنگز کا جائزہ لیں تو باغ کے مناظر میں یہ پھول پودے نمایاں دکھائی دیں گے۔ بابر اپنی تزک میں لکھتا ہے کہ جب وہ پشاور پہنچا تو یہاں جنگل میں گینڈے عام تھے۔ یہ چھ سو سال پہلے کی بات تھی۔ ڈیڑھ سو سال پہلے لاہور میں ماڈل ٹائون کی آبادی تعمیر کرنے کی غرض سے گھنے جنگل کو صاف کیا گیا۔ یہاں زیادہ تر ہندو امرا نے فارم ہائوس بنائے۔ ہر گھر میں لازمی پھل پھول اور سایہ دار درخت لگانے کی ہدایت کی گئی۔ جانے ٹاہلی ہمارے ہاں کب اور کیسے آئی مگر یہ لوک گیتوں کا حصہ بن گئی۔ وہ گیت تو سنا ہوگا۔ ٹاہلی دے اتے بور۔ میرا ماہی میتھوں دور۔ پھر اس گیت کو کون فراموش کرسکتا ہے: تیرے رنگ دی قمیض سوانی ٹاہلی اتے بیٹھ طوطیا ایک لوک گیت اپنے خاندان کے ایک بزرگ سے سنا تھا بچپن میں۔ اس کے مصرعے یاد ہیں: روہی دیا پپلا کاہنوں چھڈیاں ای لغراں کون لیاوے میرے ڈھول دیا خبراں ہوکے رہیا میرا ڈھول نی دیوانہ روہی دیا جنڈا کاہنوں کھڑکھڑ لائی جھڑ گئے پرانے رت نوئیاں دی آئی مستنصر حسین تارڑ صاحب نے بتایا کہ جب وہ ایک جنگل کے درمیان ٹالسٹائی کی کچی قبر پر حاضری کے لیے پہنچے تو اردگرد جنگلی زرد پھولوں کو چن کر انہوں نے ٹالسٹائی کی قبر پر ڈال دیا۔ ٹالسٹائی نے وصیت کی تھی کہ اسے جنگل کے درمیان فلاں درخت کے پاس لمبی شاخوں والی ایک جھاڑی کے پہلو میں دفن کیا جائے تاکہ اس کی شاخیں قبر کو چھوتی رہیں۔ ہم پاکستان میں رہتے ہیں یہاں حکمران زندہ ہوتے ہیں تو محلوں میں رہتے ہیں۔ مر جاتے ہیں تو ان پر مہنگے پتھروں کا سائبان بنا دیا جاتا ہے۔ حکمرانوں کی دیکھا دیکھی عوام نے بھی قبرستانوں میں مقبرے بنانے شروع کردیئے ہیں۔ درخت حیرت سے ہمیں دیکھ رہے ہیں کہ اب انسان ہمارا کیا کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے خیبرپختونخوا کے بعد ملک کے باقی علاقوں میں بھی شجرکاری کی ہدایت کی ہے۔ گرین اینڈ کلین پاکستان سے ہم اپنا چہرہ صاف کرسکتے ہیں۔ درخت اور پرانے پرندے واپس لا سکتے ہیں۔ اس جنڈ کی نسل بچا سکتے ہیں جس پر مرزا نے اپنی کمان اور ترکش لٹکا کر نیند پوری کرنے کی ضد کی اور صاحباں نے اس ڈر سے تیر توڑ ڈالے کہ مرزا ان تیروں سے اس کے بھائیوں کو مار نہ ڈالے۔ میں نے ہیر کے مقبرے کے ساتھ کچھ پرانے درخت دیکھے ہیں، میری خواہش ہے محبت کے یہ درخت بچ جائیں۔ بی بی پاک دامناں کے مزار کے صحن میں ڈیڑھ ہزار سال پرانا جنڈ کا درخت اب بھی موجود ہے۔ میں اسے زیادہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ ان درختوں کی نسلوں کو بچانے کا خصوصی انتظام کیا جائے گا جو ہماری ثقافتی تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاریخ صرف انسانی جنگوں کا نام نہیں تاریخ انسان اور فطرت کے تعلق کی داستان ہے۔