فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس کا قیام 1989ء میں عمل میں آیا۔ جس کا بنیادی مقصد بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی‘ کالے دھن کو سفید کرنے اور اس طرح کے دیگر خطرات سے محفوظ کرنے کے لئے قانونی‘ انضباطی اور عملی اقدامات کرنا تھے۔اس تنظیم کے پینتیس اراکین میں بھارت جیسے ملک کی شمولیت پر سوال اٹھنا چاہئے تھے لیکن بھارت کی بین الاقوامی ساکھ اور موثر خارجہ پالیسی کی بدولت وہ ملمّع سازی میں کامیاب ہے۔پاکستان بہرحال اس کا رکن نہیں ہے۔2008ء میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لئے بھاری رقوم کی ترسیل کے خلاف مربوط نظام کے فقدان پر تحفظات کا اظہار اپنی ویب سائٹ پر بیان جاری کر کے کیا۔اس طرح پاکستان نگرانی کی فہرست میں شامل کر لیا گیا یوں بیانات کا سلسلہ چل نکلا اور خدشات تواتر سے دہرائے جاتے رہے۔منی لانڈرنگ کے تدارک کے لئے ورلڈ بنک اور ایشیا پیسفک گروپ کے ساتھ تعاون کا نیم حکم نامہ بھی جاری ہو گیا۔دوسرے برس پاکستان میں سیاسی قیادت نے ان تجاویز پر ایکشن پلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں ناکافی قرار دے دیا گیا بلکہ مزید اقدامات کی نشاندہی بھی کر دی، جس میں سرحد پار رقوم کی منتقلی‘ دہشت گردوں کے اثاثوں کا کھوج لگانا اور ان کو منجمد کرنا جیسے نکات شامل تھے۔ظاہر ہے یہ سب اقدامات بھارت کی ایما پر ہو رہے تھے۔ جس کا تعلق مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی سے جوڑا جا رہا تھا۔عملاً پاکستان کی مالی مدد یا دیگر لوازمات کی فراہمی کو منہا ہوئے کم و بیش ایک دھائی بیت چکی تھی۔اخلاقی یا سفارتی حمایت محکوم کشمیریوں کا پاکستان پر قرض ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔اگلے تین برس پاکستان کے عملی اقدامات پر عدم اطمینان کے برملا اظہار کے ساتھ درست قانون سازی کو یقینی بنانے کی ہدایت ملنی شروع ہو گئی تاکہ یہ جانچ کی جا سکے کہ پاکستان کی جانب سے کئے گئے اقدامات ایف اے ٹی ایف کے میعاد کے مطابق ہیں؟ 2014ء میں انسداد دہشت گردی کے ترمیمی آرڈیننس کو باضابطہ طور پر قانون کا درجہ دینے کا مطالبہ سامنے آیا۔بہرحال 2015ء میں پاکستان مانیٹرنگ لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا، ان پانچ برسوں میں اگرچہ پاکستان کو عارضی طور پر گرے لسٹ میں بھی ڈالا گیا تھا لیکن وہ صرف ایک جھلک تھی۔2018ء میں باقاعدہ اور طویل مدت کے لئے پاکستان کو گرے لسٹ میں دھکیلنا ہی استعماری قوتوں کا مقصد تھا اس سے قبل مغربی ممالک اور امریکہ کے مفادات وابستہ تھے اور افغانستان سے باوقار واپسی پاکستان کے عملی تعاون کے بغیر بعیداز قیاس تھی۔گرے لسٹ کی تلوار بدستور لٹکتی ہیں۔گزشتہ تین برسوں میں یہ معاملہ امید کے سہارے چلتا رہا‘ بالآخر چار سال کے طویل اور اعصاب شکن انتظار کے بعد بلیک لسٹ کے بادل چھٹتے نظر آ رہے ہیں مگر ابھی تک گرے لسٹ سے باہر نہیں نکل سکا۔فی الحال ایف اے ٹی ایف نے عندیہ دیا ہے اور پاکستان کی جانب سے خاطر خواہ پیش رفت کا اعتراف بھی لیکن اندرون ملک قیاس آرائیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ چل نکلا۔برلن میں جاری اجلاس کے اختتام پذیر ہونے کا انتظار کئے بغیر اور اعلامیہ سے قبل غیر ذمہ دار سوشل میڈیا نے گرے لسٹ سے نکلنے کا ہیجان پیدا کر دیا۔وزیر مملکت برائے خارجہ کی واضح اور غیر مبہم ٹویٹ کے باوجود محض حوصلہ افزا مذاکرات کی بنیاد پر خبر بریک کرنے میں سبقت لے جانے کا کریڈٹ ایک ایسا رجحان پیدا ہو چکا ہے جس کی تصحیح مستقبل قریب میں نظر نہیں آ رہی۔اگرچہ ایف اے ٹی ایف کا وفد مستقبل قریب میں پاکستان کا دورہ کر کے عملی اقدامات کا جائزہ لے گا اور پھر حتمی طور پر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالا جائے گا لیکن ان مراحل سے بے خبر سماجی رابطوں کے ذرائع کے خود ساختہ صحافی اور تجزیہ کار افراتفری میں الجھائو کی صورتحال پیدا کرنے میں ضرور کامیاب رہے۔سردست انتظار کے علاوہ کوئی چارہ نہیں‘حکومتی حلقوں میں مبارک سلامت کا شور غوغا بھی اٹھ کھڑا ہوا‘ سب سے حیران کن بات دیکھنے میں آئی کہ اس کامیابی کا سہرا کس کے سر ہے!حکومتی حلقے اس اعزاز کا تغمہ از خود لینے کی دوڑ میں جت گئے۔تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ان کے دور میں حکومت ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عملدرآمد شروع ہوا‘مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ تمام شرائط پوری ہونے کا اعلان شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ میں ہوا‘ پیپلز پارٹی حنا ربانی کھر کی بھر پور نمائندگی اور بلاول زرداری کی بے مثل لابنگ کی داد وصول کر رہے ہیں۔عسکری ذرائع نے تھوڑی تاخیر سے ہی سہی صورتحال واضح کر دی کہ بھارت کی ازحد کوشش تھی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال کر دہشت گرد ریاست قرار دلوایا جائے۔ آرمی چیف نے ڈی جی ایم او کی سربراہی میں کور سیل بنایا اور دیگر متعلقہ سول اداروں کے تعاون سے لاگو کردہ شرائط کو پورا کیا۔حقیقتاً عساکر پاکستان سابقہ حکومت اور سول اداروں کے باہمی ربط کے بغیر ان شرائط کی تکمیل ناممکن تھی۔بلاول زرداری مکمل وزیر خارجہ کے عہدے پر متمکن ہونے کے باوجود طفلانہ بیانات دے رہے ہیں۔گزشتہ برس‘ موجودہ حکومتی اراکین نے انہیں کی قیادت میں قومی اسمبلی میں آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور واک آئوٹ کی باتصویر روئیداد ان کی نظروں سے اوجھل ہے یا وہ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔اس ضمن میں حماد اظہر کا نام اور کام دانستہ پس پشت ڈالنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ایف اے ٹی ایف کے اغراض و مقاصد‘ عالمی سازشوں اور استعماری حربوں سے نابلد ایٹمی قوت پاکستان کے گرے لسٹ میں الجھنے پر محو حیرت ہیں۔عمران خان ثانی بہرحال وہ نہیں بن سکے ۔عالمی یا معلوماتی معاملات میں احمقانہ باتیں مطالعہ سے قطعی عاری طبقے کا خاصہ بن چکی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی الف ب سے ناواقف طبقہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ پاکستان کو کہا جا رہا ہے کہ ’’دہشت گردوں‘‘ کی معاونت سے باز رہو اور بھارت ہمسائے کے ہمسائے میں بیٹھ کر پاکستان کے طول و عرض میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔ جس سے اس تنظیم نے آنکھیں پھیر رکھی ہیں۔ترکی سے کہا جاتا ہے کہ شام میں دہشت گردوں کی مدد کرو گے تو نتائج بھیانک ہوں گے اور روسی و امریکی ’’پراکسی‘‘ ان کی نظروں میں عین جائز ہے۔دنیا کے امیر ترین ممالک بالخصوص یورپ اور امریکی زیر سرپرستی معرض وجود میں آنے والی تنظیم دیگر مجبور ممالک کے مالیاتی معاملوں پر نظر رکھ رہی ہے جس کی اصل وجہ اقوام متحدہ کی بے اعتنائی ہے۔ایسا عمداً ہو رہا ہے یا کیا جا رہا ہے اور اسی خلاء کو پر کرنے کے لئے استعماری ممالک اور امریکہ نے ایف اے ٹی ایف کا کھیل بلیک میل کرنے کے لئے رچایا ہے۔اس سے سنجیدہ مذاق اور کیا ہو گا کہ تیسری دنیا کی منی لانڈرنگ کے ذریعے غریب ممالک کے بجٹ سے زیادہ رقوم انہی استعماری قوتوں کے مالیاتی اداروں میں مدفون ہیں اور وہی ہماری معاشی قسمت کے فیصلے کر رہے ہیں۔گرے لسٹ سے نکلنے کے فوائد گنواتے ماہرین معاشیات اور دیگر حکومتی و غیر حکومتی شخصیات بتانا پسند کریں گی کہ گرے لسٹ سے نکل کر ہم معاشی غلامی سے آزاد ہو سکیں گے؟ یا تلوار لٹکتی رہے گی۔