اڑھائی پونے دو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد جمہوری ریاستوں میں عموماً حکومت کے ہاتھ پائوں پھولے ہوتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کا مقابلہ کیسے کرے اور برسر اقتدار آنے سے پہلے اپنے ووٹروں سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لئے کون سا ہنر آزمائے؟ ماضی میں پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت رکھنے والے پاکستانی حکمران بھی اس آزمائش سے گزرتے رہے‘ اس بار مگر معاملہ اُلٹ ہے‘ حکومت اپنی ناکردہ کاری کا ملبہ بھی اپوزیشن پر ڈال کر بول بچن سے کام چلا رہی ہے مگر اپوزیشن ’’دال جوتیوں میں بٹنے والے‘‘ روایتی محاورے کی نوک پلک سنوارنے میں مشغول ہے‘ استعفوں کے معاملے پر شروع ہونے والا انتشار شوکاز نوٹس کے اجرا تک جا پہنچا اور سینٹ میں پہلی بار اپوزیشن دو دھڑوں میں بٹ گئی‘ اپوزیشن کے سرکاری قائد حزب اختلاف سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہیں اور غیر سرکاری لیڈر اعظم نذیر تارڑ‘ایک کو آپ گزٹیڈ لیڈر آف اپوزیشن اور دوسرے کو نان گزٹیڈ لیڈر قرار دے سکتے ہیں۔اللہ نے چاہا تو جواب آں غزل کے طور پر قومی اسمبلی میں بھی یہ تجریہ دہرایا جائے گا۔ 1993ء کے انتخابات کے بعد پارلیمنٹ وجود میں آئی تو سرکاری جماعت اور اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کی تعداد میں انیس بیس کا فرق تھا‘محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور میاں نواز شریف نے قائد حزب اختلاف کی کرسی سنبھالی‘ ماضی میں عددی اعتبار سے اس قدر مضبوط اپوزیشن کی مثال موجود نہ تھی‘ یہ اپوزیشن تجربہ کار‘بارسوخ اور مار کٹائی میں ماہر تھی‘میں نے معروف پارلیمنٹرین حاجی سیف اللہ خان مرحوم سے پوچھا اتنی بڑی اپوزیشن کا مقابلہ کمزور حکومت کیسے کریگی؟حاجی صاحب کا جواب چشم کشا تھا‘بولے‘ اپوزیشن کے بڑے یا چھوٹے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘بنیادی سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کتنی اہل اور بلاصلاحیت ہے‘1970ء کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی بقیہ السیف پاکستان کی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی تعداد بمشکل تیس پینتیس تھی جو سکڑتے سکڑتے بارہ چودہ تک رہ گئی مگر اس اہل اور باکردار اپوزیشن نے دو تہائی سے زیادہ اکثریت اور عوام میں مقبولیت رکھنے والے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو چکرا دیا‘اس قدر زچ کیا کہ اس نے اپوزیشن سے بچنے کے لئے 1977ء کے انتخابات میں شرمناک دھاندلی کا ارتکاب کیا ‘اپنی اور جمہوریت کی قبر کھود ڈالی‘1985ء کی اسمبلی میں اپوزیشن کی تعداد ’’گنجی نہائے گی کیااور نچوڑے گی کیا ‘‘کا مظہر تھی مگر آئین میں آٹھویں ترمیم کے موقع پر اس منحنی اپوزیشن نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق اور ان کے نامزد وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو دن میں تارے دکھائے۔ بعد میں حاجی صاحب کا تجزیہ درست ثابت ہوا اور یہ بھر پور اور مضبوط اپوزیشن حکومت کے خلاف سازشوں کے سوا کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکی۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد تنکا تنکا جوڑ کر عمران خان کی مضبوط حکومت قائم ہوئی تو خطرہ یہ تھا کہ تجربہ کار اور بیورو کریسی اور تاجر طبقے میں اثرورسوخ کی حامل اپوزیشن حکومت کو زیادہ عرصہ چلنے نہیں دے گی‘ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جوڑ توڑ کی صلاحیت‘ برسوں کی مہارت اور سٹریٹ پاور کو بروے کار لا کر تگنی کا ناچ نچائے گی‘پی ڈی ایم وجود میں آئی تو مخالفین کی توقعات مزید بڑھ گئیں مگر سینٹ انتخابات کے بعد یہ ساری اُمیدیں نقش برآب ثابت ہوئیں اور حکومت جوں کی توں اپنے دشمنوں کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف کے معاملے پر مریم نواز اور بلاول بھٹو کی توتکار اور ان کے پیروکاروں کی ایک دوسرے پر الزام تراشی سن کر لوگ انگشت بدنداں ہیں کہ مریم نواز کے بقول ایک’’ معمولی عہدے ‘‘کی بندر بانٹ دونوں جماعتیں مل بیٹھ کر خوش اسلوبی سے نہیں کر سکتیں تو کل کو اسمبلیوں کے ٹکٹ اور وزیر مشیر کے مناصب کی تقسیم کے مرحلے پر یہ ایک دوسرے سے کیا سلوک کریں گی‘ جن جماعتوں کی لیڈر شپ کے لئے قائد حزب اختلاف کا منصب اُصولوں ‘نعروں‘ ایجنڈے اور بیانئے سے برتر ہے وہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ ’’سول بالادستی‘‘ اور ’’اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نامنظور‘‘ کے نعرے بھول کر اپنے گندے کپڑے بیچ بازار کے دھونے پر اُتر آئی ہیں وہ کسی بڑے منصب کے لئے کیا کچھ نہیں کرتی ہوں گی؟ شوکاز نوٹس کے اجراء کے بعد پیپلز پارٹی اور اے این پی کا پی ڈی ایم یا زیادہ درست معنوں میں مسلم لیگ(ن) کے ساتھ نباہ مشکل نظر آتا ہے۔نوابزادہ نصراللہ خان جیسا کوئی مرنجاں مرنج‘جوڑ توڑ کا ماہر اور ہر فن مولا سیاستدان پی ڈی ایم کا سربراہ ہوتا تو معاملات کو اس حد تک بگڑنے نہ دیتا اب مگر مولانا ہیں‘ خوئے انتقام جن کو عملیت پسندی کی طرف مائل ہی نہیں ہونے دیتی‘جوتیوں میں دال بٹنے کے موقع پر مولانا کی مشہور زمانہ فراست اور خوئے دلنوازی کا پول بھی کھل گیا‘ وہ چاہتے تو پی ڈی ایم کو لشتم پشتم چلانے کے لئے بات شوکاز نوٹس تک نہ پہنچنے دیتے مگر ہونی ہو کر رہتی ہے‘ پی ڈی ایم کی تقسیم کا حکومت کو مگر فائدہ اس صورت میں پہنچ سکتا ہے کہ وہ صبح‘دوپہر‘ شام اپوزیشن کے لتّے لینے اور اپنی ہر ناکامی کا ملبہ سابقہ حکمرانوں پر ڈالنے کے بجائے مہنگائی‘ بے روزگاری کے خاتمے اور گورننس کی بہتری پر توجہ دے۔آٹا ‘ دال ‘ گھی ‘چینی‘ سبزی ‘ دودھ‘ پھل‘ بجلی اور گیس کی مہنگائی نے کرپشن کے خلاف حکومت کے بیانیے کو کمزور کیا ہے اور عمران خان کی دیانتداری پر عدم صلاحیت و ناکردہ کاری کا پردہ ڈال دیا ہے۔ اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ(ن) مہنگائی اور افلاس کے ستائے عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہے کہ سابقہ حکمران کرپٹ مگر عام آدمی کی ضروریات سے واقف تھے واقف ہی نہیں ہمدرد تھے‘ ایسی ایمانداری کا کیا فائدہ جو عوام کو بھوکا مار دے اور دیانتدار حکمران اگر مافیاز کے سامنے بے بس ہے تو فاقہ کش قوم کو کتنے نفل کا ثواب‘ حکومت کی فیصلہ سازی کے عمل پر سوالیہ نشانات ہیں‘ بھارت سے چینی‘ کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کا فیصلہ اور چوبیس گھنٹے بعد یوٹرن نے سنجیدہ طبقات کو حیران کر دیا اگر یہ فیصلہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کچن کیبنٹ سے بالا بالا ہوا تو افسوس ناک اور اگر خان صاحب کے علاوہ ان کے مشیر فیصلے کے سیاسی و سفارتی مضمرات کا ادراک نہ کر سکے‘ مسئلہ کشمیر پر منفی اثرات کا اندازہ نہ ہوا تو شرمناک و باعث ندامت ہے‘وفاقی کابینہ نے فیصلہ واپس لے لیا مگر وضاحت ابھی تک نہیں آئی کہ یہ کس عقلمند کا مشورہ تھا اور حماد اظہر کو اعلان کرنے کی جلدی کیوں تھی‘محض رونمائی کا شوق یا ناقص انداز فیصلہ سازی کا شاخسانہ۔ پی ڈی ایم تو فی الحال اپنے زخم چاٹ رہی ہے مگر عمران خان نے وعدے کے مطابق ٹیم میں جوہری تبدیلی نہ کی‘ پنجاب کے دگرگوں معاملات کو خوش اسلوبی سے نہ سنبھالا اور عوام کو مہنگائی کے عفریت سے نجات نہ دلائی تو بجٹ کی منظوری مشکل ترین مرحلہ ہو گا۔حفیظ شیخ کی شکست کا صدمہ حکومت سہہ گئی‘مگر میرے خیال میںیہ محض ریہرسل تھی‘بڑی آزمائش شائد آگے چل کر پیش آئے۔پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔